دنیا

سامراج مخالفت کے نام پر یورپی لیفٹسٹ کردوں سے غداری کر رہے ہیں!

سلاوے زِیزک

ٹھیک سو سال پہلے، کارل مے نے ایک جرمن ہیرو، کارا بین نیمسی کی مہم جوئی کے بارے میں، ”سخت کوش کردستان کے توسط سے“(Through Wild Kurdistan)کے عنوان سے ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب لکھی تھی۔

اس بے حد مقبول کتاب نے وسطی یورپ میں کردستان کے بارے میں ایسا تاثر قائم کیا کہ جیسے وہ ظالمانہ قبائلی جنگ کرنے والوں کا ایک مقام ہے، جہاں لوگ عزت کے احساس سے عاری اور توہم پرستی کا شکار ہیں، جہاں غداری ان کے رنگ و خون میں سرایت کر چکی ہے اور اسی کے باعث وہاں مستقل ظالمانہ جنگ رہتی ہے، یہ دراصل یورپی تہذیب سے غیر وابستہ اقوام کا ایک بربریت آمیز خاکہ تھا۔

اگر ہم آج کے کردوں پر نگاہ ڈالیں، تو ہم اس روایتی تصور سے متضاد صورتحال کا سامنا کر کے حیرت زدہ ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ترکی، جہاں میں صورتحال کو نسبتاً اچھی طرح جانتا ہوں، وہاں میں نے محسوس کیا ہے کہ کرد اقلیت معاشرے کا سب سے جدید اور سیکولر حصہ ہیں، جو ہر مذہبی بنیاد پرستی سے دور ہیں۔ کردوں میں ترقی پسند فیمن ازم کا بھی ایک زبر دست رجحان ہے(یہاں میں ان تمام تفصیلات کا جو میں نے استنبول میں اکٹھی کیں تھیں محض اس نشاندہی پر اکتفا کرتا ہوں کہ کردوں کے زیر ملکیت ریستورانوں میں بھی توہم پرستی کے آثار نہیں دیکھے)۔

خود ساختہ عقلِ کل ڈونلڈٹرمپ نے کردوں کے ساتھ اپنی حالیہ نفرت کا یہ جواز پیش کیا کہ (انہوں نے شمالی شام میں کردوں کے ترک محاصرے پر اظہار افسوس کیا) ”کرد بھی فرشتے نہیں ہیں“۔ یقیناً، ان کے لیے اس خطے میں فرشتے صرف اسرائیلی ہیں (خاص طور پر مغربی کنارے میں) یا سعودی(یمن میں)۔ تاہم، ایک خاص حوالے سے، کرد دنیا کے اس حصے میں فرشتے ہی ہیں۔

چار ہمسایہ ملکوں (ترکی، شام، عراق، ایران) کی سرحد کے ساتھ پھیلی کردوں کی تقدیر انہیں جغرافیائی استعماری کھیلوں کا مثالی شکار بناتی ہے۔ ان کی (خاص حد سے زیادہ) مکمل خودمختاری کسی کے مفاد میں نہیں اور انہیں اس کی مکمل قیمت ادا کرنا پڑی۔

کیا ہمیں اب بھی 1980ء کی دہائی کے آخر میں عراق کے شمال میں کردوں پر صدام کی بڑے پیمانے پر بمباری اور گیس سے ہلاکتیں یاد ہیں۔

ابھی حال ہی میں، برسوں بعد، ترکی نے ایک منصوبہ بندی کے تحت فوجی سیاسی کھیل کھیلا ہے:اس نے بظاہر اعلانیہ طور پر تو داعش کا مقابلہ کیا مگر درپردہ کردوں پر موثر انداز میں بمباری کی جو واقعتاً داعش سے لڑ رہے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں، کردوں کی اپنی اجتماعی زندگی کو منظم کرنے کی اہلیت کا تجربہ تقریباً مثالی تجرباتی حالات میں کیا گیا تھا۔ جب انہیں آس پاس کی ریاستوں کے تنازعات سے باہر آزادانہ طور پر سانس لینے کے لئے جگہ دی گئی تو انہوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

صدام کے زوال کے بعد شمالی عراق میں محصور کرد عراق کے واحد محفوظ حصے میں ترقی پا رہے ہیں جہاں ان کے ادارے بہترین انداز میں کام کر رہے ہیں حتیٰ کہ یورپ کے لئے باقاعدہ پروازیں بھی ہیں۔ شمالی شام میں محصور کردوں کیلئے روجاوا ایک منفرد مقام تھا، جہاں کردوں کو اپنے بڑے ہمسایہ ممالک کی طرف سے جو انہیں ہر وقت دھمکی دیتے رہتے تھے کچھ مدت کیلئے مہلت دی گئی تھی، کردوں نے جلدی سے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جسے دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا، اس کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔

