قیصرعباس
غربت کا خاتمہ ایک ایسا سوال ہے جس پر دنیا کے کئی محقق اور دانشور اپنے اپنے حساب سے کام کرچکے ہیں۔ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر دور ہرمعاشرے میں غربت ایک حقیقت رہی ہے اور اس کو مٹانے کی کوششیں بیکار ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماتو اسے آسمانی نظام بھی تصور کرتے ہیں جسے ختم نہیں کیا جاسکتا، ہاں لنگر اور خیرات سے غربا اور مساکین کی مدد ضرور کی جاسکتی ہے!
مارکسی نظریے سے دیکھا جائے تو غربت کسی آسمانی نظام کا حصہ نہیں‘بلکہ یہ انسان کی اپنی تخلیق ہے۔ یہ سارا نظام جس میں حکومت، معیشت اور معاشرت شامل ہے انسانی ارتقا پر مبنی ہے جسے خود انسان نے ایجاد کیاہے۔ اس کی ابتدا جنگل کے نظام سے ہوکر قبائلی گروہ بندیوں تک او رپھر آج اکیسویں صدی کی عالمی اقتصادیات تک پہنچی۔ ان سب ادوار میں انسان نے قدرتی ذرائع کو استعمال کرکے نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اپنا نظام تشکیل دیا اور اس طرح دوسری غیر ترقی یافتہ قوموں اور پس ماندہ طبقوں کو غلامی اور تشدد کے ذ ریعے زیرِنگیں رکھا۔
غربت اور امیری بھی اسی انسانی نظام کی پیداوار ہیں جنہیں صدیوں سے رجعت پسند تصورات کی آڑ لے کر ایک دائمی حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ در اصل یہ تقسیم معاشرے میں طاقت ور طبقات کی جانب سے برتری قائم رکھنے کی کوششیں ہیں جن میں کمزور طبقوں کو کمزور تر کرکے ان کا مسلسل استحصال کیا جاتارہا ہے۔ یہ استحصال کبھی مزدوروں، کبھی کسانوں، کبھی اقلیتوں اور کبھی پس ماندہ عوام کے حقوق سلب کرکے قائم رکھا گیاہے۔
لیکن اسی نظام کو چیلینج کرنے اور اس میں پسے ہوئے لوگوں کی زندگی کو بہتربنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ امریکہ کے تین معیشت دانوں کو غربت کے خاتمے کے لیے تحقیقی کاوشوں پر معاشیاتی سائنس کا 2019ء نوبل پرائز دیا گیا ہے جنہوں نے ترقیاتی معاشیات یا ڈویلپمنٹ اکنامکس کے شعبے میں نئی راہیں استوارکی ہیں۔ ان سائنسدانوں میں ایم آئی ٹی کے ابھیجت بینرجی، ان کی شریک کار (اور شریکِ حیات) ایستھرڈفلو کے علاوہ ان کے سابق شریک کار مائیکل کریمر شامل ہیں جو اب ہارورڈ یو نیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ان قدرے نوجوان ماہرین نے اپنے شعبے میں سائنسی تجربات کو لیباریٹوں سے نکال کر جیتے جاگتے انسانوں میں ان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیاغربت کو بہتر تعلیم، صحت عامہ اور ابلاغ کے ذریعے ختم کیا جاسکتاہے؟
یہ کوششیں انہوں نے صرف اپنے طور پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک نیٹ ورک کی بنیاد رکھ کر شروع کیں جسے عبدالطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب یا’J-PAL‘کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اس نیٹ ورک میں شامل دنیا کے کئی محققین ترقیاتی معاشیات کے شعبے میں غربت کے خاتمے کی کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔
ابھیجت بینرجی اور کریمر کے تجربات نے بھارت اور کینیا کے لاتعداد بچوں کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے جس میں ثابت کیا گیاہے کہ در اصل خاندانوں کے محدود ذرائع کم شرح خواندگی کا جواز نہیں ہیں بلکہ فرسودہ طریقہ ہائے تعلیم اصل وجہ ہے۔ انہوں نے ٹیوٹرنگ کے جدید طریقوں کے ذریعے اسکول کے بچوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے نئے اسلوب تلاش کئے۔
اسی طرح صحت عامہ کو بہتر بنانے کے نئے مگر آسان طریقوں کو استعمال کیا گیا مثلاًبیماریوں کے پیشگی تدارک کے لیے لوگوں کوسستی اشیا معاوضے کے طورپر دے کر علاج اور ٹیکوں کو مقبول بنایا گیا۔ بھارت کے ایک دیہی علاقے میں جب والدین کو ٹیکوں کے عوض دالیں دی گئیں تو پروگرام میں بچوں کی شمولیت میں 5 سے 9 3 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بینرجی نے ایک اور اچھوتے تجربے کے طور پر پیشگی علاج کے طریقوں کو عام بنانے کے لیے افواہوں کا استعمال کیا جس میں رائے عامہ کے معتبر افراد کے ذریعے افوا ہیں پھیلاکر گاؤں میں ٹیکوں اور علاج کی کامیاب ترغیب دی گئی(ایسے تجربات پر بھی کافی بحث موجود ہے مگر یہاں مقصد محض ان کے کام کا تعارف کرانا ہے)۔
ابھیجت بینرجی کا تعلق انڈیا سے ہے اور ا یستھر ڈفلو فرانسیسی ہیں۔ دونوں 2011ء میں اسی موضوع پر ایک معرکتہ لآرا کتاب ’Poor Economics‘ بھی تصنیف کرچکے ہیں اور ان کی ایک اور تصنیف نومبر میں شائع ہورہی ہے۔ اپنی اس کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”وہ اپنی اس نئی شہرت کا استعمال کرتے ہوئے زندگی کے بڑے مسائل کو موثر تحقیقی تجربات کے ذریے حل کرنے کے طریقوں کو مقبول کرنا چاہیں گے“۔
بھارت کے ایک اور نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے بھی اسی شعبے میں نئی راہیں دریافت کی تھیں جنہوں نے فرد کی زندگی میں اقتصادی آزادی کا نیا تصور پیش کیا تھا۔ ان کے مطابق اقتصادی ترقی کو صرف ملکی ترقی کے اعدادوشمار، (مثلا جی این پی) کی بنیاد پر ناپا نہیں جاسکتا بلکہ لوگوں کی زندگی کے معیار پر تولا جاسکتا ہے جس میں ان کو حاصل بنیادی سہولتوں مثلاً زندگی کاعرصہ (Life Expectency at Birth)، صحت، تعلیم اور آمدنی جیسے اعدادوشمارزیادہ اہم ہیں۔ اقوام متحدہ اب ان ہی معیاروں کو ’Human Development Index‘کے نام سے ترقیاتی سرگرمیوں کے پیمانے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ امرتیہ سین ہی نے ایک اور تحقیق کے تحت یہ بھی ثابت کیا تھا کہ’Gendercide‘ یا بچیوں کی پیدائش روکنے کے عمل سے معاشی ترقی بھی زوال پذیر ہوتی ہے۔
دونوں سا ئنسدانوں میں ایک مشترکہ خصوصیت اور بھی ہے۔ ابھیجت بینرجی او ر امرتیہ سین دونوں بھارت میں جاری مذہبی جنونیت کے سخت ترین ناقدہیں۔ دونوں نے وزیرآعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کی پالیسیوں کو ملک کے مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیاہے۔
2019ء کے نوبل پرائز حاصل کرنے والے ان تین سائنسدانوں اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ عام لوگوں کے مسائل صر ف تجرباتی لیباریٹریوں میں حل نہیں کیے جاسکتے بلکہ ان کے سماجی ڈھانچے اور اقتصادی رشتوں کو سمجھنے کے بعد ہی حل ہوسکتے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