قیصرعباس
یہ 1979ء کا سال ہے۔ برِصغیر کے ایک مایہ ناز سائنسدان کو دنیا کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اس اعلان کے فوراً بعد وہ ہندوستان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کے کالج کے پروفیسر کا سراغ لگا نے میں ان کی مدد کرے جنہوں نے انہیں ریاضی کی تعلیم دی۔ پروفیسر کا پتہ حاصل کرکے وہ ان کے گھر کلکتہ پہنچتے ہیں اور بسترِ مرگ پراپنے استاد کواپنا میڈ ل یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ اس پرآپ کا حق ہے۔ اپنے استاد کو عزت دینے والے اس ذہین سائنسدان کو دنیا ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے جانتی ہے اور پروفیسر کانام انیل گنگولی ہے جو سناتن دھرم کالج، لاہور میں ان کے ریاضی کے پروفیسر تھے اور بٹوارے کے بعد ہندوستان منتقل ہو گئے تھے۔
نیٹ فلکس کی نئی دستاویزی فلم ”سلا م، پہلا….. نوبل انعام یافتہ سائنسدا ن “ اپنے عہد کے اسی محقق کی سوانح حیات ہے جو ان کی علمی اور تحقیقی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔ قیلو لہ پروڈکشن کی اس کاوش کے ہدایت کار و تدوین کار کمال کمالیکر اور پروڈیوسر عمر وانڈل اورذاکر تھاورہیں جنہوں نے اس قابلِ تحسین دستاویزی فلم میں عبدالسلام کی زندگی کو فنی پختگی اور صحافیانہ تحقیق کے ذریعے پیش کیا ہے۔
یہ دستاویزی فلم ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی کا احاطہ پاکستان کے سیاسی پس منظرکے ہمراہ ان کے شخصی ارتقا کی کہانی کے ذریعے کرتی ہے۔ فلم نے ان کے خاندان، رفقائے کار اورہم عصر سائنسدانوں کے حوالے سے ان کی زندگی کے مختلف ادوار کی پیشہ ورانہ اور انفرادی زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔ ان میں ان کی دوبیگمات حفظہ اور لوئیس، ان کے صاحب زادے احمد سلام، دانشور طارق علی اور فزکس کے پروفیسر پرویز ہودبھائی کے انٹرویو شامل ہیں جو پوری فلم میں اہم دستاویزات کے ساتھ استعمال کئے گئے ہیں۔
فلم کا آغاز نوبل انعام کی تقریب سے ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر عبدالسلام کو تھیوریٹکل فزکس یا طبعیات میں ایک نئے نظرئیے کی دریافت پر نوبل انعام دیا گیا تھا جس نے اس شعبے میں ایک انقلابی تصور کی بنیادرکھی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ توانائی کے چار ماخذ:بجلی، کشش ِثقل اور جوہری توانائی کی دو اقسام ہیں نیز یہ کہ بجلی اور جوہری توانائی کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور در اصل یہ ایک ہی توانائی کے دونام ہیں۔ اس نظرئیے نے فزکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا جس پر دنیا کی کئی درس گاہوں میں تحقیق ہوئی اوراس نظرئیے کو ہر بار صحیح ثابت کیاگیا ہے۔
اس دستاویزی فلم سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام بہت پہلے حاصل ہوجاتا اگر اس وقت کے ایک ماہر طبعیات ان کی ہمت افزائی کرتے۔ انہوں نے اپنا ایک مقالہ نوبل انعام یافتہ’Woldfgang Pouli‘کو تبصرے کے لئے بھجوایا جسے انہوں نے نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی نظرئیے پر بعد میں چین کے دو سائنسدانوں نے نوبل پرائز حاصل کیا۔
