آتش خان
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی کامیابی نے جہاں محنت کشوں، اور نوجوانوں کو اپنی اجتماعی طاقت کا احساس دلایا وہاں اس خطے کی حکمران اشرافیہ اور اس کے سامراجی آقاؤں کو بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا ہے۔13 مئی کو عوامی مطالبات منظور کرنے کے باوجود نہ صرف مظفرآباد میں نہتے شہریوں پر رینجرز کی فائرنگ سے تین شہری شہید ہوئے بلکہ تین روز تک انٹرنیٹ سروس بند کر کے پاکستانی محنت کشوں اور نوجوانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور مین سڑیم میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔ پاکستانی حکمران طبقے نے پرامن شہریوں کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہو گیا ہے۔آٹے پر سبسڈی،پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی اور حکمران اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات کے خاتمے جیسے مطالبات کو بیرونی ایجنڈا قرار دیا گیا۔گزشتہ ماہ محنت کش عوام کی اجتماعی طاقت نے سامراجی ریاست اور اسی کے کمیشن ایجنٹ نام نہاد سیاسی نمائندوں کو جھکنے پر مجبور کیا۔یہ کامیابی محنت کشوں کی بہت بڑی فتح ہونے کے باوجود حتمی فتح نہیں ہے نہ ہی مسائل ختم ہوئے ہیں، نہ ہی طبقاتی نظام ختم ہوا ہے، نہ ہی ریاست کا نوآبادیاتی طرز کے ڈھانچے میں کوئی تبدیل آئی ہے اور نہ ہی یہ جنگ ختم ہوئی ہے۔یہ شکست حکمران اشرفیہ اور ریاست نے دوبارہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے اور محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے درکار وقت لینے کے لیے قبول کی ہے تاکہ جوابی حملہ کیا جائے۔
طبقاتی معاشرے میں طاقت کا توازن ہمیشہ یکساں نہیں رہتا بلکہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔کبھی طاقت کا توازن محنت کشوں کے حق میں ہوتا ہے تو کبھی حکمران طبقے کے حق میں ہوتا ہے۔تحریکوں اور انقلابات کے وقت میں طاقت کا یہ توازن تیزی سے بدلتا ہے۔تحریکوں کے دوران اکثر ایسے ادور بھی آتے ہیں جب محنت کش عوام کو مکمل راج ہوتا ہے،طاقت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ایسے وقت میں حکمران طبقہ اپنے نظام کو بچانے کے لیے کوئی بھی سمجھوتا کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔عام حالات میں جن مطالبات کی منظوری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے وہ بھی ماننے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ایسا حکمران طبقات اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری میں کرتے ہیں جس کا مقصد وقت لینا ہوتا ہے۔ قومی اور طبقاتی جنگوں کے بعد امن کا مطلب جنگ کا مستقل خاتمہ نہیں بلکہ نئی جنگ کی تیاری کا دورانیہ یوتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 9 مئی سے 13 مئی تک طاقت کا توازن محنت کشوں کے حق میں تھا۔ سڑکوں پر عوامی راج قائم تھا، پولیس عوام کے ہاتھوں شکست کے بعد غائب ہو چکی تھی، حکمران اشرافیہ اسلام آباد فرار ہو چکی تھی۔ ان دنوں جیسے کوئی تہوار تھا جس میں لاکھوں لوگ شریک تھے جن میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور اپنائیت تھی، قربانی کا جذبہ تھا، لڑنے اور مرنے کا حوصلہ تھا۔ان دنوں حکمرانوں کی تمام چالیں ناکام ہو چکی تھیں اور محنت کش عوام کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہو چکے تھے۔ آٹے پر سبسڈی اور پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی سے بات آگے بڑھ کر انقلاب اور آزادی کے نعروں میں بدل چکی تھی۔پیرس کمیون میں ایسی کیفیت کے حوالے سے کارل مارکس نے لکھا تھا پیرس کے محنت کشوں نے آسمان پر دھاوا بول دیا ہے۔ایسے وقت میں اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت تحریک کے پہلے سے موجود مطالبات سے بڑے مطالبات مثلاً نوجوانوں کے قتل کے جرم میں وزیراعظم سمیت ساری کابینہ کا استعفی، نئے انتخابات اور آئین ساز اسمبلی کے حق جیسے مطالبات بھی حکمرانوں کے سامنے پیش کرتی تو وہ بھی منظور کیے جا سکتے تھے۔ یہ مطالبات محنت کش عوام نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی بار بار کی مصالحت،حکمرانوں کے تاخیری حربوں اور جبر کو شکست دیتے ہوئے حکمرانوں کی گردن پر پاؤں رکھ کر منوائے ہیں۔
