پاکستان

5فروری: ریاست کا قصور نہیں معاشرہ ہی اختراعی سوچ سے عاری ہے

حارث قدیر

اختراع یا انوویشن کا عمل معاشرے میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں اختراعی عمل کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔بالخصوص سرمایہ دارانہ معاشرے میں صنعتی پیداوار اور پھر ڈیمانڈ کی تشکیل کیلئے مارکیٹنگ کیلئے اختراع یا انوویشن کا کردار کلیدی رہا ہے۔ ریاست بھی حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کیلئے اختراعی عمل سے گزرتے ہوئے اتنی مہارت حاصل کرتی گئی ہے کہ ایک وقت میں جبر کے آلے کے طور پر کام کرنے والی ریاست نے جبر و تسلط کو اس قدر مخفی کر دیا کہ ریاست ’ماں‘ کہلانے لگی۔ ریاست کا مقصد حالانکہ وہی رہا اور جبر کے آلے کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔

پسماندہ معاشروں میں البتہ معاشی بحران کا سیاسی، سماجی اور ثقافتی اظہار روز اول سے عروج پررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 7دہائیاں گزرنے کے باوجود دیواروں پر لکھے مصنوعات کے اشتہارات سے لیکر نظام حکمرانی کو قائم رکھنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات تک کوئی اختراع ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی، بلکہ ایک یکسانیت نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء کے اخبارات میں شائع ہوئی خبریں پڑھیں تو بھی یہی لگتا ہے، جیسے آج کل کا کوئی اخبار ہے۔ 7دہائیوں پہلے کسی دیوار پر لکھا گیا کوئی سیاسی نعرہ، یا کسی دوا کا اشتہار اگر محفوظ رہ گیا ہو تو اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ پرانا ہے یا نیا۔

کسی حکمران کو اقتدار سے الگ کرنا ہو، انتخابی سیاست سے باہر نکالنا ہو، یا پھر کسی عوامی تحریک سے نپٹنا ہو۔۔۔۔غداری، ملک دشمنی اور مذہبی توہین وغیرہ کا استعمال آج بھی مقبول طریقہ کار ہے۔ قومی جبر کے جواز کے لئے قومی جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو دشمن ملک کے ایجنٹ قرار دینا، سیاسی تحریکوں کو روکنے کیلئے ان کے متبادل ’ڈمی‘ یا ریاستی سہولت کاروں کے جلسے، ریلیاں اور دھرنے منعقد کروا کر لوگوں کو کنفیوز کرنے کا ہتھکنڈا بھی آج تک تبدیل نہیں کیا جا سکا۔

شہداء کے وارث اور کمزور دل حضرات کی ایک وافر مقدار ہمیشہ کسی بھی نوعیت کا مقدمہ دائر کرنے یا پریس کانفرنس کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ جتنا شہداء کو پاکستان میں بیچا گیا ہے، یوں لگتا ہے کسی روز شہداء نے اٹھ کر اس پر احتجاج شروع کر دینا ہے۔

اختراعی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ریاست ایسے موقع کی تلاش میں رہتی ہے کہ جب احتجاج یا رد عمل دینے والا عنصر اس کی پچ پر پہنچ جائے۔ قومی سالمیت، شہداء کی ساکھ، حب الوطنی اور مذہبی جذبات وغیرہ کے استعمال کا موقع جونہی میسر آئے پھر سامنے والے کو زیر کرنے کیلئے ریاست اپنے تمام ہرکاروں کو میدان میں اتار دیتی ہے۔ 9مئی کو تحریک انصاف کی جانب سے کی گئی بغاوت کی نحیف سی کوشش کوریاست نے تحریک انصاف کو مکمل طور پر غیر موثر کرنے کے ایک نادر موقع کے طورپر لیا۔ کمزور دل حضرات کے ہر طرح کے جذبات مجروح ہوئے اور ملک گیر مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔شہداء کے تقدس اور ساکھ کی بحالی کیلئے پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا، قومی سالمیت کے دفاع کیلئے سرکاری اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک فوجی افسر کی سرکاری رہائش گاہ کو ’درگاہ‘ بنا دیا گیا۔ اس درگاہ پر ملک کے کونے کونے سے سیاسی زائرین و مجاور تاحال حاضری دیتے ہوئے نہ صرف پھول و چادریں چڑھا رہے ہیں، بلکہ لگے ہاتھوں ایک ایک پریس کانفرنس بھی کرتے ہیں، جسے سرکاری ہدایات پر تمام قومی ٹی وی چینلوں پر نشر کیا جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا خواتین کی قیادت میں نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا شروع ہواتھا۔ ریاست نے انہیں دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن ناکامی کے بعد اختراعی اقدامات کے ذریعے ان سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ناکامی تاہم پسماندگی کی وجہ سے مقدر ٹھہری۔ لہٰذا آزمودہ فارمولہ ہی اپنایا گیا اور ’شہداء کے وارثوں‘اور ’کمزور دل حضرات‘کو متاثر جذبات کے ہمراہ پرتعیش شامیانوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ پس اس کے بعد تمام کیمروں کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا،اور ملک دشمنی، دشمن ملک کے ایجنٹ اور غیر ملکی ایجنڈے والی ایک کہانی تھی، شہداء کی قربانیوں کے تقدس کے تذکرے تھے اور جذبات کے متاثر ہونے پر ہر کیمرہ اور سکرین اشک بار تھی۔ کسی صحافی کو البتہ یہ سوال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ ان کمزور دل حضرات کے دل ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کے ٹکڑے کر کے اجتماعی قبروں کے حوالے کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں؟