میں نے اپنی پیشہ ورانہ دلچسپی کے باعث روجاوا کے ابھرتے ہوئے دانشور طبقے کو دیکھا جہاں انھوں نے مجھے کئی بار لیکچر دینے کی دعوت دی۔ ان منصوبوں کو علاقے میں جاری فوجی کشیدگی کی وجہ سے رکاوٹ کا سامنا رہالیکن مجھے خاص طور پر میرے ”بائیں بازو“ کے ساتھیوں کے ردعمل نے مایوس کیا جو اس بات پر ناراض ہیں کہ کردوں نے امریکی فوج پر انحصار کیا۔

ترکی، شام کی خانہ جنگی، عراق اور ایران کے مابین کشیدگی میں پھنسے ہوئے ان کردوں کو کیا کرنا چاہئے تھا؟کیا ان کے پاس کوئی اور انتخاب تھا؟ کیا انہیں سامراج مخالف یکجہتی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا؟

”بائیں بازو“ کا یہ تنقیدی زاویہ مقدونیہ پر ان کے موقف سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ کچھ مہینے پہلے، یہ بحث عام تھی کہ ”مقدونیہ“ کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے۔ اس کا تجویز کردہ حل یہ تھا کہ اس کا نام ”شمالی مقدونیہ“ رکھ دیا جائے، لیکن اس پر فوری طور پر دونوں ممالک کے بنیاد پرستوں نے حملہ کردیا۔ یونانی مخالفین نے زور دے کر کہا کہ ”مقدونیہ“ ایک قدیم یونانی نام ہے، ادھر مقدونیائی اس بات سے نالاں کہ انہیں ”شمالی“صوبے تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ صرف وہ لوگ ہیں جو خود کو ”مقدونیہ“ کہتے ہیں۔

”شمالی مقدونیہ“ والا نام ایک ایسا حل تھا جو ظاہر ہے نامکمل تھا۔ اس حل نے معقول سمجھوتے کے ساتھ ایک طویل اور بے معنی جدوجہد کے خاتمے کی ایک جھلک پیش کی لیکن یہ ایک اور ”تضاد“ میں پھنس گیا: بڑی طاقتوں کے درمیان جدوجہد (ایک طرف امریکہ اور یورپی یونین، دوسری طرف روس)۔

مغرب نے دونوں اطراف پر دباؤ ڈالا کہ وہ سمجھوتہ قبول کریں تاکہ مقدونیہ جلدی سے یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ہوسکے جبکہ اسی وجہ سے (اس میں بلقان میں اپنا اثر و رسوخ کھو جانے کا خطرہ دیکھ کر) روس نے اس کی مخالفت کی۔

دونوں طرف قدامت پسند قوم پرست قوتیں تھیں۔ تو ہمیں یہاں کون سا رخ اختیار کرنا چاہئے؟

میرے خیال میں ہمیں ایک سادہ سی وجہ سے مندجہ بالا سمجھوتے کی حمایت کرنی چاہئے تھی کہ یہ مسئلہ کا واحد حقیقت پسندانہ حل ہے۔

روس نے کوئی دوسرا حل پیش کیے بغیر مفادات کی بنا پر اس کی مخالفت کی، لہٰذا یہاں روس کی حمایت کا مطلب بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی مفادات کے لئے مقدونیائی اور یونانی تعلقات کے مسئلہ کے معقول حل کی قربانی دینا ہوگا۔ (اب جب کہ فرانس نے شمالی مقدونیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کو ویٹو کردیا ہے، تو کیا فرانس والے بلقان کے اس حصے میں غیر متوقع تباہی کے ذمہ دار ہوں گے؟)

کیا ہمارے سامراج مخالف ”بائیں بازو“ سے کردوں پر بھی یہی ضرب لگائی جائے گی؟

ہمارا فرض ہے کہ ہم کردوں کی ترک یلغار کے خلاف مزاحمت کی مکمل حمایت کریں اور مغربی طاقتیں ان کے ساتھ کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیلوں کی سختی سے مذمت کریں۔ اگرچہ ان کے آس پاس کی خودمختار ریاستیں آہستہ آہستہ ایک نئی بربریت میں ڈوب رہی ہیں، کرد ہی امید کی کرن ہیں۔ یہ صرف کردوں کے لئے جدوجہد نہیں ہو گی بلکہ یہ ہمارے اپنے لیے بھی ہے، یہ نئے وقوع پذیر ورلڈ آرڈر کے خلاف جدو جہد ہو گی۔ اگر کردوں کی مدد نہ کی گئی تو یہ ایک ایسا نیا ورلڈ آرڈر ہوگا جس میں یورپ میں پروان چڑھنے والے نظریہ آزادی کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اگر یورپ نے کردوں سے آنکھیں پھیر لیں تو وہ خود کو دھوکہ دے گا۔ وہ یورپ جو کردوں کے ساتھ دغا کرے گا، وہی حقیقی یورپستان ہوگا!

Slavoj Žižek
+ posts

عالمی شہرت یافتہ فلسفی، سلاوئے زیزک سلوینیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج کل وہ لندن یونیورسٹی میں برکبیک انسٹی ٹیوٹ آف ہیومینیٹیز سے وابستہ ہیں۔