خبریں/تبصرے

مصر: ایک دہائی مکمل، 900 مظاہرین کے قتل کا احتساب نہ ہو سکا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) مصر میں رابع قتل عام کی 10 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔ 14 اگست 2013ء کو مصری سکیورٹی فورسز نے ایک دھرنے پر گولی چلا دی تھی، جس میں دسیوں ہزار افراد نے مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر اخوان المسلمین کے محمد مرسی کی برطرفی کے خلاف احتجاج کیلئے قاہرہ میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

’ڈیموکریسی ناؤ‘ کے مطابق ایک اندازہ ہے کہ اس قتل عام میں 900 مظاہرین مارے گئے تھے، لیکن گزشتہ 10 سالوں میں کسی کو بھی اس قتل عام کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

اس وقت کے وزیر دفاع عبدالفتاح السیسی صدارت کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے اور انہوں نے دسیوں ہزار سیاسی قیدیوں کو جیلوں میں ڈالتے ہوئے امریکہ کے قریبی اتحادی کے طور پر تقریباً ایک دہائی سے مصر پر حکومت کر رہے ہیں۔

مصری انیشی ایٹو فار پرسنل رائٹس کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھگت کہتے ہیں کہ قتل عام نے ایک نیا معمول قائم کیا ہے اور شرم کی ایک دہائی کا افتتاح کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قتل عام پر ایک سرکاری رپورٹ کی ایک لیک شدہ کاپی حاصل ہوئی ہے۔ جس کے مطابق اس قتل عام میں مصری حکام ملوث تھے۔ بڑے پیمانے پر قتل ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts