دنیا

جنوبی افریقہ: حکمرانوں کا رنگ بدلا‘ کردار نہیں…

لال خان

8 مئی کو جنوبی افریقہ میں ہونے انتخابات میں اگرچہ حکمران جماعت’افریقن نیشنل کانگریس‘(ANC) 57 فیصد ووٹ حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی بن گئی لیکن تاریخی طور پراس کی حمایت میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی صدی قبل 27 اپریل 1994ء میں ہونے والے انتخابات میں اے این سی نے 85 فیصد ووٹ لیے تھے۔ اس کے بعد 2014ء میں ہونے والے انتخابات میں یہ گر کر 62 فیصد رہ گئے تھے۔ ا س مرتبہ مزید پانچ فیصد کی کمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افریقہ کی اس سب سے کلیدی ریاست میں روایتی پارٹی زوال پذیری کا شکار ہے۔

نسل پرست سفید آمریت کے خاتمے کے بعد ان چھٹے انتخابات میں عوام کی ووٹ ڈالنے کے عمل سے مایوسی اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ پچھلے انتخابات میں 78 فیصد کا ٹرن آؤٹ گر کر 62 فیصد رہ گیا ہے۔ لیکن حالات کیخلاف غم و غصہ سب سے زیادہ نئی نسل میں پایا جاتا ہے۔ 60 لاکھ نوجوانوں نے اپنا ووٹ رجسٹر کروانے کی کاوش ہی نہیں کی۔ جنوبی افریقہ میں 27 فیصد بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور نوجوانوں میں یہ شرح ایک سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ 50 فیصد نوجوان بیروزگاری کے سمندر میں غرق ہو رہے ہیں جن کے لئے جلد کسی روزگار کا امکان بھی نہیں ہے۔ افریقہ کی اس سب سے بڑی معیشت کی روز گار پیدا کرنے میں مکمل ناکامی اس نظام کے بحران کی شدت کی غمازی کرتی ہے جو باقی دنیا کی طرح اس ”آزاد“ جنوبی افریقہ میں بھی رائج ہے۔

جوہانس برگ میں وسیع کچی آبادی اور آسمان چھوتی عمارات کا ایک منظر

یہاں کے نوجوان جنہوں نے 1970 ء اور 1980ء کی دہائی کے دوران سفید فام آمریت کو لرزا دینے والی جراتمندانہ تحریکیں برپا کی تھیں، آج جس یاس و اضطراب کا شکار ہیں اس کی کوکھ میں ایک نئی بغاوت کا لاواسلگ رہا ہے۔ ٹائم میگزین کے مطابق ”آج25 سال بعد بھی جنوبی افریقہ دو قوموں والا ملک ہے: امیر طبقہ جس میں اکثریت سفید فام افراد کی ہے اور غریب قوم‘ جس کی وسیع تر اکثریت سیاہ فام محنت کشوں اور محروموں پر مبنی ہے۔“
عالمی بینک کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ دنیا کا سب سے زیادہ عدم برابری والا معاشرہ ہے۔ اوپر کے 10 فیصد افراد کے پاس کل ملکی وسائل کا 70 فیصد ہے جبکہ نچلے60 فیصد کے پاس صرف 7 فیصد ملکی دولت ہے۔آدھی سے زائد آبادی 5 ڈالر یومیہ سے کم پر گزارا کر رہی ہے۔ اب تو عالمی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 1994ء میں سفید فام آمریت کے خاتمے سے پہلے نابرابری آج کی نسبت کم تھی۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ کے عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کے ساتھ کتنی بڑی غداری کی گئی ہے۔

سرل راما فوسا (Cyril Ramaphosa) ان انتخابات کے ذریعے جنوبی افریقہ کاصدربنا ہے۔ وہ ملک کے چند امیر ترین سیاستدانوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس کی اعلان کردہ دولت 450 ملین ڈالر ہے۔ پوشیدہ دھن اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ وہ تیز رفتار ریسنگ گاڑیوں، انتہائی مہنگی ونٹیج وائین (پرانی شراب) اور جانوروں اور ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کا شوقین ہے۔

وہ ایک ٹریڈیونین لیڈر ہوا کرتا تھا جو ”آزادی“ کے بعد پنپنے والی کالی سرمایہ داری کی سب سے بڑی علامت بن گیا ہے۔ اس نے ہڑتالوں اور ریاستی اداروں پردباؤ کے ذریعے حکمران طبقے تک رسائی 1980ء کی دہائی میں ہی شروع کردی تھی۔ محنت کشوں سے غداری کے عوض سرمایہ دار طبقے نے اس کو کاروباروں میں حصہ دار بنانا شروع کیا اور اس وقت وہ معیشت کے ہر شعبے میں حصص کا مالک ہے۔ ٹیلی کام اور کارپوریٹ میڈیا سے لے کے مشروبات تک۔ اور جنوبی افریقہ میں میکڈونلڈ کے فاسٹ فوڈ کے سارے کاروبار کا مالک ہے۔ لیکن اس کا سب سے ظالمانہ کاروبار ایک کانکنی کی اجارہ داری ’لومن‘(Lomin) ہے۔ اگست2012ء میں اس کی سونے اور ہیروں کی کان میں مزدوروں کی ہڑتال توڑنے کے لئے پولیس نے اندھا دھند گولیاں چلائیں اور 34 مزدوروں کا قتل عام کیا۔

”آزاد“ سیاہ فام حکومت میں جنوبی افریقہ کے عام انسانوں کے حالات زندگی بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ بیروزگاری، غربت، تعلیمی و صحت کے شعبے کی ہولناک تنزلی اس نابرابری کے اذیت ناک زخم ہیں۔1994ء میں پورے جنوبی افریقہ میں 300 کچی آبادیاں (جھونپڑپٹیاں) تھیں۔ آج ان کی تعداد 2700 سے بڑھ چکی ہے۔وہاں نہ پانی ہے نہ بجلی کی مستقل سپلائی۔