اس ذہین سائنسدان کی زندگی کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ 1922ء سے 1951ء تک کا پہلا حصہ جس میں انہوں نے جھنگ میں ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی او ر پھر لندن کی کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس تیس سال کی محنت نے انہیں نوبل انعام کے لئے تیار کیا۔ عمر کا دوسرا حصہ1951ء سے 1974ء تک23 سال کا عرصہ تھا جس میں انہوں نے پاکستان میں تحقیق اور تدریس کے ذریعے اپنے شعبے میں مہارت اور مقبولیت حاصل کی۔ آخری حصے میں 1974ء سے 1996ء تک 22سال کا عرصہ شامل ہے جوانہوں نے ملک سے باہر گزارا اور اسی دوران 1979ء میں نوبل انعام کا اعزازحاصل کیا۔
یہ ڈاکومنٹری مذ ہب اور سائنس کی پرانی بحث کوایک ایسے سائنسدان کے حوالے سے بیان کرتی ہے جو مذہبی اور سائنسدان ہونے کی حیثیت سے دو متضاد رویوں کا مالک تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالسلام اپنی انفرادی زندگی کے آخری دور میں خاصے مذہبی تھے لیکن پرویز ہودبھائی کے خیال میں وہ پاکستان میں قیام کے دوران عملی طور پر اتنے مذ ہبی نہیں تھے۔ یہ تبدیلی ملک میں قادیانیوں کو اقلیت قراردینے کے بعد آئی جب ا نہیں احساس ہوا کہ وہ اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔
اگرچہ اس مسئلے پر دستاویزی فلم میں تفصیلی بحث نہیں کی گئی لیکن ڈاکٹر عبدالسلام کے خیال میں توحید کے تصور پر مکمل یقین ہی ان کی تحقیق کی بنیاد تھا او ر وہ مادے کی چاروں مذکورہ قوتوں اور تصورِ وحدانیت میں ایک گہرا تعلق دیکھتے تھے جسے ان کے مطابق ایک دن سائنسی دنیا میں ثابت کیا جاسکے گا لیکن پرویز ہودبھائی کے خیال میں اکثر سائنسدان اپنے اعتقادات اور سائنسی دریافتوں میں ایک تسلسل تودیکھتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ سائنس اور انفرادی نقطہ ہا ئے نظرمیں مطابقت بھی پائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فزکس کے کئی نامورسائنسدانوں نے بھی اسی طرح کی دریافتیں کی ہیں مگر وہ مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
ڈاکٹر عبدالسلام پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کے حامی تھے۔ یہ بات صحیح ہے کہ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی ابتدائی منصوبہ بندی میں اہم کردا اداکیا تھا۔ وہ جنرل ایوب خان کے دور میں اٹامک انرجی کمیشن کے ممبرتھے اگرچہ کمیشن کا تعلق جوہری ہتھیاروں سے نہیں تھا۔ پھر 1972ء میں ذوالفقا ر علی بھٹو کے تشکیل کردہ سائنسدانوں کے اس گروپ میں شامل ہوئے جنہوں نے جوہری توانائی کے حصول میں اہم تحقیقاتی کام سرانجام دیا تھا جس کا اصل مقصد جوہری ہتھیاروں کا حصول تھا۔ بھٹو کے سائنسی امور کے مشیر کی حیثیت سے انہوں نے ہی اپنے ایک ہونہار شاگرد ریاض الدین کو جوہری ہتھیاروں کی بنیادی تحقیق کا سربراہ بھی مقرر کیا تھا جنہوں نے پاکستان میں جوہر ی بم کی سائنسی بنیاد فراہم کی۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھٹو نے 1974ء میں سیاسی مصلحتوں کے تحت احمدی فرقے کو اقلیت قراردیا تو وہ استعفیٰ دے کر لندن چلے گئے۔ طارق علی کے مطابق پاکستان میں پہلے بھٹو اور پھر جنرل ضیاالحق نے احمدی فرقے پر پابندیاں
