ارسلان شانی
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 22 سالہ ماریہ کے غیرت کے نام پر اپنے سگے بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل کا ہولناک واقع سوشل میڈیا پر گردش کر کر رہا ہے۔ 17 اور 18 مارچ کی شب سگے بھائی اور باپ نے مقتولہ کا غیرت کے نام پر گلہ دبا کے قتل کرنے کے بعد خاموشی سے دفنا دیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو اپلوڈ ہونے کے بعد پولیس نے تھانہ صدر ٹوبہ میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ جن میں مقتولہ کا باپ، بھائی، ایک خاتون اور ویڈیو بنانے والا شامل ہے۔
قبر کشائی کرنے کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقتولہ کے گلے کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی ہیں اور جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بے دردی سے مقتولہ کا قتل کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر 22 سالہ ماریہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعد ازاں قتل کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ہر شخص اس لرزا دینے والے واقعہ پر افسردگی کا اظہار کر رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران نے سامراجی طاقتوں میں عدم توازن پیدا کیا ہے جس وجہ سے جہاں خانہ جنگی، پراکسی وار اور جنگوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں وہاں ہی تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان جس میں سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے جدید قومی ریاست تشکیل ہی نہیں ہو سکی، زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ بجلی اور دیگر توانائی کے شعبوں میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے عوام پر ٹیکسز کی بھرمار جاری ہے۔محنت کشوں کے پاس پہلے سے موجود سہولیات چھینی جا رہی ہیں، پنشن کا خاتمہ اور قومی اداروں کی نجکاری سمیت محنت کشوں پر مختلف حملے جاری ہیں۔ ایسے حالات میں اگر ایک انقلابی سرجری کے ذریعے سماج کو آگے نہیں بڑھایا جاتا تو وحشت و جرائم کا پنپنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام تیزی سے اپنی موت کی جانب گامزن ہے۔ جب بھی کوئی نظام مسلسل بحرانی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے ،تو وہ مسائل حل کرنے کے بجائے تعفن پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ مادی حالات انسانی سوچ پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔اسی لئے بحرانی کیفیت کی وجہ سے مروجہ سیاست، دانش، نفسیات اور عمومی شعور تنزلی کی طرف گامزن ہونے لگتا ہے۔ جب محرومیوں کی مختلف اقسام اجتماعی اظہار کرتی ہیں تو پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اسی وجہ سے خود غرضانہ سوچ سماج کی نچلی پرتوں تک سرایت کر جاتی ہے ،جو پاگل پن کو جنم دیتی ہے۔ اسی پاگل پن کا اظہار ہمیں حکمرانوں کی بے ہودگی، آڈیو ویڈیو سکینڈلز، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے، معصوم بچوں کے ساتھ ریپ، مُردوں کو قبروں سے نکال کر جنسی زیادتی کے واقعات سمیت تعلیمی اداروں، کام کرنے والی جگہوں، بازاروں اور گلی محلوں میں ہراسانی کے واقعات اور 22 سالہ ماریہ کے اپنے ہی سگے بھائی اور باپ کے ہاتھوں قتل کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔
اگر مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھیں تو اس وحشی نظام کے مسلسل بحران کی وجہ سے خواتین پر پہلے سے جاری ظلم و جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ صنف کی بنیاد پر تشدد حقیقی دنیا سے لے کر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور آن لائن ہراسانی سمیت مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔
