دنیا

’میرا سلطان‘ کی یورپ کو دھمکی ملاحظہ فرمائیں!

فاروق سلہریا

سلطان رجب طیب اردگان نے کردوں پر حالیہ فوج کشی سے پہلے یورپ کو دھمکی دی ہے کہ اگر یورپ نے ان کی فوج کشی کی مخالفت کی تو وہ ترکی میں پناہ گزیں چھتیس لاکھ شامی مہاجروں کو یورپ بھیج دیں گے۔

ذرا سلطان کی اعلیٰ ظرفی ملاحظہ کیجئے!

میرا سلطان اردگان عالیشان ابھی چند دن پہلے مغرب کو اسلاموفوبیا کے طعنے دے رہا تھا۔ ظلِ سبحانی سے کوئی پوچھے کہ اے خلیفتہ الوقت اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو تم کافروں کے دیس کیوں بھیجنا چاہتے ہو جبکہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ وہاں اتنا زیادہ اسلاموفوبیا ہے کہ تمہیں اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان اور مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر ٹیلی وژن چینل شروع کرنا پڑ رہا ہے۔

اس بیان کے اخلاقی دیوالیہ پن پر بات کرنے سے پہلے ذرا اس بیان میں چھپے اقبال جرم پر توجہ بھی ضروری ہے۔

اس بیان سے بالکل واضح ہے کہ شامی پناہ گزین سلطان اردگان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اسلاموفوبیا سے بھر پور یورپ جانے کو ترجیح دیں گے، شرط صرف اتنی ہے کہ سلطان عالیشان ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے۔

ویسے سچ بھی یہی ہے۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ سلطان اردگان ہی نہیں، شامی مہاجرین نے امہ کے ہر ٹھیکیدار کا منافقت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آیت اللہ حضرات کے اسلامی جمہوریہ ایران سے لے کر آل سعود کی وہابی بنیاد پرستی  تک، قطر سے لے کر دبئی تک، امہ کے سب ٹھیکہ داروں نے دہشت گرد تو شام ضرور ارسال کئے مگر شام کے لوگوں کو پناہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔

شام سے قبل یہ سلوک افغان پناہ گزینوں سے کیا جاتا رہا۔ امہ کے ایک سابق ٹھیکیدار، ایران کے سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں افغان پناہ گرینوں کو ایران سے نکالا گیا۔ یہی حال امہ کے خود ساختہ ابا جی یعنی پاکستان نے کیا۔ جب تک افغان پناہ گزینوں کے نام پر امریکہ سے ڈالر اور اسلحہ ملتا رہا، وہ مسلمان بھائی تھے۔

جب ڈالر آنا بند ہو گئے تو افغانوں کو نکا باہر کیا۔

فلسطینی بے چارے تو 1948ء سے عرب ملکوں میں مہاجر کے طور پر رہ رہے ہیں کسی عرب ملک نے انہیں شہریت نہیں دی۔

اسلاموفوبیا؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