جنوبی افریقہ کے سب سے بڑے اور امیر شہر کیپ ٹاؤن کی اکثریتی سیاہ فام آبادی ان جھونپڑ پٹیوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر ناتھن اڈرانیر (Nathan Adriaane) نے ایک مغربی جریدے کو بتایا، ”اب بتانا مشکل ہوگیا ہے کہ نسل پرستی کہاں ختم ہوئی ہے اور طبقاتی بغاوت بنیادی تضاد بن کر کب بھڑکتی ہے۔“

یورپی سامراجیوں کی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے پچھڑے ہوئے ممالک پر قبضے اور نوآبادکاری کی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ جو جنوبی افریقہ میں 1948 ء کے بعد یہ ایک انتہائی جابرانہ اور سفاک سفید فام نسلی حاکمیت کی صورت میں مسلط ہوئی جس کو سرکاری قانون کا تحفظ حاصل تھا۔دنیا کے مختلف خطوں میں انقلابی تحریکیں ابھریں تو آغاز میں وہ قومی آزادی کی تحریکوں کی شکل میں سامنے آئیں یا لائی گئیں۔ لیکن ان تحریکوں کی اساس جو طبقاتی جدوجہد پر مبنی تھی کو سرمایہ دارانہ میڈیا اور دانشوروں نے پس پشت ڈالنے کی زہریلی واردات جاری رکھی۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل پرستی کے خلاف ایک بھرپور جدوجہد اور قربانیوں سے بھری تحریک ابھری تھی۔ آغاز میں اس کی قیادت نیلسن منڈیلا کو حاصل ہوئی۔ ان سامراج مخالف تحریکوں میں سے کچھ‘ محنت کش عوام کی لڑاکا ہڑتالوں پر مبنی تھیں اور بعض ممالک میں مسلح جدوجہد کے ذریعے سامراجیوں سے ٹکرا کر ان کو شکست دے کر کامرانی حاصل کی گئی۔ لیکن زیادہ بڑے اور اقتصادی لحاظ سے کلیدی ممالک میں سامراجیوں نے ان تحریکوں میں گہری سرایت کروا کے ان کی ریڈیکلائزیشن کو اندر سے توڑ کر انہیں مذاکراتی راستوں پر بھٹکا دیا۔

جیسے متحدہ ہندوستان میں بھگت سنگھ جیسے رحجانات اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کا اہم کردار تھاویسے ہی جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی (SACP) ایک بڑی قوت کے طور پر ابھری تھی۔ منڈیلا کی قیادت میں افریقن نیشنل کانگریس محض ایک ریڈیکل قوم پرست پارٹی تھی۔ لیکن تحریک کے دباؤ کے تحت ان کو سوشلزم کو اپنے منشور میں شامل کرنا پڑا۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی نے ماسکو کے احکامات پر اپنی غیر مشروط حمایت اس قوم پرست رجحان کی قیادت کی جھولی میں ڈال دی۔ لیکن جب1989ء میں دیوار برلن گری اور1991ء میں سوویت یونین کا انہدام ہوا تو منڈیلا نے سوشلسٹ پروگرام کو ترک کردیا اور’اے این سی‘ کے لئے سامراجیوں سے مصالحت آسان ہوگئی۔

ایسی تحریکیں جن سے سرمائے کے نظام کو خطرہ نہ ہو انہیں سامراجی میڈیا اپنے مقاصد کے لئے بھرپور استعمال کرتا ہے۔ان کے مصالحتی لیڈروں کو خوب ابھارا جاتا ہے۔ ہیرو اور مسیحا بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ بلکہ دیوتا تک بنا دیا جاتا ہے۔ استحصالیوں سے ”مذاکرات“ اور ”مصالحت“ کو آزادی کے راستے کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ پچھلی صدی میں موہن داس گاندھی اور نیلسن مینڈیلا ایسے ہی کردار تھے۔ جنہیں انقلابی تحریکوں کو بھٹکانے اور زائل کرنے کے لئے آج تک استعمال کیا جاتا ہے۔

’کچی آبادیوں میں نہ پانی ہے نہ بجلی کی مستقل سپلائی‘

جنوبی افریقہ میں حکمرانوں کے رنگ بدلے‘ بنیادی نظام نہیں بدلا۔ اور اس نظام نے عام انسانوں کا برا حشر کردیا۔ لیکن نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بائیں بازو کے رحجانات کو بالکل مٹا یا نہیں جاسکا۔ اے این سی کے یوتھ ونگ میں پھوٹ کے بعد ایک نئی بائیں بازو کی پارٹی ’اکنامک فریڈم فائٹرز‘ (EFF) کے نام سے ابھر رہی ہے۔ان انتخابات میں اس کے ووٹوں کی تعداد انیس لاکھ (مجموعی ووٹوں کا 10.79 فیصد) رہی ہے۔ پچھلے انتخابات میں اس نے تقریباً 12 لاکھ ووٹ (مجموعی ووٹوں کا 6.35 فیصد) حاصل کیے تھے۔ اس کے رہنما جولیس مالیما (Julius Malema) نے کھل کر سوشلزم کی بات بھی کی ہے۔

قیادت کی غداری سے انقلابی عوامل کو وقتی طور پہ دبایا تو جا سکتا ہے‘ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جنوبی افریقہ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے اب یہ حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ طبقاتی آزادی کے بغیر کوئی حقیقی آزادی ممکن نہیں ہے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