پاکستان

کالا باغ لابی نہیں بتائے گی کہ لیبیا میں 2 ڈیم ٹوٹنے سے 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے

حارث قدیر

لیبیا میں بحیرۂ روم کے سمندری طوفان ’ڈینیل‘ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے، جبکہ 10 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ قدرتی آفت گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے لیبیا کے کئی علاقوں میں موسلا دھار بارش ہوئی۔ اس بارش کی وجہ سے اوادی دیرنا شہر کے اوپری حصے میں واقع بو منصور اور البلاد ڈیم ٹوٹ گئے۔

یہ ڈیم قذافی دور میں 1970ء کی دہائی میں ڈیزائن کئے گئے تھے۔ تاہم 20 سال تک ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور 1998ء میں ان میں شگاف پڑ گیا تھا۔ لمبے عرصہ سے یہ انتباہ جاری کیا جا رہا تھا کہ ڈیموں کی دیکھ بھال کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں بصورت دیگر تباہ کن نتائج برآمد ہونگے۔ تاہم اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

سمندر طوفان کی پیش گوئی کے نتیجے میں بھی احتیاطی تدابیر کے طور پر لوگوں کو وہاں سے نکالنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ڈیم ٹوٹنے کے باعث سیلاب کئی میٹر اونچے کیچڑ کے طوفان میں بدل گیا جس کی زد میں آنے والا دیرنا شہر کا ایک چوتھائی حصہ سمندر کی نذر ہو گیا۔

اس تباہی کے نتیجے میں پینے کی صاف پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے، وبائی امراض کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ آلودہ پانی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ متاثرین تک رسائی کیلئے پل اور سڑکیں منقطع ہونے کی وجہ سے کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ کیچڑ میں لاشیں تلاش کرنا دشوار ہونے کی وجہ سے آلودگی اور تعفن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سب سے نمٹنے کیلئے لیبیا میں کوئی منظم حکومت موجود نہیں ہے۔ دو غیر منظم حکومتیں لیبیا میں تیل کے ذخائر کے قبضے کیلئے دست و گریباں ہیں۔ اس چپقلش میں اس ملک میں رہنے والے انسان پہلے ہی انتہائی تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے تھے، اب ایک آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ جس عرصہ میں لیبیا میں ٹوٹنے والے یہ ڈیم تعمیر ہوئے تھے، اسی عرصہ میں جموں کشمیر کے اندر منگلا ڈیم بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس بھاری بھرکم ڈیم کی 2003ء میں اپ ریزنگ بھی کی گئی اور اس ڈیم میں جب پانی مقررہ حد تک بھر جاتا ہے تو میرپور شہر زلزلوں کی زد میں آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیم کے ٹوٹنے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ اگر چند سال پہلے کی طرح کوئی ایک زلزلہ بھی آگیا تو منگلا ڈیم نہ صرف میرپور میں بلکہ پنجاب کا اکثریتی علاقوں کے باسیوں کیلئے دیرنا کے باسیوں سے کئی گنا بڑا قہر بنتے دیر نہیں لگائے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ اسی عرصہ میں تعمیر ہونے والا برازیل کا ایک ڈیم بھی ماضی میں ٹوٹنے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن چکا ہے۔

دوسری طرف آج بھی پاکستان میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کی وکالت مسلسل کی جا رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے مسلسل ایک لابی آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ دیامر بھاشا، تربیلا، منگلا، کروٹ ہولاڑ سمیت کئی ڈیم تعمیر ہو چکے ہیں اور کالاباغ ڈیم سمیت کئی دیگر ڈیم تعمیر کرنے کیلئے اکثر آوازیں اٹھائی جاتی رہتی ہیں۔

درحقیقت ورلڈ بینک اور دیگر عالمی سامراجی اداروں کی ایما پر بڑے ڈیمو ں کے منصوبہ جات شروع کروائے گئے تھے۔ ان ڈیموں کی تعمیر کیلئے فنڈنگ اور سرمایہ کاری بھی انہی اداروں کی جانب سے کی گئی تھی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں بڑے ڈیموں کو ختم کیا جا رہا ہے، لیکن پسماندہ ملکوں میں سامراجی اداروں کی ایما پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور کمائی کیلئے بڑے ڈیموں کی نہ صرف وکالت کی جاتی ہے بلکہ ڈیموں کو تعمیر کرنے کیلئے اثر و رسوخ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چین کی جانب سے بھی ڈیموں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کا ایک سلسلہ موجود ہے۔

بڑے ڈیموں کے علاوہ پانی ذخیرہ کرنے کے دیگر زیادہ پائیدار اور ماحول دوست ذرائع بھی موجود ہیں۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر پانی نہ صرف ذخیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ ماحول کو آلودگی سے بچانے کے ساتھ ساتھ ایکو سسٹم کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا بڑے ڈیموں کی وکالت کرنے کی بجائے بڑے ڈیموں کے نقصانات اور تباہیوں کو زیر بحث لاتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کے پائیدار اور ماحول دوست طریقوں کو اپنانے کی وکالت اور جدوجہد کرنی ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