دنیا

طالبان پاکستان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو اسلام آباد کابل کے ساتھ کرتا تھا

فاروق سلہریا

ہفتے کے روز پاکستان نے افغانستان پر فضائی حملے کئے۔’گھس کر مارنے‘کی یہ کاروائی سابق گڈ طالبان پر مبنی گل بہادر گروپ کے خلاف کی گئی۔

یہ کاروائی پاکستانی افواج پر ایک دہشت گرد حملے کے بعد کی گئی جس میں لیفٹنٹ کرنل اور ایک کپتان سمیت سات اہل کار جان سے گئے۔ معروف صحافی عمر چیمہ نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بتایا کہ ایک اہل کار کا تعلق جہلم کے علاقے ٹمن سے تھا۔ جس دن فوجی افسر کا جنازہ ہوا، اسی روز اسی گاوں کے ایک اور شخص کا جنازہ تھا جس کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ اس شخص نے ایک پولیس اہل کار کو قتل کیا تھا،جس کے بعد وہ جیل میں سزا کاٹ رہا تھااور جیل میں ہی ہلاک ہو گیا۔ٹی ٹی پی تب تک محفوظ رہے گی جب تک سپاہ صحابہ کو ریاستی سر پرستی میسر ہے۔

دریں اثنا،پاکستانی فوج کی افغانستان میں تازہ کاروائی یا طالبان کی پاکستانی افواج اور شہریوں کے خلاف تازہ کاروائیوں بارے معلوم نہیں خواجہ آصف کا کیا نقطہ نظر ہے۔ جب طالبان نے کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تھا تو خواجہ صاحب کا خیال تھا کہ اللہ طالبان کے ساتھ ہے۔

قیدی نمبر 804 بھی ان تازہ حملوں بارے خاموش ہے۔ بی بی سی اردو کے مطابق،زنجیریں توڑ دینے پر طالبان کی حمد و ثنا کرنے والے قیدی نے گل بہادرگروہ کے ساتھ مزاکرات بھی کئے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پاکستان طالبان سے کہتا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے تو طالبان ثبوت مانگتے ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد،بیس سال تک جب کابل میں امریکی کٹھ پتلی حکومت الزام لگاتی کہ پاکستان نے طالبان کو پناہ دے رکھی ہے تو اسلام آباد بھی ثبوت مانگا کرتا تھا۔ پھر امریکہ نے ’گھس کر مارنے‘ کی پالیسی شروع کی اور ڈرون حملے شروع کر دئیے۔ اب پاکستان فضائی حملے کر رہا ہے۔ تب اسلام آباد ڈرون حملوں پر سیخ پا ہوتا تھا۔ اب طالبان اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر سراپا احتجاج ہیں۔

قصہ مختصر، اسٹریٹیجک ڈیپتھ۔۔۔اسٹریٹیجک ڈیتھ کی شکل میں قطرہ قطرہ اس ریاست کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ ستم یہ ہے کہ:یہ پالیسی جاری رہے گی۔ توجہ ہٹانے کے لئے افغان پناہ گرینوں کو دوبارہ ملک سے نکالنے کا شرمناک عمل شروع کیا جائے گا۔ کچھ عرصے بعد، گل بہادر گروہ سے تازہ مزاکرات کئے جائیں گے۔ اگلے الیکشن مین محسن داوڑ کے حلقے میں دھاندلی کے لئے ممکن ہے گل بہادر کی سپاہ کو ہی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ ضرورت پڑی تو ایک عدد ترانہ بھی جاری کر دیا جائے گا۔

اس سارے عمل میں افسوس تو حامد میر پر ہوتا ہے۔ انہوں نے تحقیقی صحافت ہی چھوڑ دی ہے ورنہ ہم جیسے گناہ گار بھی اس حقیقت سے آشنا رہتے تھے کہ جام شہادت نوش کرنے والے طالبان کی لاشوں اور قبروں سے خوشبو کے جھونکے اٹھتے ہیں۔

کل کلاں کو طالبان انڈیا کے ساتھ مل گئے تو زید حامد کے پاس تو جنرل حمید گل کا کندھا بھی دستیاب نہ ہو گا کہ اسٹریٹیجک ڈیتھ پر آنسو بہائے۔

+ posts