لاہور (جدوجہد رپورٹ) گذشتہ تقریباً تین مہینوں سے دنیا بھر کے اندر، نیو لبرل حکومتوں کے خلاف بغاوتیں سامنے آ رہی ہیں۔ صرف اکتوبر کے مہینے میں تین مختلف ملکوں میں، انقلابی عوامی مظاہروں نے دائیں بازو کی حکومتوں کو مجبورکر دیا کہ وہ ٹیکس واپس لیں۔ ہر جگہ مظاہروں کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی، مگر بے سود۔ یہ تینوں کامیاب بغاوتیں ”روزنامہ جدوجہد“ میں رپورٹ کی گئیں۔ ذیل میں ان کا ایک مرتبہ پھر احاطہ کیا جا رہا ہے۔
ایکواڈور
دو اکتوبر کو ایکواڈور میں مقامی آبادی (آدی واسیوں)نے مظاہروں کا اعلان کر دیا۔ مقامی آبادی اس بات پر شدید نالاں تھی کہ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر مقامی آبادی کو ایندھن پر ملنے والی سبسڈی ختم کر رہی تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین ملک بھر سے دارلحکومت کیٹو میں جمع ہو گئے۔ حکومت نے پہلے تشدد سے کام لیا۔ تشدد نے لوگوں کو اور بھڑکا دیا۔ مظاہرے اور پر جوش ہو گئے اور8 اکتوبر کو حکومت دارلحکومت سے فرار ہو گئی۔
13 اکتوبرکی رات حکومت اور مظاہرین کے مابین مذاکرات کے بعد ایکواڈور کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 4.2 ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ دو ہفتے جاری رہنے والے ان مظاہروں میں کم از کم 7 افراد ہلاک ہوئے اور 2000 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ 13 اکتوبرکو ہونے والے مذاکرات ٹیلی وژن پر براہِ راست دکھائے گئے۔ مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایکواڈور کے دارلحکومت کیٹو میں جشن کا سماں تھا۔
لبنان
17 اکتوبر کے روز بیروت میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگ وزیر اعظم سعد حریری کی مخلوط حکومت کی جانب سے واٹس ایپ پیغامات پر ٹیکس لگانے کے فیصلے پر طیش میں آ گئے تھے۔ صورتِ حال اس وقت اورخراب ہو گئی جب ایک وزیر کے باڈی گارڈز نے مظاہرین کو ڈرانے کے لئے ہوائی فائرنگ کی۔ 19اکتوبر کی رات اور اگلے دن تک، ہزاروں والا مظاہرہ لاکھوں میں بدل گیا۔
ہفتے اور اتوار کے روز بیروت میں ایک ملین لوگ سڑکوں پر تھے اور مظاہرے حزب اللہ کے گڑھ، جنوبی لبنان تک پھیل گئے۔ پیرکے روز سعد حریری نے ٹیکس واپس لینے کے علاوہ دیگر مراعات دینے کا اعلان بھی کیا۔ لوگ اب سعدحریری کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرے جاری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واٹس ایپ پر ٹیکس ایک بہانہ بنا ہے۔ لوگ لبنانی حکومت کی نیو لبرل پالیسیوں، حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور عوام سے لاتعلقی پر غصے میں تھے۔ گذشتہ ہفتے لبنان میں جنگلوں میں آگ لگنے سے بھی لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اس ماحولیاتی بحران کی ایک بڑی وجہ لبنا ن کا لینڈ اور رئیل اسٹیٹ مافیا بھی ہے۔ یاد رہے سعد حریری کا خاندان لبنان کا ملک ریاض سمجھا جاتا ہے اور اس خاندان کو سعودی حمایت حاصل ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خاندان ارب پتی بن گیا ہے۔
ادھر، لبنا ن فی کس کی بنیاد پر دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے۔ بے روزگاری چالیس فیصد ہے۔ قرضوں کا بوجھ امیروں پر ڈالنے کی بجائے غریبوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ واٹس ایپ کی سہولت بھی لوگوں سے چھینی جا رہی ہے۔
قرضوں کے علاوہ، فی کس کی بنیاد پر لبنان مہاجرین کی بھی دنیا میں سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ صرف پندرہ لاکھ شامی پناہ گزین گذشتہ آٹھ سال میں لبنان پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا ذمہ دار ان مہاجرین کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ لبنا ن کا تجارتی میڈیا بھی دن رات مہاجرین کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔ لبنان کی معاشی صورتِ حال کا ذمہ دار یہ پناہ گزین نہیں، نیو لبرل معاشی پالیسیاں ہیں۔ حکمرانوں کی بدعنوانیاں ہیں۔ لوگ اب تنگ آ چکے تھے۔ گذشتہ سات روز سے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ وہ پناہ گزینوں کو نہیں، حکمرانوں کو ایوانِ اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں۔ عرب بہار نئے سرے سے مشرق وسطیٰ کا رخ کر رہی ہے۔
چلی
21 اکتوبر کو دنیا بھر کے میڈیا میں چلی شہ سرخیوں میں تھا۔ چلی میں بھی مظاہرے جاری ہیں اور منگل کے دن عام ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال نے صدر سباستین پنیرا کی رائٹ ونگ حکومت کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ مظاہرے میٹرو کے کرائے میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ حکومت نے مظاہروں کو پولیس تشدد اور فوجی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔ ان مظاہروں میں 15 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 5000 افراد کو گرفتار کیاگیا۔ دارلحکومت سنتیاگو سمیت پانچ شہروں میں کرفیو نافذ رہا۔
ادھر، منگل کے دن، صدر سباستین نے نہ صرف کرائے میں اضافہ واپس لینے کا اعلان کیا بلکہ پنشنوں میں 20 فیصد اضافہ کرنے اورصحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ بعض دیگر مراعات کا بھی اعلان کیا۔ حکومت کو توقع تھی کہ اس طرح شاید بغاوت میں کمی آ جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔
مظاہرین اب اس حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لبنان کی طرح، نہ حکومت کی رشوت کام آ رہی ہے نہ تشدد۔
مندرجہ بالا حقائق سے مندرجہ ذیل نتائج بہ آسانی اخذ کئے جا سکتے ہیں:
1۔ عوام اب حکمرانوں کی نیو لبرل پالیسیوں اور ان کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔
2۔ نیو لبرلزم اور ملٹرائزیشن اور پولیس تشدد لازم و ملزوم ہیں۔
3۔ لوگ اب صرف لالی پاپ سے نہیں بہلائے جا سکتے۔
4۔ عوامی مظاہروں کے سامنے دائیں بازو کے ان منتخب رہنماؤں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑ سکتے ہیں جن کو مین اسٹریم میڈیا میں بہت بڑا ہیرو بنایا جاتا ہے۔