لگا کر اس فرقہ ورانہ شدت پسندی اور تشدد کی بنیاد رکھی جس نے آگے چل کر ملک کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ لندن میں قیام کے دوران ان کے خیالات میں خاصی تبدیلی آئی اور وہ جوہری توانائی کے فوجی استعمال کے مخالفین میں شامل کیے جانے لگے۔ اس دوران ا پنے کئی بیانات اور تصا نیف میں بھی انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی سخت مخالفت کی تھی۔ ان حقائق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی ایام میں انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی منصوبہ بندی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا لیکن شعور کی پختگی تک پہنچ کر وہ جوہری جنگ کے خلاف ہوچکے تھے۔
ڈاکٹر سلام ترقی پذیر ملکوں میں سائنسی ترقی کے لیے عمر بھر کوشاں رہے۔ ان ملکوں کے نوجوان سائنسدانوں کی تربیت کے لئے انہوں نے اٹلی میں 1964ء میں انٹر نیشنل سنٹر فار تھیوریٹکل فزکس (ICTP) کی بنیاد رکھی جسے ان کے انتقال کے بعد عبدالسلام سنٹرکا نام دیا گیا۔ اس ادارے کے ذریعے دنیا کے لاتعداد طلبا و طالبات طبعیات کی تربیت، تعلیم، وظیفے اور اسناد حاصل کرچکے ہیں۔ اس دستاویزی فلم کا ایک بڑا حصہ سنٹر کی کارکردگی اور کامیابیوں پر مرکوز ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے کہاتھا کہ ”ان کا جنم ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہواتھا اور وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہی اس دنیا سے جائیں گے۔“ اپنے انعامات کی بیشتر رقوم وہ پاکستانی نوجوانوں کے وظا ئف میں صرف کرتے تھے لیکن ایک موقع پروہ یہ کہنے پر مجبورہوگئے تھے کہ انہیں ملک اورسائنس دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس پس منظر میں ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ پاکستان نہ چھوڑتے تو کیا فزکس کی دنیامیں وہ تحقیق کرسکتے جس کی بنیادپر انہیں دنیا کا سب سے بڑا عزاز حاصل ہوا؟ ہمیں اس سوال کا جواب اس دستاویزی فلم سے نہیں ملتا۔
ان کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ شایدیہی تھا کہ ان کے اپنے ملک نے انہیں غیر مسلم قراردے کر دوسرے درجے کا شہری بننے پر مجبور کردیا۔ وہ عمر کے آخری حصے میں یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل بننے کے خواہش مندبھی تھے لیکن حکومت ِ پاکستان کی مخالفت کی بنا پر ان کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔ شاید اپنے وطن کے اسی سلوک کا نتیجہ تھا جس نے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ ان کا انتقال ستر سال کی عمر میں 1996ء میں ہوا۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج پاکستانی اسکولوں کے اساتذہ اور طلبہ اپنے وطن کے اس سپوت کا نام بھی نہیں جانتے کہ نہ صرف اسے تاریخ اور سائنس کی کتابوں سے ہی خارج کردیاگیاہے بلکہ اس کے خلاف مذہبی منافرت کے پہاڑ تعمیرکردیے گئے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ان کی قبر کے کتبے سے لفظ ”مسلمان“ مٹا دیا گیاہے لیکن اسے کیا کہیے کہ جھنگ کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے و الے اس فرد کا نام آج دنیا کی مشہور جامعات کی دیواروں پر پہلے پاکستانی اور پہلے مسلمان نوبل انعام یافتہ سا ئنسدان کی حیثیت سے کندہ ہے۔ صرف یہی نہیں، دنیا کے کئی شہروں میں ان کے نام کی سڑکیں ہیں، علمی درس گاہوں میں شعبے ہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہیں۔ ان کے فرزند احمد سلام نے کہاتھا:
”وہ ہمیشہ پاکستانی عوام کو اپنی سب سے بڑی طاقت تصور کرتے تھے اور پاکستانی بھی انہیں اپنے دلوں کے قریب رکھتے ہیں۔“
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