دنیا

اسرائیل نے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے لبنان، ایران تک جنگ پھیلائی

دینا عزت

رواں سال 7اکتوبر کو غزہ میں فلسطینیوں نے تباہ کن جنگ کا ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ یہ جنگ اسرائیل نے حماس کے الاقصیٰ فلڈ آپریشن کے چند گھنٹے بعد ان پر مسلط کی تھی، جس میں 7اکتوبر2023کی اولین ساعتوں میں اسرائیل کے جنوب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

12ماہ کے دوران 50ہزار کے قریب فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ بہت سے اب بھی ملبے کے نیچے سے نکالے جا رہے ہیں، جو غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جمع ہو رہا ہے۔

ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں، جن میں سے بہت سے اب زندگی بھر کے زخموں کا شکار ہو کر معذور ہو چکے ہیں۔ غزہ کا صحت کی دیکھ بھال کا نظام، رہائش کی سہولیات، تعلیمی نظام اور بنیادی ڈھانچہ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا بری طرح سے تباہ ہو چکا ہے۔

حماس کے عسکری ونگ کی غیر معمولی مزاحمت اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے ملنے والی حمایت، جس میں شمالی اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹوں کی وجہ سے اس کی فوج پر دباؤ ڈالاگیا، کے باوجود اور نسل کشی کی جنگ بند کرنے کی بار بار عالمی اپیلوں کے باوجود یہ سب بربادی کی گئی ہے۔

غزہ پر اپنی جنگ کو روکنے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی اور کئی عالمی دارالحکومتوں سے حماس کے خلاف اپنی جنگ کے لیے کھلی ہمدردی کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس اور حزب اللہ پر ان کے اگلی سطح کے رہنماؤں کے قتل کے سلسلے کے ساتھ اپنے حملے کا آغاز کیا۔اس سلسلے میں بیروت میں حزب اللہ کی سرکردی شخصیت فواد شکر اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا قتل شامل ہے، جب یہ تہران میں تھے۔ اس کے بعد 27 ستمبر کو بیروت میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کا حیران کن خاتمہ ہوا۔

حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں اور دونوں اسلامی مزاحمتی گروپوں کے بہت سے جنگجوؤں کا قتل اس بڑے نقصان کا حصہ ہے جو دونوں نے اسرائیل کی طرف سے اپنے فوجی انفراسٹرکچر کے اہم حصوں کی تباہی کے ساتھ برداشت کیا ہے،بلکہ غزہ میں حماس کے ساتھ کم از کم اب تک حزب اللہ کو جنوبی لبنان میں پہنچنے والے نقصان سے بہت زیادہ ہوا۔

برطانیہ میں SOAS(اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز) یونیورسٹی آف لندن میں ڈویلپمنٹ اسٹڈیز اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے لبنانی پروفیسر جیلبر اشقر کے مطابق حماس کے لیے صورتحال بہت مشکل نظر آتی ہے۔

فلسطین

اشقر کا کہنا ہے کہ ”ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ حماس کو غزہ میں توڑ دیا گیا ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل انہیں اپنے آلات اور کئی دہائیوں کے دوران تعمیر کیے گئے پورے انفراسٹرکچر کو دوبارہ تشکیل دینے دے گا۔اس سے بھی بدتر یہ کہ مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل اس بار غزہ سے نکلنے والا ہے۔“

انکا کہنا تھا کہ ”ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جب (سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل) شیرون نے 2005 میں غزہ سے انخلاء کیا تو نیتن یاہو، جو اس وقت اسرائیلی حکومت کے ایک رکن تھے، نے اس انخلاء پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج نیتن یاہو کسی نہ کسی صورت میں غزہ میں ہی قیام پذیر ہیں۔“

اشقر کے مطابق ’بہترین طور پر‘ غزہ مغربی کنارے کی طرح ہو گا جس میں اسے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں تقسیم کیا جائے گا، جیسا کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے سالوں کے دوران ہوا تھا جب سیاہ فام افریقی آبادی کو مخصوص محدود محلوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

