حارث قدیر
بھارت کے عام انتخابات 19 اپریل سے یکم جون 2024ء تک 7 مرحلوں میں منعقد ہو رہے ہیں۔ 19 اپریل، 26 اپریل، 7 مئی، 13 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون کو پولنگ ہو گی اور 4 جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ ان انتخابات میں دنیا کا ہر 8 میں سے 1 شخص اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتا ہے۔ یعنی 90 کروڑ 69 لاکھ شہری ووٹ ڈال سکیں گے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) نامی اتحاد کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کی دو درجن سے زائد پارٹیوں کا اتحاد ‘انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلوسیو الائنس’ (انڈیا) قائم کیا گیا ہے۔
گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے 543 کے ایوان میں 303 نشستیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ اتحادیوں کی نشستیں شامل کر کے این ڈی اے کی مجموعی نشستیں 352 تھیں۔ انڈین نیشنل کانگریس گزشتہ انتخابات میں محض 52 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ تاہم اس بار بی جے پی نے اکیلے 400 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ تمام سروے پولز میں بھی بی جے پی کی بڑے مارجن سے جیت کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے ملک کے سب سے بڑے سروے میں بی جے پی کی 343 نشستوں پر کامیابی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ این ڈی اے کے مجموعی 399 نشستوں پر کامیاب ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسی سروے نے اپوزیشن اتحاد کو مجموعی طور پر 94 نشستوں پر ہی آگے دکھایا ہے۔ حیرت انگیز طور پر کانگریس کی نشستوں میں گزشتہ انتخابات کی نسبت کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ سروے کے مطابق 52 کی بجائے کانگریس 38 نشستوں تک محدود ہو سکتی ہے۔
درج بالا صورتحال نہ صرف بھارتی اپوزیشن جماعتوں کیلئے انتہائی خوفناک صورتحال ظاہر کر رہی ہے بلکہ بھارتی معاشرے میں مزید مذہبی اور سیاسی پولرائزیشن، فرقہ وارانہ تشدد میں اضافے، نیو لبرل پالیسیوں میں مزید تیزی سمیت اکثریت پسندانہ اقدامات کے نتیجے میں جمہوری اور سیاسی آزادیوں پر قدغنوں کے خدشات میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔
جہاں تمام تر سروے پولز، عالمی و ملکی اندازے اور تجزیے بی جے پی کی مسلسل تیسری انتخابی فتح کی پیش گوئی کر رہے ہیں وہیں مودی حکومت کے اقدامات سے ایک ان دیکھے خدشے اور خطرے کا بھی اندازہ ہو رہا ہے۔ مودی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد ہندو قوم پرستی پر مبنی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو سماج پر مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی معاشرے کے میں گہری تقسیم اور نفرت کی بنیاد رکھی ہے۔ نیو لبرل پالیسیوں کو نافذ کرنے اور کارپوریٹ سیکٹر کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دینے میں ماضی کی تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ روایتی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک کو مغلوب کرنے اور ملکی رائے عامہ پر مکمل غلبہ حاصل کرنے کے اقدامات نے نام نہاد جمہوری ڈھونگ کو بھی مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔
انتخابات میں فتح کیلئے اٹھائے گئے آمرانہ اقدامات
مودی حکومت نے انتخابات میں شکست کے کسی بھی ممکنہ خدشہ کو دور کرنے کیلئے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔ اس مہم کے دوران اپوزیشن کو تقریباً مفلوج کر نے کیلئے ہر قانونی، غیر قانونی، آئینی اور غیر آئینی اقدام کا سہارا لیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کے انتخاب کے اصول کو تبدیل کر کے چیف جسٹس کی جگہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ تیسرے رکن کے طور پر حکومتی وزیر کو رکن رکھ لیا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کروانے کے ساتھ عدالتوں پردباؤ ڈال کر انہیں ضمانتیں حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیا گیا۔
