دنیا

میں عورت ہوں

علی مدیح ہاشمی

”میں عورت ہوں،میری پکار سنو/میں اتنی بڑی تعداد میں ہوں کہ نظرانداز کرنا مشکل ہے/میں اتنا کچھ جان چکی ہوں کہ اب مجھ سے دکھاوے کی زندگی نہیں گزاری جائے گی/کیونکہ میں نے یہ سب بہت پہلے سنا ہے/میں عرصے سے زمین بوس پڑی ہوں /اور مجھے سنبھالنے والا کوئی نہیں“ (میں عورت ہوں: ہیلن ریڈی (1972ء)

2013 میں ہالی ووڈ سٹار انجلینا جولی نے ایک چونکا دینے والا اعلان کیا: انہوں نے ایک پروفیلیکٹک ڈبل ماسٹیکٹومی کروائی تھی، ان کی چھاتی کو جراحی سے ہٹا دیا گیا تھا حالانکہ انہیں بریسٹ کینسر نہیں تھا،جو اس طرح کے ریڈیکل آپریشن کی عمومی وجہ ہوتی ہے۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ان کے ہاں BRCA1 نامی جین کی تشخیص ہوئی تھی،جو عورت کو چھاتی اور رحم کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات کو نمایاں طور پر بڑھاتا ہے (ایک اور جین BRCA2 بھی خواتین اور مردوں دونوں میں چھاتی کے کینسر کے امکانات کو بڑھاتا ہے)۔ ایسی خواتین جن کے کم از کم دو قریبی رشتے داروں، یعنی ماں، بہن یا بیٹی کو اگر چھاتی یا رحم کا کینسر ہوا ہے تو ان کو بھی خطرہ زیادہ ہوتا ہے (انجلیناجولی کی والدہ کا انتقال رحم کے کینسر سے 56 سال کی عمر میں ہوا تھا)۔ ان خواتین کے لئے موزوں ہوتا ہے کہ وہ پروفیلیکٹک ماسٹیکٹومی کرا ہیں۔

انجلینا جولی ہمارے دور کی سب سے اعلیٰ پروفائل ہالی ووڈ مشہور شخصیات میں سے ایک رہی ہیں، اور ایسا صرف اسکرین پر ان کی پرفارمنس کی وجہ سے نہیں تھا۔ان کی زندگی ہالی ووڈ کے بیشتر ستاروں سے زیادہ ڈرامائی رہی ہے، جس میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل بھی شامل ہیں۔ ان کو صرف 22سال کی عمر میں 1999میں فلم ’گرل انٹرپٹڈ‘میں شدید ذہنی بیماری میں مبتلا لڑکی کی تصویر کشی کرنے کے لیے اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ وہ اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے خلاف بہت کھل کر جدوجہد کرتی رہی ہیں اور انہیں اپنے طریقوں کی وجہ سے دماغی صحت پر بہت زیادہ ضروری توجہ دلانے میں بھی مدد ملی ہے۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ وہ شو بزنس میں کہتے ہیں، بری تشہیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

پاکستان میں چھاتی کا کینسر خواتین میں پائے جانے والے تمام کینسرکیسز کا ایک تہائی ہے۔ یہ تناسب خطے کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔ اس جان لیوا حالت میں مبتلا خواتین کی تعداد مغربی ممالک میں بہت زیادہ ہے۔تاہم یہ جزوی طور پر اعلیٰ تعلیم اور عام آبادی میں بیداری کی وجہ سے ہے اور جزوی طور پر یہ بہتر اسکریننگ اور تشخیص کے طریقوں کی وجہ سے ہے کہ وہ جلد علاج کروا سکتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کی جلد تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت بہتر بقا ء اور طویل مدتی صحت کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے برعکس ہم مختلف وجوہات کی بناء پر مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ ذہنی صحت، خاص طور پر خواتین سے متعلق تمام چیزوں کے حوالے سے انتہائی خوف اور رازداری برتی جاتی ہے۔جب یہ معاملہ خواتین کے تولیدی مسائل کے ساتھ جڑتا ہے، جو بہرحال ممنوع مضامین ہیں، تو ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے طور پر ہمارا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