ہر طرح کا تشدد متاثرہ خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ ان میں اضطراب، افسردگی اور خودکشی جیسے خیالات خواتین کی انفرادیت، وقار اور عزت نفس کا احساس کھونے کا سبب بنتے ہیں۔ جہاں غیرت اور نام نہاد عزت کو کھونے کے ڈر سے ،اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لیے خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔اس معاشرے کی جہالت و تنزلی کا اس سے بہتر اظہار کوئی نہیں ہو سکتا۔ جنسی محرومی اس نظام میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عورت گھر کے مردوں سے بھی محفوظ نہیں ہے۔
جہاں ایک طرف مذہبی بنیاد پرستی عورت کو چادر و چار دیواری میں مقید رکھنے کو ان مسائل کے حل کے طور پر پیش کرتی ہے ،تو دوسری طرف لبرل بورژوا طبقے کی خواتین میک اپ، ڈرائیونگ اور فیشن سے جوڑ کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور بنیاد پرستی کو عورت کے خلاف اکسانے اور زہر اگلنے کے جواز فراہم کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ اگر مردانہ غلبے کو مذہبی جواز فراہم کرنے والی رجعتی سوچ عورتوں پر ظلم و جبر اور غلامی ہے ،تو عورت کو جنس بنا کر عورت کے جسم کی نمائش کے ذریعے منافع کمانے جیسی سوچ بھی عورت دشمنی پر مبنی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو عورت چادر و چار دیواری میں نہ تو روزی روٹی کما سکتی ہے اور نہ ہی برقع پہن کر کھیتوں میں کام کر سکتی ہے۔ اگر اپنے ہی گھر میں خونی رشتوں سے ہی عورت محفوظ نہیں، لاشوں کا ریپ ہو رہا ہے، 7،8 سال کی معصوم بچیوں کو جنسی ہوس کا شکار بنایا جا رہا ہے ،تو کس طرح چادر و چار دیواری میں مقید کرنے کو عورت کی آزادی کے حل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟
دوسری طرف محنت کش خواتین اس معاشی بدحالی کے دور میں دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ پورا پورا دن گھروں، فیکٹریوں اور کارخانوں، پرائیویٹ سیکٹر اور کھیتوں میں سستی محنت بیچنے پر مجبور محنت کش خواتین جو اجرت حاصل کرتی ہیں اس میں زندہ رہنے کے لوازمات بھی پورے نہیں ہوتے۔ محنت کش خواتین نہ تو زرق برق لباس پہن سکتی ہیں، نہ ہی وہ یورپی طرز کے لباس پہنتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہمیں ذہن نشین کرنا ہو گا کہ بنیاد پرستی اور لبرلزم دونوں رحجانات سرمائے کے تابع ہیں۔
جنسی ہراسانی سے لے کر گھریلو تشدد سمیت مردانہ بالا دستی حصول ضروریات کی جفا کشی کی ہی پیداوار ہیں۔ بالخصوص محنت کش خواتین جن کی زندگیاں پہلے سے ہی دوہرے جبر کا شکار ہیں، عدم تحفظ کی وجہ سے مزید بربادی کی طرف گامزن ہو تی رہی ہیں۔ جوں جوں معاشی بحران میں شدت آتی جائے گی ،توں توں وحشت و بربریت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا ۔ یہ کیفیت ذہنی بیماریوں، گھریلو تشدد، منشیات کے استعمال، وحشت و بربریت میں اضافے کا ہی سبب بنتی جائے گی۔
عورت کے حالات زندگی سمیت معاشرے کی ہر برائی کے خاتمے کا واحد حل طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عورت کی غلامی کا آغاز معاشرے کی طبقات میں تقسیم سے ہوا ہے ۔اسی وجہ سے طبقاتی تقسیم کو ختم کئے بغیر عورت کے استحصال کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ عورت کے مسائل کا حل صرف عورتوں پر مبنی جدوجہد میں موجود نہیں ہے ،بلکہ عورتوں اور مردوں کو صنفی تفریق سے بالاتر ہو کر نظام زر کو مٹانے کے لیے جدوجہد کے میدان میں اترنا ہو گا۔ صنفی، قومی مذہبی لسانی تعصب سے بالاتر ہو کر جدوجہد کے ذریعے ہی سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد پر اس نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے نئے سماج کی بنیادیں استوار کی جا سکتی ہیں ،جہاں تمام انسان محبت اور بھائی چارے کے ذریعے اپنے اصل مقصد تسخیر کائنات کی طرف بڑھ سکیں۔