مثال کے طور پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ہائی کورٹ نے ضمانت کی رعایت دینے سے انکار کر دیا۔ دوسری طرف اسی جج نے ایک اور سیاستدان دلیپ رے کی سزا کو یہ کہتے ہوئے ملتوی کر دیا کہ وہ اہم سیاستدان ہیں اور انہیں الیکشن لڑنا ہے۔ حالانکہ دلیپ رے کو سزا ہو چکی تھی اور کیجریوال کے معاملے میں ابھی تفتیش بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ دلیپ رے کو یہ خصوصی رعایت اس لئے میسر آئی کہ وہ بی جے پی کی حمایت سے الیکشن لڑیں گے۔
انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو نوٹس بھجوا کر دباؤ ڈالنے اور پھر انہیں بی جے پی میں شامل ہونے پرمجبور کرنے کا سلسلہ عروج پر رہا ہے۔ ‘انڈین ایکسپریس’ کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی میں شامل ہونے والے 25 اپوزیشن لیڈروں میں سے 23 کے مقدمات بند کر دیئے گئے۔ انتخابات کے آغاز سے قبل ہر روز کسی نہ کسی اپوزیشن پارٹی رہنما کے بی جے پی میں شامل ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں۔ جن رہنماؤں کے خلاف مودی حکومت کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات لگاتی آئی اور ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے وہ بی جے پی میں شامل ہو کر پاک صاف ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو کروڑوں روپے کے واجبات کے نوٹس بھیجے گئے اور ان کے اکاؤنٹس منجمد کر کے الیکشن مہم چلانے سے ہی محروم کر دیا گیا ہے۔
مرکزی دھارے کا تمام میڈیا کھلے عام بی جے پی کی تشہیر کرتا نظر آ رہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جو کوئی متوازی میڈیا موجود ہے اسے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میں حکومت پر تنقید کے حوالے سے مقبول یوٹیوب چینلوں کو نوٹس بھیجے گئے ہیں یا بند کیا گیا ہے۔ حکومتی پارٹی کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کی رائے کی عوام تک رسائی کو ہی مکمل طور پر بند کرنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔
الیکٹورل بانڈز کے ذریعے بھاری فنڈ ریزنگ
سرکاری ایجنسیوں کو محض اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو بی جے پی میں شامل کرنے کیلئے ہی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ان کے استعمال سے کارپوریٹ سیکٹر کو بھی جھکنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جو کمپنیاں پہلے سے بی جے پی کی حمایت کر رہی تھیں انہیں ہر طرح کی لوٹ مار کی چھوٹ دی گئی۔ ساتھ ہی دیگر کمپنیوں پرچھاپے ماری اور تحقیقات کے ذریعے دباؤ ڈال کر انہیں بی جے پی کیلئے بھاری فنڈنگ پر نہ صرف مجبور کیا گیا بلکہ بعد ازاں انہیں سرکاری وسائل کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ بھی دی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابی چندے کے لئے جاری کی گئی متنازعہ سکیم کے تحت بی جے پی کارپوریٹ سیکٹر سے 13 ہزار کروڑ روپے کا چندہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کو محض 2 ہزار کروڑ روپے کا چندہ حاصل ہو سکا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ مودی حکومت نے کس طرح انتخابات سے قبل ہی اپنی انتخابی فتح کی راہ ہموار کر لی تھی۔ تاہم یہ اعداد و شمار محض الیکٹورل بانڈز کے ذریعے جمع ہونے والے چندے کے ہیں۔ کالے دھن اور بی جے پی کے پارٹی ڈھانچے کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی رقوم اس کے علاوہ ہیں۔ اس چندہ فراڈ کے نتیجے میں بھی کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک راستہ نکالا گیا اور ایسی کمپنیوں کے ذریعے کروڑوں روپے چندہ حاصل کیا گیا جو انتخابی چندہ دینے کی اہل ہی نہیں تھیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی کمپنیاں بھی ہیں جنہوں نے اپنی سالانہ آمدن سے کئی گنا زیادہ چندہ دیا۔ یوں کرپشن کے خلاف ملک کی سب سے توانا آواز بن کر سامنے آنے والی بی جے پی نے کرپشن اور بدعنوانی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ باقی تمام علاقائی اور مرکزی پارٹیاں بھی اس دھندے میں اپنی بساط کے مطابق حصہ دار رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) ایک سول سوسائٹی تنظیم کے ہمراہ اس سکیم کے خلاف سپریم کورٹ میں گئی اور اس سکیم کے پیچھے چھپے فراڈ کو سامنے لایا جا سکا۔
ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت نے جن کمپنیوں سے بھاری چندہ الیکٹورل بانڈز کی صورت میں وصول کیا ہے ان کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر مالی فائدے پہنچانے کے اقدامات بھی کئے ہیں۔ تعمیراتی کمپنیوں کو دیئے گئے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے ہوں (جہاں ناقص تعمیرات کے ذریعے بھاری جانی و مالی نقصان پر خاموشی اختیار کئے رکھی گئی) یا پھر دوا ساز کمپنیوں کو ناقص دوائیں مارکیٹ کرنے کی شکایات کے باوجود لائسنسوں کا اجرا ہو’ انسانی جان اور مال سے کھلواڑ کر کے کارپوریٹ سیکٹر کو لوٹ مار کی کھلی اجازت کے بدلے بھاری چندہ اور دیگر مالی فائدے حاصل کئے گئے ہیں۔ اب یہی رقم انتخابی نتائج کے حصہ داروں کا تعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
بی جے پی کا ڈھانچہ اور ناقابل تسخیر غلبہ
بی جے پی ایک طرح سے سخت گیر انتہا پسند ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کاانتخابی ونگ ہے۔ جرمن اور اطالوی فسطائیت کی طرز پر سامراجی آشیر باد اور ضرورتوں کے تحت پروان چڑھنے والی آر ایس ایس کا ایجنڈا قومی، علاقائی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی طور پر متنوع ہندوستان میں مختلف مقامی خداؤں کو پوجنے والے انسانوں کو ایک ہندو مذہب کے نام پر قوم پرستی میں منظم کرنا ہے۔
ہندوستان کی سامراجی تقسیم کے بعد بھارت میں آر ایس ایس کو انتخابی میدان میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ تاہم کانگریس کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں اور اقتدار کیلئے سماج کی فرقہ وارانہ تقسیم کو استعمال کرنے کی سابقہ برطانوی پالیسی کو جاری رکھنے کے اقدام نے آر ایس ایس کو وہ سماجی بنیادیں ضرور فراہم کیں جن کو انتخابی فتوحات میں ڈھالنے میں اسے زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس ساری صورتحال میں 80ء یا 90ء کی دہائی کے بعد سے ہندوستانی معیشت کو کھولنے اور نیولبرل طرز پر ڈھالنے کا بھی اہم کردار ہے۔
گزشتہ 10 سالہ اقتدار کے دوران بی جے پی نہ صرف عددی طور پر بلکہ سماجی و ثقافتی اثر و رسوخ کے حوالے سے اس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ بھارت کے اندر کوئی بھی پارٹی یا مجموعی طور پر تمام سیاسی پارٹیاں مل کر بھی اس کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کے ارکان کی تعداد 18 کروڑ سے زائد ہے۔ تاہم اس کے غیر فعال اراکین کی تعداد بھی دسیوں لاکھ پر مشتمل ہے۔ پارٹی کی 800 سے زائد این جی اوز ہر طرح کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشن اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت اس کے 36 ونگ ہیں۔ خواتین کے ایک بڑے ونگ کے علاوہ وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور اندرون و بیرون ملک ثقافتی اور مذہبی امور کی نگرانی کے انتظامات بھی پارٹی کے پاس ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آر ایس ایس کے ممبران 50 لاکھ کے قریب ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد فل ٹائمرز کی ہے۔ اس کی بھارت بھر میں 60 ہزار سے زائد شاخیں (برانچز) ہیں۔
سوشل میڈیا سیل اور میڈیا پر غلبہ
