حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ8ماہ سے زائد عرصہ سے جاری عوامی حقوق کی تحریک کی قیادت کرنے والی ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے کیلئے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ اعلان جنوری کے پہلے ہفتہ میں کیا گیا تھا، اور اس اعلان کی تجدید 28جنوری کو دوبارہ مظفرآبادمیں منعقدہ اجلاس میں کی گئی ہے۔
کمیٹی کے اس اعلان کو ریاست نے ایک موقع جانتے ہوئے ریاستی سرپرستی میں اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں، عسکری مذہبی اور سیاسی مذہبی تنظیموں کی قیادت کو متحرک کر کے ’یوم یکجہتی کشمیر‘ اور شہداء کے ساتھ غداری قرار دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ دو روز قبل راولاکوٹ میں ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی میں منعقدہ اجلاس میں سابق وزراء حکومت سمیت ان قائدین نے ’یوم عوامی حقوق‘ منانے والوں کو غدار، ملک دشمن اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والے قرار دیا۔ ساتھ ہی انتظامیہ نے یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ 5فروری کو ’یوم یکجہتی‘کے پروگرامات کے علاوہ کسی بھی قسم کے پروگرام کیلئے انتظامیہ سے پیشگی اجازت درکار ہوگی بصورت دیگر پروگرامات کا انعقاد نہیں ہونے دیا جائے گا۔
درج بالا صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جانا از حد ضروری ہے۔ نہ صرف مزاحمتی سیاسی کارکنان اس حوالے سے ایک کنفیوژن کا شکار ہیں، بلکہ صحافی اور دانشور بھی اس معاملے پر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ عام شہریوں کی البتہ غالب اکثریت 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے اور ہڑتال کرنے کے حق میں ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف رجحانات کی جانب سے کئے جانے والے سرویز میں 97فیصدسے زائد لوگ ہڑتال کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔ کئی ایک سروے ایسے بھی ہیں، جن میں 8سے10ہزار لوگوں نے رائے دی، لیکن ’یوم یکجہتی‘ کے حق میں رائے 3فیصد سے تجاوز نہیں کر سکی ہے۔
سیاسی جماعتیں، طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونینیں اور ٹریڈرز یونینیں نظریات، طریقہ کار اور حکمت عملی کے فرق کی وجہ سے ہمیشہ مل کر کام نہیں کر سکتیں۔ نظریات، طریقہ کار، حکمت عملی اور لائحہ عمل کا فرق ہی الگ الگ تنظیموں، جماعتوں اور یونینوں کے قیام کی وجہ ہوتا ہے۔ اس لئے طویل المدتی مطالبات اور پروگرام پر تمام سیاسی رجحانات کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ قلیل المدتی مطالبات اور پروگرام پر اتحاد اور کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ تاکہ جن مطالبات اور پروگرام پرتمام لوگ متفق ہیں ان پر مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ اسی وجہ سے یہ اتحاد اور کمیٹیاں صرف انہی مطالبات اور پروگرام تک محدود رہتی ہیں، جن پر انہیں تشکیل دیا گیا ہوتا ہے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ سے تجاوز یا اتحاد اور کمیٹی کو پارٹی سمجھ کر طویل المدتی پروگرام پر لائحہ عمل دینے کی کوشش کمیٹی، اتحاد اور تحریک کو توڑنے یا تقسیم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت میں دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات کے علاوہ انتہاء پسند مذہبی رجحانات اور تنظیمیں بھی موجود ہیں اور قیادت میں تاجروں، ٹرانسپورٹروں کے علاوہ قوم پرست اور الحاق نواز سیاسی جماعتوں کے اراکین بھی ایکشن کمیٹیوں کے نمائندوں کے طور پر موجود ہیں۔ ایسے میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مختلف سیاسی رجحانات کے سیاسی ایجنڈے کے حوالے سے لائحہ عمل دینے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی بلکہ محض چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کیلئے اقدامات کا مینڈیٹ ہی کمیٹی کے پاس موجود ہے۔ اس صورتحال میں کسی بھی سیاسی رجحان کے سیاسی ایجنڈے کے مخالف محاذ کھڑا کرنا عملی طور پر ایک پولرائزیشن کے عمل کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
’یوم یکجہتی کشمیر‘ بنیادی طور پر جموں کشمیر کی آزادی کے استعارے کے طور پر ابھرنے والے رہنما مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت کی مقبولیت کو کم کرنے اور لوگوں کو کنفیوز کیلئے پاکستانی ریاست کی اختراع ہے۔ مقبول بٹ شہیدکی شہادت اور بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے عام انتخابات میں بھارت کی ریاستی مداخلت اور دھاندلی کے رد عمل کو استعمال کر کے قومی بنیادوں پر گوریلا جنگ کا آغاز پاکستانی ریاست کی سرپرستی میں کیاگیاتھا۔ چند ماہ میں ہی اس مسلح تحریک کی مقبولیت جموں کشمیر بھر میں پھیل گئی تھی اور افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد مذہبی شدت پسند گروہ بھی اب نئے کام کیلئے تیار تھے۔ جماعت اسلامی، جو پہلے جموں کشمیر میں مسلح تحریک سے انکاری تھی، اب تحریک کی مقبولیت اور دولت کی فراوانی کو دیکھ کر وہ بھی نئی نوکری کیلئے پر تول رہی تھی۔ اس موقع کو ریاست پاکستان نے غنیمت جانا اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے گوریلا لیڈروں کو مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے ذریعے قتل کروا کر قومی گوریلا جنگ کو مذہبی عسکری تحریک میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔
اس پراکسی وار کے خلاف جموں کشمیر میں متحرک نوجوانوں کی بائیں بازو کی مقبول ترین تنظیم ’جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ نے 11فروری 1990کو کنٹرول لائن کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ اس لانگ مارچ کے اعلان کے بعد بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی لبریشن فرنٹ کی جانب سے بڑے احتجاجی مظاہروں کی کال دے رکھی تھی۔ اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے ریاست نے ایک بار پھر جماعت اسلامی کو استعمال کیا اور قاضی حسین احمد نے 5فروری کو ’یوم یکجہتی کشمیر‘ منانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو حکومت پنجاب سے سرکاری اعلان میں تبدیل کروا دیا گیا۔ بعد ازاں اس عمل کو مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت کے موقع پر ہونے والے کشمیریوں کو ریاست گیر پروگرامات سے توجہ ہٹانے کیلئے ہر سال سرکاری سطح پر منایا جانے لگا۔
ریاست ہمیشہ اس طرح کے اقدامات کی سیاسی وراثت کسی نہ کسی سہولت کار کو دے کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’یوم یکجہتی کشمیر‘، جسے بنیادی طور پر ریاست نے جموں کشمیر میں ایک تقسیم پیدا کرنے کیلئے سرکاری طور پر منانے کا منصوبہ بنایا، اس کی وراثت کی دعویدار اب جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے کا اعلان کر کے ریاست کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ان قوتوں کو استعمال میں لائے۔ وہ ساری قیادت جو اس تحریک کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ حکومت کا بھی حصہ ہے، اب تحریک کے خلاف ریاستی سرپرستی میں پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ بیٹھ کر وہ عوامی تحریک میں شامل لوگوں کو نہ صرف غدار قراردے رہے ہیں، بلکہ تحریک بھی خود چلانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
اس سب کے باوجود عوام نے کمیٹی کو بھرپور حمایت فراہم کی ہے۔ ریاستی پروپیگنڈہ کو عوام رد کر رہے ہیں۔ تاہم کمیٹی کی قیادت نے جہاں پہلے ’الحاق نواز‘ سیاسی کارکنوں کو امتحان میں ڈالا، اب قوم پرست اور ترقی پسند کارکنو ں کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاست کی زوال پذیری، نظریاتی دیوالیہ پن اور سیاسی جہالت کے عروج کے عہد میں بڑی اکثریت اس امتحانی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
دو روز قبل کمیٹی کے ایک اہم رہنما نے ’جے کے بی ایس‘ نامی ایک سوشل میڈیا چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے (کالعدم عسکری تنظیم)’جیش محمد‘ اور ’جماعت اسلامی‘ کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کر کے انہیں کہا ہے کہ یوم یکجہتی اور یوم عوامی حقوق مل کر مناتے ہیں۔ ہم اپنا سٹیج جماعت اسلامی اور جیش محمد کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہی عوامی حقوق اور یکجہتی کے حوالے سے تقاریر بھی کریں اور سٹیج بھی چلائیں۔“
جنوری کے پہلے ہفتے میں یوم یکجہتی کو ’یوم فراڈ‘ قرار دینے والے کمیٹی رہنما کے اس بیان کے بعد صورتحال اب ان سیاسی رجحانات کیلئے بھی مشکل ہو گئی ہے، جن کے خلاف ریاست نے یوم یکجہتی منانے کا سلسلہ شروع کروایا تھا۔ جب مینڈیٹ سے تجاوز کیا جاتا ہے تو پھر بار بار پسپائی اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہی بیانات سے کمیٹی رہنماؤں کو پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کا فائدہ ریاست اور اس کے پروردہ عناصر اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی جب کمیٹی ’یوم یکجہتی‘ کے حیثیت کو جواز فراہم کرے گی، تو پھر جن کے خلاف یہ دن منایا جاتا ہے، ان کا رد عمل سامنے آئے گا اور کمیٹی کو ایک بار پھر پسپائی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔
مینڈیٹ سے تجاوز کے باوجود کمیٹی کی جانب سے ہڑتال کے اعلان کو البتہ عوام کی وسیع پرتوں نے خوش آمدید کہا اور بھرپور حمایت بھی موجود ہے۔ اس کیفیت میں ریاستی پروپیگنڈہ سے گھبرانے کی بجائے اس کا بھرپور جواب دینے کی ضرورت ہے۔ ریاست کی ایماء پر پروپیگنڈہ میں مصروف شہداء کی وراثت کے دعویدار سارے حکومت کا حصہ ہیں۔ وہ ہڑتال کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی بجائے 5فروری سے پہلے عوام کے مطالبات منظور کروا لیں تاکہ وہ بھی ہزیمت سے بچ سکیں۔