ایسی ہی صورتحال موجودہ وقت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی بن چکی ہے۔گزشتہ 8ماہ سے ریاست گیر تحریک چل رہی ہے۔ تحریک کو کچلنے کے تمام طریقوں کو عوام نے اختراعی عمل کے ذریعے سے شکست دے دی تھی۔ تاہم عوام کی بھرپور شمولیت کے دوران اپنائی جانے والی جدت قیادت کی پسماندگی کو زیادہ دیر تک جدت پسندی پر قائم رکھنے میں شاید کامیاب نہ ہو پائی اور ایک روایتی اقدام نے ریاست کو آزمودہ فارمولا استعمال کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
رات کے 12 بجے کسی ’حوالدار‘ کے کہنے پر لائن میں لگ کر ایک شخص کو وزارت عظمیٰ کیلئے ووٹ دینے والے 53کے ایوان کے 48حاضر ممبران کی جماعتوں کے رہنماؤں نے خود کو شہداء کا وارث کہتے ہوئے،باضمیر اور باغیرت قرار دیتے ہوئے عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کو بے غیرت اور۔۔۔۔۔ تک قرار دے دیا۔ ان کا بھی خیال ہے کہ 5فروری کو ہڑتال کا اعلان کرنے سے قومی سالمیت خطرے میں آگئی ہے، شہداء کے تقدس کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور حب الوطنی کے جذبات متاثر ہونے کا شدید خدشہ لاحق ہے۔ یہ جذبات البتہ اس قدر سمجھدار ہیں کہ جب تک ’پرائیویٹ نمبر‘ سے فون کال نہ آئے یا ڈائری اٹھائے شہر میں گھومنے والا کوئی ’صوبیدار‘ قائدمحترم کو ملاقات کا شرف نہ بخشے، یہ متاثر نہیں ہوتے۔

ماہ رنگ بلوچ تو اسلام آباد سے واپس بلوچستان روانہ ہو گئی ہے۔ وہاں دسیوں ہزار بلوچ مرد و زن ماہ رنگ اور ساتھیوں کا استقبال کر رہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل ہی ہزاروں افراد کا جلسہ بھی منعقد کیا گیا۔ شہداء کے وارثوں کی البتہ کوئی خبر نہیں کہ وہ استقبال کروانے کہاں گئے ہیں۔ البتہ کچھ روز بعد ان میں سے اکثر ایک سرکاری اعلان کے بعد پارلیمان میں بلوچ عوام کے نمائندوں کا درجہ حاصل کر لیں گے۔

جموں کشمیر میں بھی جذبات متاثر کرتے ہوئے شہداء کے تقدس کے دفاع کیلئے بڑھ چڑھ کر،بلکہ گالم گلوچ کی حد تک حصہ ڈالنے کے پیچھے بھی مظفرآباد میں کسی’انوار الحق‘ کو ووٹ دینے اور ’عوامی نمائندے‘ کا اعزاز حاصل کرنے جیسی کامیابی سے سرفراز کئے جانے کی خواہشات کافرما ہیں۔

اس ساری مشقت میں قصور البتہ ریاست کا نہیں ہے، معاشرہ ہی اختراعی سوچ سے عاری ہے۔ریاست تنہاء یہ بوجھ اٹھائے بھی تو کیسے؟

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