بی جے پی کے اپنے نیٹ ورک اور آئی ٹی سیل سمیت جعلی خبروں کو پھیلانے کیلئے میڈیا کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے ویسے بھی بھارت میں سچ تک پہنچنے کے امکانات محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ایک سابق بی جے پی آئی ٹی سیل کے ملازم کے بقول ملک بھر میں لاکھوں افراد بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں ملازمت کرتے ہیں۔ فوج سے لے کر معروف شخصیات، ریاستوں، اہم مقامات سمیت مذہبی تہواروں اور استعاروں کے ناموں پر پیجز اور گروپس یہ آئی ٹی سیل چلاتا ہے اور اس کو پراپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو ناموں پرمشتمل پیجز اور گروپس میں مسلم مخالف پرپیگنڈہ کو پھیلانے کے علاوہ ہر اختلافی آواز کے خلاف اینٹی نیشنل، غدار اور پاکستانی ہونے کے الزامات پر مبنی ٹرولنگ مہم چلائی جاتی ہے۔ دوسری طرف مسلم ناموں سے بھی متعدد فیس بک پیجز بی جے پی کا آئی ٹی سیل ہی چلاتا ہے۔ وہاں بی جے پی کا ترقی پسند اور بھارت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا چہرہ پروموٹ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر بھی یہ آئی ٹی ٹیم ایک منظم انداز میں ٹرول مہم کے علاوہ ٹرینڈز بنانے میں مشغول رہتی ہے۔ اپوزیشن مخالف اور بی جے پی کے حق میں یہ ٹرینڈز ایک مرکزی سیٹ اپ کے ذریعے سے ڈیزائن کئے جاتے ہیں اور انہیں آئی ٹی سیل کے ملازمین کے ذریعے سے پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی مخالف سوشل میڈیا صارفین کے اکاؤنٹس رپورٹ کر کے بند کروانے کیلئے منظم مہم چلائی جاتی ہے۔ ریاستی قوانین اور اداروں کو بھی سوشل میڈیا پر بی جے پی مخالفین کی موجودگی کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا مہموں کو خریدا بھی جاتا ہے۔ عالمی سطح پر سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے سے بھی یہ ترویجی مہمات چلوائی جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر سوشل میڈیا مہم کیلئے بی جے پی نے اسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے جو کمپنی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کو عالمی سطح پر منظم کرتی ہے۔
اندرون ملک روایتی ٹی وی میڈیا کو مکمل طو رپر بی جے پی کا ماؤتھ پیس بنوانے کیلئے ریاستی جبر اور قوانین کے علاوہ کارپوریٹ حمایت یافتگان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی درجنوں ٹی وی چینلوں سمیت درجنوں ویب سائٹس بھی بنائی گئی ہیں جو بی جے پی کی حمایت میں جعلی خبریں، فوٹو شاپ ویڈیوز اور تصاویر چلانے میں مصروف رہتی ہیں۔ ان جعلی خبروں کو آئی ٹی سیل کے ذریعے سے واٹس ایپ گروپوں اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پروموٹ کرنے کا بھی ایک منظم اورموثر نظام موجود ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کے ذریعے بھی نریندر مودی کے پیغامات اور تقریروں کی ریکارڈنگ صارفین کو سنوائی جاتی ہے۔ یو ں نریندر مودی کو ایک کرشماتی شخصیت بنا کر بھارتی معاشرے پر مسلط کرنے کیلئے جھوٹ کو اتنے تواتر کے ساتھ اور اتنے مختلف ذرائع سے لوگوں کے ذہنوں پر ٹھونسا جاتا ہے کہ اس حصار سے بھارتی معاشرے کی بالخصوص پسماندہ پرتوں کو باہر نکالنا تقریباً اپوزیشن کیلئے ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ کیفیت پاکستان میں تحریکِ انصاف کی پرفریب سوشل میڈیا واردات سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا میں پاپولسٹ دائیں بازو کے کئی دوسرے رجحانات نے بھی حالیہ سالوں میں یہ روش اپنائی ہے۔
جنوبی بھارت مودی کی راہ میں مزاحم
تمام تر پراپیگنڈہ کے باوجود اس بار بھی جنوبی بھارت کی 5 ریاستوں میں بی جے پی کی جیت کے امکانات محدود ہی ہیں۔ ‘لو جہاد’ کے شور، مسلم مخالف پراپیگنڈہ، اقلیت سے اکثریت کو خوفزدہ کرتے ہوئے نفرت کو بھڑکانے والے فسطائی ہتھکنڈوں اور جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے، پاکستان مخالف جذبات کو ابھارنے کیلئے ریاستی سرپرستی میں بنائی جانے والی فلموں اور دیگر نوع کے پراپیگنڈہ کے کامیاب مظاہرے کے بعد اب جنوبی بھارتی ریاستوں کیرالہ اور تامل ناڈو کو بدنام کرنے کیلئے بھی اسی طرز کے اقدامات شروع کئے گئے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود اب بھی بی جے پی کی بھارت کی نسبتاً ترقی یافتہ اور ترقی پسند سمجھی جانے والی ان جنوبی ریاستوں میں پذیرائی کے امکانات کم ہی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
بی جے پی کا چمکتا بھارت
شائننگ انڈیا، وِکاس (ترقی)، روزگار، سرمایہ کاری، کسانوں اور پسماندہ پرتوں کو ترقی دینے اور جدید شہر تعمیر کرنے کے ایجنڈے پر برسراقتدار آنے والے نریندر مودی نے ہندو قوم پرستی کی جو جڑیں بھارتی معاشرے میں پیوست کر دی ہیں وہ آنے والے عرصہ میں بھارت میں مزید خونریزی، قتل و غارت گری اور سیاسی و مذہبی پولرائزیشن کو جنم دیں گی۔ تاہم اس سب کے پیچھے نہ صرف بی جے پی کا اقتدارقائم رکھنا مقصود ہے بلکہ بڑے پیمانے پر اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کو استحصال اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دینا بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی نیو لبرل پالیسیوں کو ‘کرونی کیپٹلزم’ کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ یعنی اقرباپروری پر مبنی ایسا سرمایہ دارانہ ڈھانچہ جس میں کاروبار اور منافعوں کا انحصار کاروباری اور حکومتی اہلکاروں کے تعلقات پر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کیلئے ‘کم از کم امدادی قیمت’ کو ملک بھر میں قانونی بنا کر ترقی دینے کے وعدے کے پس پردہ زرعی قوانین منظور کر کے کارپوریٹ سیکٹر کو زرعی زمینوں اور زرعی مصنوعات پر اجارہ قائم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔
10 سالہ دور حکومت کے دوران ٹریڈ یونین قوانین کو سخت گیر کر کے تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبہ جات میں مستقل ملازمتوں کی جگہ کنٹریکٹ اور عارضی ملازمتوں کی راہ ہموار کی گئی۔ کارپوریٹ سیکٹر کو سرکاری سرپرستی میں کھلی چھوٹیں دی گئیں اور تنقید کرنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے فوجداری اور ٹیلی کام قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں، شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں، ڈیٹا پروٹیکشن بل کے ذریعے شہریوں پر نگرانی کے عمل کو مزید سخت کیا گیا۔ اس کے علاوہ افسپا، یو اے پی اے سمیت دیگر متنازعہ اور سامراجی قوانین کو استعمال کرتے ہوئے مخالف میڈیا اور آوازوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
انہی آئینی اور قانونی اقدامات اور پراپیگنڈہ کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسیحی آبادیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو تیز تر کیا گیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو جہاں انتخابی مہم کیلئے 80 فیصد ہندو آبادی کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے وہیں 25 ہزار مزید مساجد کو گرا کر مندر بنانے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس عمل کے ذریعے ذات پات کی تقسیم پر مبنی ہندو مت کو ایک یکجا اور منظم مذہب کے طور پر پیش کر کے 14 فیصد مسلمان آبادی کو بیرونی حملہ آور بنا کر پیش کرنے اور ایک ہزار سال پرانی آبادیاتی ہیئت کو بحال کرنے جیسی فسطائی اور متعصبانہ سوچ کو معاشرے پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ آئین کو مکمل تبدیل کر کے ہندوتوا کے نظریات کے تحت استوار کرنے کی بازگشت بھی بی جے پی رہنماؤں کی تقریروں میں سنی جا سکتی ہے۔
تاہم اس سب کے بیچ چمکتے بھارت کی تیز ترین ترقی اور شرح نمو کے ظاہر کردہ اعداد و شمار پر اکانومسٹ سمیت متعدد جریدے اور ماہرین سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کو جانچنے کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ غربت کی شرح سمیت دیگر سماجی و معاشی اشاریوں کے طریقہ کار کو تبدیل کر کے ترقی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
