خبریں/تبصرے

لاپتہ افراد کمیشن: 8 کروڑ 28 لاکھ کی سالانہ تنخواہیں، نتیجہ صفر

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کی مدت میں تاحکمِ ثانی توسیع کر دی گئی ہے۔ ماضی لاپتہ افراد کمیشن کی مدت میں 6ماہ سے تین سال تک کی توسیع کی جاتی تھی۔ تاہم اب غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی گئی ہے۔

2011ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں قائم ہونے والے لاپتہ افراد کمیشن کی کارکردگی سرکاری دستاویزات اور اعداد و شمار تک ہی محدود رہی ہے۔ اپنے قیام سے ہی جسٹس (ر) جاوید اقبال اس کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر کمیشن میں 39کے قریب افسران اور ملازمین موجود ہیں۔

صحافی معظم فخر نے اپنے ایک ’ولاگ‘ میں دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین لاپتہ افراد انکوائری کمیشن جسٹس(ر) جاوید اقبال نے بطور چیئرمین منسٹرز انکلیو میں سابق وزیر خارجہ کو الاٹ کیا جانے والا بنگلہ نمبر29بھی اپنی زیر تصر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بطور چیئرمین نیب بھی ان کے پاس ایک سرکاری رہائشگاہ موجود ہے۔

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور چیئرمین نیب کے طور پرپنشن، تنخواہ اور مراعات کے علاوہ صرف بطور چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن جسٹس (ر) جاوید اقبال ماہانہ 6لاکھ 74ہزار روپے تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ لاپتہ افراد کمیشن کے دیگر اراکین میں جسٹس ضیاء پرویز ماہانہ 8لاکھ29ہزار روپے، جسٹس امان اللہ خان ماہانہ 11لاکھ40ہزار روپے اور سابق آئی جی پولیس محمد شریف ورک 2لاکھ61ہزار52روپے ماہانہ تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں۔

ان کے مطابق لاپتہ افراد انکوائری کمیشن میں افسران اور ملازمین کی تعداد35ہے اور ان کو ماہانہ 40لاکھ روپے سے زائد کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ یوں صرف لاپتہ افراد کمیشن سے منسلک افراد سالانہ 8کروڑ28لاکھ روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کرتے ہیں۔

دوسری جانب اگر اس کمیشن کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ابھی تک شہریوں کو لاپتہ کرنے والے کسی بھی ادارے، ایجنسی، یا فرد کے خلاف کسی کارروائی اور انکوائری کی تحریک تو درکنار محض نام بھی نہیں لیا جا سکا ہے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن کے پاس 2011سے 2023تک مجموعی طورپر 6237لاپتہ افراد کے کیسزموصول ہوئے۔ جن میں سب سے زیادہ 3485 کے پی سے اور 2752بلوچستان سے جبری گمشدگی کے کیسز موصول ہوئے۔

رپورٹ میں بتایاگیا کہ کے پی سے شہریوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ شرپسندی اور ڈرون حملوں میں ہلاکتیں ہیں، جنگی حالت کی وجہ سے فیملی کو بتائے بغیر بیرون ملک چلے جانا بھی جبری گمشدگی کے کیسز کی وجہ ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ لاپتہ افراد کو پیش کرنے کیلئے774پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے، جن میں سے صرف52پر عمل ہوا۔ کمیشن کے جاری کردہ 692پروڈکشن آرڈرز پر متعلقہ حکام نے عمل ہی نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق پروڈکشن آرڈرز پر نظر ثانی کیلئے پولیس اور حساس اداروں نے 182درخواستیں دیں۔ عملدرآمد نہ ہونے والے پروڈکشن آرڈرز میں سے503کے پی سے ہیں۔ مارچ2011سے دسمبر2023کے دوران 4413لاپتہ افراد گھروں کو واپس پہنچے۔

لاپتہ افراد کمیشن کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کمیشن کا قیام جبری گمشدگیوں کو جسٹیفائی کرنے کیلئے راستہ نکالنے جیسے اقدامات سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے پاس رپورٹ ہونے والے کیسز کے مطابق صرف بلوچستان میں 2016ء سے قبل 14ہزار سے زائد جبری گمشدگیاں ہوئیں، جبکہ لاپتہ افراد کمیشن کے پاس 12سال میں محض 6237کیسز موصول ہوئے۔

دوسری طرف ریاستی اداروں کی حراست میں موجود جن 774جبری گمشدگی کا شکارافراد کو پیش کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ان میں سے بھی صرف52کو پیش کیا جا سکا۔ باقی 692افراد کو پیش نہیں کیاگیا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ لاپتہ افراد انکوائری کمیشن عملی طور پر غیر موثر ہے اور اسکاخزانے پر اضافی بوجھ سے زیادہ کوئی کردار نہیں ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts