دنیا

خونی طالبان آمریت کے دو سال مکمل: 48 ملین افغان بھوک کا شکار

فاروق سلہریا

آج کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس قبضے پر فتح کے شادیانے بجانے والوں میں خواجہ آصف بھی آگے آگے تھے۔ چند روز قبل، موصوف شکوہ کر رہے تھے کہ طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی سر پرستی کر رہے ہیں۔ پاکستان کا سرمایہ دار میڈیا طالبان کی محبت میں مجنوں اور فرہاد بنا ہوا تھا۔ اور تو اور سویڈن کے سرکاری چینل ’ایس وی ٹی‘ کے ایک عرب نژاد رپورٹر (ثمیر ابو عید) نے ایک لمباٹی وی فیچر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طالبان بھلے ’مغرب زدہ‘ شہری حلقوں میں مقبول نہ ہوں، دیہی آبادی میں بہت مقبول ہیں۔

دو سال کے بعد حالت یہ ہے کہ:

۱۔ 48 ملین (دو تہائی آبادی) افغان شہریوں کو ایمرجنسی بنیادوں پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ 4 ملین افراد شدید قسم کی کم خوراکی کا شکار ہیں۔ ان میں 3.2 ملین ایسے بچے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔ اقوام متحدہ سمیت مختلس عالمی تنظیمیں افغانستان کو دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دے رہی ہیں۔

۲۔ عورتوں کی تعلیم کے علاوہ اکثر شعبوں میں عورتوں کی ملازمت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے (ویسے طالبان قیادت کی اپنی بیٹیاں قطر اور پاکستان میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں)۔ بعض شعبوں میں خواتین کو تنخواہ تو دی جا رہی ہے مگر انہیں دفتر آنے کی اجازت نہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں طالبان نے عالمی این جی اوز کی ملازم خواتین پر پابندی لگا دی البتہ منافقات ملاحظہ کیجئے تعلیم، صحت اور خوراک کے شعبوں میں کام کرنے والی عالمی این جی اوز کو اس پابندی سے مستثنیٰ کیا گیا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر عورت کا کام کرنا غلط ہے تو ان شعبوں میں پابندی کیوں نہیں لگاتے؟

۳۔ طالبان کے سر پرست اعلیٰ پاکستان سمیت کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

۴۔ ملک میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے بالخصوص داعش کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر حملے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے مختلف گروہ آپس میں گتھا ہیں۔

طالبان آمریت نے ایک مرتبہ پھرثابت کیا ہے کہ مذہبی جنونیت معاشی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور انفرادی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ جو قوتیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ملک میں ’اسلامی نظام‘ لاگر کرنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے انہیں افغانستان کی طرف دیکھنا چاہئے۔

دریں اثنا، معلوم نہیں کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے کے مزے لینے والے جنرل فیض حمید، ’غلامی کی زنجیریں توڑ دینے پر‘ بڑھکیں لگانے والے عمران خان، ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر اللہ اکبر کے نعرے لگانے والے اینکر پرسن طالبان کی دو سالہ ’کامیابیوں‘ پر آج شام کیا راگ الاپیں گے (یا منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل کا ذکر گول کر جائیں گے)؟

ہاں البتہ محدود پیمانے پر سہی مندرجہ ذیل افسوسناک یاد دہانی ضروری ہے:

ترقی پسند قوم پرست اور بایاں بازو مسلسل پاکستانی ریاست سے مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ افغانستان میں مداخلت بند کی جائے۔ بار بار یہ تجزیہ پیش کیا جاتا رہاکہ کابل میں طالبان کی واپسی کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جو آگ افغانستان میں لگائی جائے گی، اس کا دھواں پاکستان سے اٹھے گا۔ گذشتہ دو سال میں یہ تجزیہ بالکل درست ثابت ہوا۔ پشتون خطہ نئے سرے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے…لیکن یاد رہے راولپنڈی پشاور سے زیادہ دور نہیں ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