عدم مساوات، بیروزگاری اور غربت
مودی حکومت کی ہندوتوا کے ایجنڈے کی آڑ میں نیو لبرل پالیسیوں نے عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔ آکسفیم کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران ارب پتیوں کی دولت میں تقریباً 10 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعداد 2000ء میں محض 9 تھی۔ 2018ء اور 2022ء کے درمیان بھارت میں ہر روز 70 نئے کروڑ پتی پیدا ہونے کا تخمینہ ہے۔
ورلڈ ان ایکویلٹی لیب کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھارت میں 271 ارب پتی ہیں۔ امیر ترین 10 فیصد کے پاس کل قومی دولت کا 77 فیصد ہے۔ امیر ترین 1 فیصدکے پاس 40.1 فیصد دولت ہے۔ جبکہ غریب ترین 50 فیصد کے پاس کل دولت کا محض 3 فیصد حصہ ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کو ترقی کا راز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ سرمایہ کاری انتہائی کم معیار زندگی پر زندہ رہنے والے محنت کشوں کے استحصال سے اربوں روپے کا منافع کمانے کی ترغیب کا شاخسانہ ہے۔ آکسفیم کے مطابق دیہی بھارت میں کم از کم اجرت والے ایک محنت کش کو بھارت کی ایک سرکردہ گارمنٹ کمپنی میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ایگزیکٹو کی ایک سال کی تنخواہ جتنی رقم کمانے کیلئے 941 سال لگیں گے۔
مودی حکومت بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ تاہم آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 83 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ 90 فیصد محنت کش غیر رسمی کام کر رہے ہیں۔ مستقل روزگار اب محض کچھ فیصد تک ہی محدود ہو چکا ہے۔
حکومت نے غربت کی شرح کو کم دکھانے کیلئے ہاؤس ہولڈ کنزمپشن ایکسپنڈیچر سروے (ایچ سی ای ایس) کے اعداد و شمار میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی ہے۔ دیہات میں 3773 روپے خرچ کرنے والے اور شہر میں 6459 روپے خرچ کرنے والے خاندان کو غربت کے درجے سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اس طرح غربت میں 5 فیصد کمی دکھانے میں کامیابی ہوئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 19 کروڑ افراد 100 روپے یومیہ کما رہے ہیں، 15 کروڑ افراد 100 سے 200 روپے یومیہ، جبکہ 12 کروڑ افراد 200 سے 300 روپے یومیہ کما رہے ہیں۔ جنہیں غریب کی درجہ بندی سے باہر کر دیا گیا ہے۔ اجرتیں 2013ء اور 2017ء کے درمیان رکی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نریندر مودی اپنی مہم کے دوران درمیانے طبقے کی زندگیوں سے ریاست کا عمل دخل نکالنے کے اعلانات بھی کر رہے ہیں۔ یہ درحقیقت تعلیم، صحت سمیت دیگر سروسز کے شعبوں کی نجکاری کا اعلان ہے۔ جس پر بتدریج عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبہ پر اخراجات میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ تعلیم پر جی ڈی پی کا 3 فیصد، جبکہ صحت پر جی ڈی پی کا محض 1 فیصد خرچ کیا جا رہا ہے۔ مستقل روزگار ختم کر کے تعلیم اور صحت کے کاروبار کی مسلسل حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔
مکمل فسطائی غلبے کو روکنے کیلئے اپوزیشن کا منشور’ مستقبل کیا ہے؟
تمام ریاستی ڈھانچے پر آر ایس ایس اور بی جے پی کے غلبے کے بعد اب نجی سینک (فوجی) سکولوں کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ جن کی اکثریت آر ایس ایس کے زیر سایہ کام کرے گی۔ یوں مودی حکومت ایک منظم انداز میں فوج کو محض سیاسی بیان بازی کی حد تک استعمال کرنے کی بجائے نظریاتی طور پر آر ایس ایس کے خطوط اور مقاصد پر استوار کرنے کی راہ ہموار کرنے جا رہی ہے۔ تاہم اپوزیشن بالخصوص کانگریس کا انتخابی منشور بی جے پی کا راستہ روکنے کی بجائے بی جے پی کے پراپیگنڈہ کے خوف سے اسی کی سیاسی گراؤنڈ پر کھیلنے کی ایک کوشش ہے۔ کانگریس اپنے منشور میں مسلمانوں کا نام تک لکھنے سے گریزاں رہی ہے۔ نیو لبرل پالیسیوں اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو کھلے بندوں چیلنج کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی ہے۔ اس سب کے باوجود نریندر مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ کا منشور قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
