سبحان عبدالمالک
5فروری ہر سال پاکستان کی جانب سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نام پر سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔14 اگست کی طرح اس دن کومنانے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔میڈیا میں بھرپور تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان سرکاری اور نیم سرکاری کالعدم مذہبی تنظیموں کے ذریعے مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے،جن کے ہاتھ پاکستان اور جموں کشمیرکے ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔پاکستان کے حکمران طبقے اور فوجی اشرافیہ نے ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں پشتونوں کا قتل عام کیا اور ان کو بے گھر کیا،دوسری طرف انہی دہشتگردوں کو مظلوم کشمیریوں کے لیے مسیحا کی طور پر پیش کیاجارہا ہے۔
عوامی حمایت سے محروم پاکستان نواز سیاسی پارٹیوں کے لیے کارکنان کے طور پر سرکاری ملازمین کو زبردستی 5 فروری کی تقریبات میں شرکت کروائی جاتی ہے۔5 فروری کو عدلیہ کے ملازمین کی حاضری جج لیتے ہیں،باقی شعبوں کے ملازمین کی حاضری ڈپٹی کمشنر لیتا ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 95 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو یونین سازی جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر کے حکمران طبقہ ان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے سرکاری ملازمین کو حکمران طبقہ اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نہیں آنے دیتا،لیکن ان کے ذریعے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے یکجہتی کی جا رہی ہے۔اس بات سے پاکستانی حکمران طبقے کی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس سال 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے، جب گزشتہ 8 ماہ سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آٹے پر سبسڈی اور بجلی کے بلات میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ ماہ سے پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان میں خون جما دینے والی سردی کے باوجود آٹے کی سبسڈی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ان خطوں کی حکمران اشرافیہ کے نمائندے بھی بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مظلوم عوام سے یکجہتی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وہ بنیادی ضروریات زندگی مانگنے والوں کو ایجنٹ اور غدار قرار دے رہے ہیں اور مفت بجلی کا حق مانگنے والوں کو کہتے ہیں کہ مفت صرف موت مل سکتی ہے۔
پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے یوم یکجہتی کشمیر منانے کی وجہ جہاں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم کا اظہار ہے،وہیں اپنے زیر انتظام گلگت بلتستان اور جموں کشمیر پر قبضے کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔پاکستانی حکمران طبقات کو مظلوم کشمیریوں سے کتنی محبت ہے، اس کا اندازہ آٹے اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کی مانگ پر چلنے والی تحریک کے حوالے سے ریاست کے رویے سے لگایا جا سکتا ہے۔اس یکجہتی کا اندازہ گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوام کو بنیادی انسانی سہولیات کی فراہمی سے لگایا جاسکتا ہے۔یہاں کی سڑکوں، تعلیم، علاج، روزگار اور قوانین سے لگایا جاسکتا ہے۔یہاں نوآبادیاتی دور کی طرز کے ٹیکسوں سے لگایا جاسکتا ہے، مقامی کٹھ پتلی سیاسی اشرفیہ کی حیثیت اور کردار سے لگایا جاسکتا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ پاکستانی حکمران طبقات بہت انسانیت کا درد رکھنے والے ہیں، بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوام کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے،وہ ناقابل برداشت ہے۔اس لیے کشمیری عوام کے ساتھ پاکستانی ریاست اظہار یکجہتی کر رہی ہے،تو پھر اپنے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام ساتھ بھی اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کریں۔ ان کے وسائل پر جو ناجائز قبضہ کیا گیا ہے،اس کو فی الفور ختم کیا جانا چاہئے۔ان کے وسائل پر ان علاقوں کے باسیوں کا جمہوری کنٹرول قائم کیا جائے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو آئین سازی کا حق دیا جائے اور نوآبادیاتی طرز کے تمام قوانین کو فی الفور ختم کیا جائے۔
5 فروری یوم یکجہتی کشمیر اگر خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر منایا جا رہا ہے،تو پھر پاکستانی ریاست کے حکمران طبقات اور فوجی اشرافیہ کی دور کی نظر تو ٹھیک ہے پر نزدیک کی نظر خراب ہے۔انہیں فلسطین اور کشمیر پر ظلم تو نظر آتا ہے،قریب جو ظلم و ستم جاری ہے اسے دیکھنے کے لیے عینک کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہے،جو جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں۔بلوچستان سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچنے پر بلوچ خواتین، نوجوانوں،بزرگوں اور بچوں کے ساتھ ریاست کا جو رویہ تھا وہ بھی نظر آئے۔مظلوم پشتونوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا وہ بھی نظر آئے۔دہشت گردی کا عذاب کس نے امریکہ سے ڈالر لے کر پشتونوں پر نازل کیا؟کیوں ڈراون حملوں اور جیٹ طیاروں سے انکے گھروں پر آگ برسائی گئی؟کہاں ہیں وہ30 ہزار لاپتہ افراد انکو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔۔۔؟ ہزاروں افراد کے قاتل راؤانور کو سزا کیوں نہیں ملی اور پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو زندہ رہنے کا حق مانگنے پر کیوں پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔۔۔؟ ساہیوال میں دن دیہاڑے پولیس کی فائرنگ سے معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے اور ان کے قاتلوں کو کیا سزا دی گئی؟
سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے بے حسی کی عینک سے حق مانگنے والے ہموطنوں کا معاشی اور ریاستی قتل عام حب الوطنی نظر آتا ہے۔لفظ ملک کے لفظی معنی ملکیت کے ہیں۔حکمران طبقات جب ملک کے دفاع کی بات کرتے ہیں دراصل وہ ملکیت کے دفاع کی بات کرتے ہیں۔ ملک میں ان شخصیات کا اتنا حق ہے،جتنی ملکیت اورجتنی دولت ہے۔برصغیر پاک و ہند کے کروڑوں ایسے افراد جو نجی ملکیت نہیں رکھتے اور زندہ رہنے کے لیے اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں کا ان ممالک پر کوئی حق نہیں ہے۔اکثریتی مزدور اور محکوم طبقے کا ملک پر کوئی حق نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک دشمن عناصر ہیں۔یہ غدار ہیں، ایجنٹ ہیں، دہشت گرد ہیں، دیش دروہی ہیں، آتنگ وادی ہیں اور فسادی ہیں۔وہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مظلوم عوام ہوں یا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے، وہ گلگت کے ہوں یا لداخ کے، وہ کراچی کے ہوں یا بمبئی کے، پشاور کے ہوں یا بنگال کے، بلوچستان کے ہوں یا افغانستان کے ہوں،ملک میں اپنا حق مانگنے والا غدار اور جاسوس ہے۔اسکے خلاف ریاستی جبر کیا جاتا ہے۔یکساں کردار اور مفادات کی حامل سرمایہ دارانہ نظام کی نمائندہ ان ریاستوں کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے انکو صرف مد مقابل کا ظلم اور جبر نظر نظر آتا ہے۔
پاکستانی ریاست کوبھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والا جبر فوری نظر آتا ہے، لیکن پاکستانی زیر انتظام گلگت بلتستان اور جموں کشمیر سمیت بلوچستان، پختون خوا، پنجاب اور سندھ کے مظلوموں اور مزدوروں ساتھ ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا۔ اسی طرح بھارتی ریاست اپنے زیر انتظام جموں کشمیر میں جبراً قبضے کا دفاع کرتی ہے اور جموں کشمیر میں ایسی ریاستی بربریت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ اس بربریت اور وحشت کے بعد بھی بھارتی ریاست خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتی ہے۔بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں مجبور اور غریب عوام نظر نہیں آتے، لیکن پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر آ جاتی ہے۔
ریاستی جبر کے خلاف اٹھنے والی ان تحریکوں کی ریاستی حمایت کا مقصد جہاں سامراجی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ان تحریکوں کو اپنے سامراجی مقاصدِ کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، وہاں ان تحریکوں کو بدنام کر کے زائل کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ہر تحریک کو دوسری ریاست کی حمایت کا الزام لگا کر کچلا جاتا ہے۔مظلوم بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں،اس درندگی پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ ریاست نے ان پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا ہے۔اسی طرح جموں کشمیر میں پاکستانی ایجنٹ کہہ کر ہزاروں نوجوانوں کو پیلٹ گن کے چہروں کے ذریعے آنکھوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔حب الوطنی کے نام پر ہر جبر جائز ہے۔ایسے میں پاکستانی ریاست کا 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانابھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری تحریک پر مزید جبر کا جواز پیش کرنے اور مسئلہ جموں کشمیر سے جڑی قومیتوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔یہ ایسی یکجہتی ہے جو کشمیری عوام کو مزید برباد کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ پاکستانی حکمرانوں کی کشمیری طفیلی اشرفیہ کے ساتھ یکجہتی ہے۔
مظلوم عوام کے ساتھ ظالم حکمرانوں کی نمائندہ ریاست اظہار یکجہتی نہیں کر سکتی،کیونکہ یہ منظم جبر کا ادارہ ہے۔مظلوم ہی مظلوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کو سمجھ سکتا ہے، اس سے ہمدردی کر سکتا ہے اور یکجا ہو کر مقابلہ کر سکتا ہے۔بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والے فوجی جبر کو فاٹا اور بلوچستان کے عوام آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں،کیونکہ وہ خود اسی جبر کا شکار ہیں۔ دہلی یا اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے لیکن مظلوموں کیساتھ یکجہتی کی امید رکھنا بھوکے بھیڑیے سے رحم کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔یوم یکجہتی کشمیر بھی درندے کی اس شکار سے یکجہتی ہے،جسے وہ دوسرے جانور سے چھڑا کر خودکھانا چاہتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ظلم نہیں ہو رہا یا مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف ان کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کیا جائے۔اظہار یکجہتی کرنا پاکستان اور بھارت کے مظلوم اور محکوم عوام کا فریضہ ہے۔ اسی طرح کشمیری محکوم عوام کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ دیگر محکوم طبقات اور قومیتوں کی حمایت کریں،اصل یکجہتی ہی طبقاتی یکجہتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے محنت کش عوام جو واقعی مظلوم کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کرنا چاہتے ہیں، انہیں گلگت بلتستان اور جموں کشمیر میں جاری عوامی تحریکوں سے یکجہتی کرنی چاہیے۔۔ ان کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ دونوں افواج کا انخلا کیا جائے اور جموں کشمیر کے عوام کو غیر مشروط حق خودارادیت دیا جائے۔ دفاعی بجٹ کو کم کر کے تعلیم، علاج روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات پر خرچ کیا جائے۔
ساری دنیا کے محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کی یکجہتی اور اتحاد کے ذریعے سرمایہ دارنہ نظام کو شکست دے کر ہی جبر کی ان بنیادوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔اس نظام کی نمائندہ کوئی بھی ریاست یا ادارہ مظلوموں کو جبر سے نجات نہیں دلا سکتا ہے۔