حکمران طبقے نے مجبوری میں مطالبات کی منظوری کے بعد ریاستی جبر اور پروپیگنڈے کو مزید تیز کر دیا ہے۔ حکمران طبقہ محنت کش عوام سے وہی سلوک کرنا چاہتا ہے جو آقا اپنے سرکش غلاموں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ریاست ننگی جارحیت پر اتر آئی ہے۔قیادت کی نا اہلی اور بزدلی کی وجہ سے نہ صرف 9 مئی کے احتجاج کے دوران گرفتار رہنما رہا نہیں ہوئے بلکہ گرفتاریوں اور ریاستی تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔10 جون کو نہ صرف عوامی حقوق تحریک کے رہنماؤں اور عوام کو پولیس کی موجودگی میں وزیر حکومت فہیم ربانی کے غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ تشدد کا نشانہ بننے والے سیاسی رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر کے انہیں ہی گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری جانب حملے آوروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی جو سرِعام اسلحہ لہرا رہے تھے اور فائرنگ کر رہے تھے جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
ریاستی جبر میں اضافہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مصالحت پسندانہ رویے کی وجہ سے ہوا ہے۔قیادت کے سرکردہ شخصیات نے طاقت کا توازن مکمل عوام کے حق میں ہونے کے باوجود نہ صرف رینجرز کی فائرنگ سے شہید نوجوانوں کے قتل پر سمجھوتا کیا اور نہ ہی گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوئی اقدامات کیے بلکہ ریاست کے پروپیگنڈے کا حصہ بنتے ہوئے تحریک میں قیدو بند اور تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوانوں پر وہی شرپسندی اور سازش کے الزامات عائد کیے گئے جو حکمران طبقہ عائد کرتا تھا۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی حکمران طبقے سے حالات کو تحریک سے پہلے والے معمول میں لانے کے لیے مصالحت کے لیے ہر حد تک جانے پر تیار ہے۔ عوامی دباؤ بار بار ان کو لڑائی لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے باوجود تاجر قیادت لڑائی لڑنے کی بجائے ریاست کے ساتھ ساز باز کے ذریعے تحریکوں کو ختم کرنے کا کردار ادا کر رہی ہے۔حکمران طبقے کی خوشنودی کے لیے مزاحمتی قوتوں کو تحریک سے دور کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔تحریک نہ صرف پہلے تاجر قیادت کی بزدلی اور موقع پرستی پرمبنی خواہشات کے تابع رہی ہے نہ ہی مستقبل ميں ان کی خواہش پر حالات پرانے معمول پر واپس جا سکتے ہیں۔درمیانے طبقے کے جن افراد کو لیڈر بننے کا شوق تھا اب وہ تحریک سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تحریک ان کو اب بھاگنے نہیں دے رہی۔اب وہ قیادت کے شوق میں شیر کی پیٹھ پر سوار تو ہو گئے پر ان کے لیے اترنا مشکل ہو گیا ہے۔
قیادت جتنی پسپا ہو رہی ہے ریاست اتنی ہی جارحانہ انداز اختیار کر رہی ہے۔طبقاتی سماج میں حکمران طبقے اور محنت کش طبقے میں، نوآبادیاتی ریاست کی عوام اور قابضین کے درمیان کوئی مصالحت ممکن نہیں ہے جس کی گواہی تاریخ اور موجودہ تحریک دونوں دے رہے ہیں۔ قومی جنگوں اور طبقاتی جنگوں میں دفاع اور حملہ جنگی حکمت عملی کے ناقابلِ علحیدگی جز ہوتے ہیں۔اکثر جنگ کے لیے نہیں بلکہ اپنے دفاع کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔دشمن کو پسپائی کا تاثر دینااور اپنی قوتوں کومنتشر کرنا دشمن کو حملے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ریاست کو جوں ہی سنبھلنے کا موقع ملا انہوں نے اپنی قوتوں کو متحرک کیا ہے اور فوراً پلٹ کر وار کیا ہے۔پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس جیسی ریاستی جماعتوں کے ذریعے استحام پاکستان ریلیاں نکالی گئیں۔ٹورازم فیسٹول کے نام پر لوگوں کو جمع کر کے ان پر حکمران اشرافیہ کے ذاتی غنڈوں کے ذریعے پولیس کی موجودگی میں تشدد کیا گیا۔دوسری طرف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کچھ رہنما ریاستی جبر سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرنے اور عوام کو منظم کرنے کی بجائے تمام تر توانائیاں حکمران طبقے سے مصالحت پر صرف کر رہے ہیں۔حکمران اشرافیہ کی اس غنڈہ گردی کے خلاف عوام کا شدید رد عمل آیا جسے زائل کرنے کے لیے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے بنیادی کردار ادا کیا۔پلندری میں موجود ہزاروں کی تعداد میں عوام کو لے کر کوٹلی کا رخ کیا گیا۔ شدید گرمی کے باوجود عوام گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے رات گئے تک سڑکوں پر موجود رہے۔قیادت نے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر دھرنے کو ختم کیا جس پر عوامی ردعمل کے خوف سے قیادت وہاں سے فرار ہو گئی۔ 27، 28 اور 29 جون کو پونچھ ڈویژن، میرپور ڈویژن اور مظفر آباد ڈویژن میں انٹری پوائنٹس بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ عوامی نے قیادت کے تاخیری حربے بددلی سے قبول کیے اور احتجاج کی تیاری شروع کر دی۔ قیادت نے ایک مرتبہ پھر حسب معمول اپنا مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے احتجاج کی کال واپس لی ہے اور گرفتار رہنماؤں کو ضمانت پر رہا ہونے پر مجبور کیا۔ یہ تحریک کی ایک اور شکست اور ریاست کی فتح ہے ۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاسی روایات کے برعکس ایسا کیا گیا۔ اس خطے میں مزاحمتی قوتیں عددی طور پر جب کمزور تھیں،اس وقت بھی سیاسی کارکنوں کو احتجاج کے ذریعے رہا کرواتی رہی ہیں۔قیادت کے اس رویے نے تحریک میں موجود کارکنوں اور رہنماؤں پر تشدد اور گرفتاریوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔جن رہنماؤں کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے ان پر قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں، جن کو نشان عبرت بنانے کے لیے عدالتوں کے ذریعے سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔ مستقبل میں نہ صرف مزید لوگوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے بلکہ تحریک کی پسپائی کی صورت میں ریاست معاشی مطالبات سے بھی انحراف کر سکتی ہے جو تسلیم کیے جا چکے ہیں۔اس کے برعکس ایک اور سوچ موجود ہے جو ریاستی جبر اور مرکزی کمیٹی کے مصالحتی رویے کے مقابلے میں ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کی دھمکی دے رہے ہیں، جو دوسری انتہا ہے۔
ریاستی جبر اور مقامی اشرافیہ کے غنڈوں کے حملوں سے مقابلہ محض عوام کو بندوقوں سے مسلح کر کے نہیں کیا جا سکتا ہے، اس سے پہلے عوام کو متبادل نظریات اور پروگرام سے مسلح کرنا ضروری ہے۔حکمران طبقات کے نظریات کو عوام نے جب مسترد کر دیا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے غیر جانب داری اور غیر سیاسی ہونے کے نام پر عوامی نظریات کے پرچار پر پابندی عائد کر دی۔ وسائل پر حق ملکیت کی قومی لڑائی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کی طبقاتی لڑائی کیسے غیر سیاسی اور غیر نظریاتی بنیادوں پر لڑی جا سکتی ہے۔ریاست تحریک کی کامیابی کو شکست میں بدلنے کے لیے سدھنوتی طرز پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے اوپر مزید حملے کروا سکتی ہے۔ان حملوں سے مقابلہ محنت کش عوام کی طاقت سے کیا جا سکتا ہے۔عوامی ایکشن کمیٹیوں کی جمہوری طرز پر تشکیل نو کی ضرورت ہے، جس میں نمائندوں کے انتخاب کے ساتھ ان کو واپس بلانے کا حق بھی کمیٹیوں کے پاس موجود ہو۔نظریات کے پرچار پر پابندی کی بجائے تمام شہریوں کو آزادی اظہار رائے کا جمہوری حق اور تمام سیاسی رحجانات کو لٹریچر تقسیم کرنے کہ اجازت دی جائے۔حکمران اشرافیہ کے غنڈوں اور فاشسٹ عناصر کے حملوں سے مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی سطح پر مسلح عوامی دفاعی کمیٹوں کو تشکیل دیا جائے۔مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے فیصلے عوام پر مسلط کرنے کی بجائے تمام اضلاع کی علاقائی کمیٹیوں کی نمائندہ ہے جس کو علاقائی کمیٹیوں کے آگے جوابدہ ہونا پڑے گا۔مہم جوئی اور مصالحت سے اجتناب کرتے ہوئے ہی تحریک کو شکست سے بچایا جا سکتا ہے۔مہم جوئی اور بار بار کی مصالحت دونوں صورتیں عوام کا اجتماعی طاقت پر یقین کو مایوسی اور بدگمانی کی جانب دھکیلتی ہیں۔