لاہور(پ ر) بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹیو (پی ایس سی)اور ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ(آر ایس ایف) سمیت لاہور کے مختلف تعلیم اداروں کے طلبہ نے بدھ کے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ ماہ 20نومبر کو ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کیے جائیں گے۔
پریس کانفرنس میں لاہور، راولپنڈی، گجرات اور دیگر شہروں میں کالجز کے احتجاجی طلبہ پر بدترین پولیس گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ طلبہ رہنماؤں کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے طلبہ پر سکیورٹی انتظامیہ کے جانب سے تشدد پر بھی انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
طالب علم رہنماؤں علی عبداللہ، اویس قرنی، سارہ علی، حارث آزاد، حماد کاکڑ اور دیگر کا کہنا تھا کہ ماہ اکتوبر کے وسط سے لاہور کے پنجاب کالج سے پھوٹنے والے طلبہ مظاہرے، جو کئی شہروں تک پھیل گئے، درحقیقت سماجی سطح کے نیچے پلنے والی نفرت، غصے اور مسلسل عدم اطمینان کا اظہار تھے۔ ان مظاہروں کی شدت اور ان میں شریک کالج کے طلبا و طالبات پر ہونے والی بدترین پولیس گردی نے اس بحث کو بے معنی بنا دیا ہے کہ مظاہروں کا موجب بننے والے مبینہ زیادتی کے واقعے کی حقیقت کیا ہے، جبکہ خود حکومتی اہلکاروں کے بیانات تضادات سے لبریز ہیں۔ پنجاب گروپ آف کالجز تعلیم کے دھندے میں ایک ٹائیکون کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ریاست نے اس منافع بخش سرمایہ کاری کی حفاظت کی خاطر انٹرمیڈیٹ کے معصوم بچوں پر ایسی یلغار کی کہ لاہور، راولپنڈی اور گجرات جیسے شہروں کی شاہراہیں جنگی محاذ کا منظر پیش کرتی رہیں۔ ایک طرف نہتے بچے‘بالخصوص بچیاں تھیں۔ دوسری جانب لاٹھیوں، بندوقوں، بکتر بند گاڑیوں اور ان گنت آنسو گیس کے شیلوں سے مسلح ریاستی اہلکار۔ سولہ سترہ سال کے بچوں پر بدترین تشدد کے علاوہ سینکڑوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ایسے میں حکمران دھڑوں کے مختلف رحجانات نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ان مظاہرین کو مشتعل کرنے کے لیے انتہائی مجرمانہ پروپیگنڈا بھی کیا۔
یہ مظاہرے درحقیقت طلبہ کا نجی تعلیمی اداروں کی دھونس اور بدمعاشی کو سہتے رہنے سے انکار تھا۔ آج تمام نجی تعلیمی ادارے‘ بالخصوص کالجز باقاعدہ جیل خانہ جات کی طرز پر چلائے جا رہے ہیں۔ بیشتر نجی یونیورسٹیوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ادارے کے مرکزی گیٹ میں سے داخل ہونے کے بعد ہر نوجوان ایک نفسیاتی ہیجان اور خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بھاری بھرکم فیسیں ہیں لیکن مستقبل تاریک۔ یہ مظاہرے نجی تعلیمی اداروں کی اسی جابرانہ روش کے خلاف ایک انتباہ تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی عملداری اور فیصلہ سازی میں طلبہ کی فعال شمولیت کے ذریعے سے ہی کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ جمہوری انداز سے منتخب طلبہ کی ہراسانی مخالف کمیٹیوں کی تشکیل اور ادارے کے معاملات میں اپنی آواز ٹھانے کا حق حاصل کرنے کی جدوجہد اس جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 20 نومبر کو لاہور سمیت دیگر شہروں میں مندرجہ ذیل مطالبات کے گرد تاریخ ساز طلبہ یکجہتی مارچ کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔یکجہتی مارچ کے لیے مطالبات درج ذیل ہونگے:
1۔ طلبہ یونین کوبحال کرتے ہوئے ملک بھر میں یونین الیکشن کا شیڈول فوری جاری کیا جائے۔
2۔ تمام تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسانی کمیٹیوں کا قیام اور اس میں جمہوری انداز سے منتخب طلبہ بالخصوص طالبات کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
3۔ طلبہ کی شمولیت کے ساتھ ایک آزاد کمیشن بنایا جائے، جو پچھلے چند سال میں تعلیمی اداروں میں ہونے والے ہراسانی کے واقعات کی تحقیقات کرے اور ان رپورٹس کو پبلک کیا جائے۔
4۔ پنجاب کالج ہراسانی واقعہ کے سلسلے ہونے والے احتجاجوں میں طلبہ پر ہونے والے تشدد کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں اور پرائیوٹ گارڈز اور ان کو تشدد کا حکم دینے افسروں اور حکومتی اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
5۔ پورے ملک میں طلبہ پر ہونے والی ایف آئی آرز فوری طور پر واپس لی جائیں اور تمام طلبہ کو غیر مشروط رہا کیا جائے۔ احتجاجوں میں شامل طلبہ پر تعلیمی اداروں کی جانب سے ڈسپلنری ایکشن یا تادیبی کاروائیوں کا سلسلہ فوراً بند کیا جائے۔
ان مطالبات کے گرد ملک بھر میں طلبہ کی جڑت اور یکجہتی کے لیے سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ طلبہ رہنماؤں کی جانب سے ان مطالبات کے فوری تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ بھی دیا گیا۔