عاصمہ* 30 کی دہائی میں ایک جوان ماں تھی، جسے گھر والے اپنے گاؤں سے لائے تھے۔ اگرچہ یہ 1990 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے، جب میں میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوا تھا، تب سے اس کی کہانی میرے دماغ سے مھو نہیں ہوئی۔

جب اسے ہمارے سرکاری ہسپتال کے بڑے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں لایا گیا تو وہ تقریباً بے ہوش تھی۔ خاندان کے زیادہ تر افراد، جو سارے دیہاتی تھے،کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر کار جب ہم نے ایک بوڑھی عورت کو تلاش کیا جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کر سکے کہ کیا غلط ہوا ہے۔ اس نے ہمیں خاموش لہجے میں بتایا کہ عاصمہ کے سینے میں کچھ گڑ بڑ ہے۔جانچ پڑتال پر ہم نے اس کی چھاتیوں کو بدبودار، خونی پٹیوں میں لپٹا ہوا پایا۔ ہم اسے اپنے آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور ایک بار جب ہم بوسیدہ، بدبودار پٹیوں کو کھولنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم سب خوفزدہ ہو گئے: اس کی ایک چھاتی کھا ئی جا چکی تھی۔ اس کے ارد گرد کا زخم سیاہ اور پیلا تھا، پیپ اور خون نکل رہا تھا۔ جب ہم نے گھر والوں سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ یہ سلسلہ مہینوں، شاید برسوں سے چل رہا تھا۔ عاصمہ کو آخر کار چھاتی کے کینسر کے ایڈوانس کیس کے طور پر تشخیص کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد وہ فوت ہو گئی۔

ایک ماہر نفسیات کے طور پر میں نے چھاتی کے کینسر سے متعلق ذہنی صحت کے مسائل کے ساتھ لاتعداد خواتین (اور کم از کم ایک مرد) کا علاج کیا ہے۔ بلاشبہ دماغی صحت کے پیشہ ور کے طور پر میرا کردار چھاتی کے کینسر کے مناسب علاج کے بعد شروع ہوتا ہے، جو خود پیچیدہ اور مشکل ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا اور دردناک ہے اور اس کے لیے وسائل قابل رحم حد تک کم ہیں۔ سرکاری اسپتال مریضوں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے بھرے رہتے ہیں۔ اگرچہ شوکت خانم کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر جیسے نجی اداروں کے ساتھ علاج کی سہولیات کو بتدریج بڑھایا جا رہا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کینسر جیسی ممکنہ طور پر ختم ہونے والی بیماری کا سامنا کرنے کے نفسیاتی اثرات اور جسم پر بیماری (اور اس کے علاج) کے اثرات کی وجہ سے بہت زیادہ خوف، اضطراب اور افسردگی پیدا ہوتی ہے۔

یہ واضح ہونا چاہئے کہ کینسر میں مبتلا کسی کی ذہنی صحت کا خیال رکھنا ایک ترجیح ہونی چاہئے۔ یہ بات سیکڑوں تحقیقی مطالعات میں ثابت ہوئی ہے کہ اگر مریضوں کو ان کے کینسر کے علاج کے ساتھ ساتھ جذباتی مدداور نفسیاتی علاج بھی فراہم کیا جائے، تو بہتر نتائج اور مریضوں کی بہتر بقاء ممکن ہوتی ہے۔ پاکستان میں دماغی صحت اور دماغی امراض کا علاج نہ کروانے کے نتائج کے بارے میں بیداری ابھی ابتدائی حالت میں ہے، خاص طور پر بڑے شہری علاقوں سے باہر ہمارے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ 30 سال بعد بھی عاصمہ جیسی خواتین کو ہمارے اسپتالوں میں لایا جا رہا ہے۔ ہر شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ بیوی، ماں یا بیٹی کی ایسی بیماری کی وجہ سے موت کا خاندان پر کیا اثر ہو سکتا ہے، جس بیماری کی جلد تشخٰص پرتیزی سے علاج ہو سکتا ہے۔

ہم چھاتی کے کینسر کے علاج میں پیشرفت کر رہے ہیں لیکن کینسر کے مریضوں اور ان کے اہل خانہ دونوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

(نوٹ: شناخت کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے مریضہ کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔)
(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: حارث قدیر)

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