تاہم بی جے پی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کے انتخابی منشور میں سیکولر، لبرل اور جمہوری روایات کے بچاؤ کے فرق کے علاوہ کوئی خاص فرق موجود نہیں ہے۔ دونوں قوتیں نیو لبرل پالیسیوں پر متفق ہیں۔ تاہم اپوزیشن اتحاد بی جے پی کے ‘کرونی سرمایہ داری’ کے طریقہ کار کو ہدف تنقید بنا رہا ہے۔ جبکہ بی جے پی بیرونی سرمایہ کاری، ترقی اور روزگار کے اپنے پرانے دعوے پر ایک مرتبہ پھر کاربند ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود شمالی اور وسطی بھارت میں بی جے پی کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیاں شمالی اور وسطی بھارتی ریاستوں اورمغربی بنگال میں بھی بری طرح سے ناکام ہو کر جنوبی بھارت تک محدود ہوتی جا رہی ہیں۔
کانگریس کی نیو لبرل پالیسیوں، ہندو قوم پرستی کے آگے سرنگوں ہونے کی حکمت عملی، خاندان کے گرد گھومتی سیاسی طاقت اور تنظیمی غیرنظمی سمیت نظریاتی تذبذب نے جہاں بی جے پی کیلئے میدان کھولا ہے وہیں کمیونسٹ پارٹیوں کی انتخابی سیاست میں غرق ہونے اور سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کی بجائے بھارتی قوم پرستانہ رویہ اپناتے ہوئے مرحلہ واریت اور اصلاح پسندی پر مبنی پالیسیوں نے بھارت کے محنت کشوں کی انقلابی صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بھارتی قوم پرستی کی بنیاد پر اصلاح پسندانہ انتخابی سیاست کے ذریعے سے بی جے پی کے فسطائی رجحان کوبھارت پر مکمل آمرانہ قبضہ کرنے اور فسطائیت کو رائج کرنے سے روکنا ممکن نہیں ہے۔ تاخیر زدہ سرمایہ داری بھارت میں کوئی جدید، جمہوری اور یکجا قومی ریاست قائم کرنے میں تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت تاریخی طور پر محکوم قوموں کے ایک جیل خانے کے طور پر ہی سامنے آیا ہے۔ تاہم بھارتی قوم پرستی کی جو بنیاد آر ایس ایس نے انتہائی دائیں بازو کے طریقہ کار پر ‘ہندو قوم پرستی ’کو استعمال کرتے ہوئے پراپیگنڈہ اور نفرت کی بنیاد پر قائم کی ہے’ اس کو بائیں بازو کی نام نہادترقی پسند یا دائیں بازو کی لبرل بھارتی قوم پرستانہ سیاست کے ذریعے سے شکست نہیں دی جا سکتی۔
جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کو اس نظام کی انقلابی تبدیلی کے راستے کو اپنانا ہو گا وہیں محکوم قوموں کے حق خودارادیت کا دفاع کرتے ہوئے تمام قوموں کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے اصول کو اپناتے ہوئے نیو لبرل سرمایہ داری کی پالیسیوں کو چیلنج کرنا ہو گا۔ محض انتخابی عمل کے ذریعے سے اس متبادل کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ٹریڈ یونین، قومی تحریکوں، سماجی تحریکوں، احتجاجی اور مزاحمتی تحریکوں میں جمہوری اور معاشی نوعیت کے مطالبات کو سوشلسٹ پروگرام سے منسلک کرتے ہوئے بی جے پی کی کیڈر بیس کے متبادل کیڈر بیس کی تیاری اور محنت کش طبقے کی جڑت اور طاقت کے ذریعے سے ہی اس فسطائی عفریت کو شکست سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔
بی جے پی کے تمام تر غلبے کے باوجود لداخ سے میزورام اور منی پور تک مزاحمت کی علامات اب بھی موجود ہیں۔ دیو ہیکل محنت کش طبقہ زیادہ دیر تک بی جے پی کے زہریلے پراپیگنڈہ اور فریب کی یلغار کا شکار بنا نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور مسلسل نیو لبرل حملے محنت کشوں کو بغاوت پراکسانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ تاہم ایک درست پروگرام اور لائحہ عمل کی بنیاد پر ہی نہ صرف ہندوتوا کے فسطائی غلبے کو توڑا جا سکتا ہے بلکہ ایک نئے سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ جو پورے جنوب ایشیا میں محنت کشوں کیلئے ایک درخشاں مثال ثابت ہو گا۔