اشقر نے کہا کہ غزہ کی جغرافیائی تنہائی کے پیش نظر اس کے لیے حالات بہت زیادہ خراب ہوں گے۔تاہم مزاحمت اور خاص طور پر عسکریت پسندوں کی مزاحمت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکے گا۔یہ برقرار رہے گی، لیکن کبھی کبھار حملوں کی صورت زیادہ اظہار ہوتا رہے گا، جیسا کہ مغربی کنارے میں ہوتا رہا ہے۔ یقینی طور پر 6 اکتوبر 2023 کی صورت حال میں (حماس کے لیے) واپس جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ حماس غزہ سے باہر مضبوط ہے۔ یہ مغربی کنارے، اردن اور لبنان کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج سوال یہ نہیں ہے کہ حماس باقی رہے گی یا نہیں، کیونکہ حماس صرف اس لیے رہے گی کہ (نیتن یاہو) اسے ختم نہیں کر سکتے۔

سوال یہ ہے کہ اب حماس کیا کر سکے گی؟

اشقر کے لیے موخر الذکر بڑا سوال ہے، خاص طور پر ان کے پیش نظر یہ حقیقت ہے کہ غزہ میں فلسطینی اپنی شکست کا زیادہ سے زیادہ احساس کر رہے ہیں۔

انہوں نے 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹم بم حملے کے حوالے سے کہا کہ”یہ واقعی ایک نسل کشی کی جنگ تھی اور اس میں تباہی کی شدت بھی تھی جس کا میرے خیال میں ہیروشیما کے علاوہ کسی اور چیز سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔“

انہوں نے کہا کہ”دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت، جو کہ اصل میں نیو فاشسٹوں اورنیو نازیوں کا ایک گروپ ہے، یقینی طور پر غزہ پر مستقل دوبارہ قبضے کے لیے زور دے گی۔“

انہوں نے دلیل دی کہ الاقصیٰ فلڈ آپریشن کے بعد حماس کے خلاف سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت کے بارے میں اسرائیلی سیاسی حلقوں میں جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے 2001کے موسم خزاں میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز کو گرائے جانے اور پینٹاگون پر حملے کے حوالے سے کہاکہ ”میرے خیال میں یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد القاعدہ کے خلاف حالات تھے۔“

انہوں نے کہا کہ ”یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ 7 اکتوبر کے آپریشن کی مجموعی بیلنس شیٹ تباہ کن ہے اور یہ ایک بہت بڑا غلط حساب تھا۔غزہ میں موجودہ زمینی صورتحال اور حماس کو جو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اس کے بعد اس کے لیڈروں کے لیے مستقبل قریب میں ’الہامی فتح‘یا ایسی کسی چیز کی بات کرنا بہت مشکل ہو گا۔“

اشقر نے دلیل دی کہ صورت حال کئی طریقوں سے بہت مشکل ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ حماس اور غزہ کی پوری آبادی کو نقصان پہنچا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ حماس کا کوئی واضح سیاسی متبادل نہیں ہے۔ آج وہاں صرف ایک سیاسی خلا ہے۔فلسطینی اتھارٹی کی مجموعی طور پر اور اس کے رہنما محمود عباس کی غزہ میں ’صفر ساکھ‘ اور ’صفر مقبولیت‘ہے۔

اشقر کے مطابق”ممتاز اور مقبول الفتح رہنما مروان برغوتی، جو 2002 سے اسرائیل کی طرف سے قید ہیں اور 2000 میں دوسری انتفادہ کے رہنما تھے، حماس کا سیاسی متبادل ہو سکتے تھے۔ تاہم ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ نیتن یاہو برغوتی کو رہا کریں۔“

انہوں نے کہا کہ ”یہ بدقسمتی اور تکلیف دہ ہے۔یہ فلسطینیوں کے لیے بہت مشکل لمحہ ہے۔ یہ فلسطین کی تحریک آزادی کے لیے شکست کا لمحہ ہے اور صیہونی تکبر کی فتح کا لمحہ ہے۔یہ سب کچھ ہمیں سمجھنا ہوگا۔“

اشقر اس دلیل کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ قابض اسرائیلی فوجی طاقت کی جانب سے حماس اور غزہ کو پہنچنے والے تمام حقیقی اور طویل المدتی نقصانات کے باوجود 7اکتوبر2023کے ابتدائی اوقات میں حماس نے اسرائیلی تکبر کے لیے ایک چونکا دینے والا چیلنج بن کر ایک نئی حقیقت بھی مسلط کر دی ہے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے بیانیہ کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، جو ستمبر1993کے اوسلو معاہدے میں پیش کیا گیا تھا،کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور سکیورٹی کوآرڈینیشن فلسطینی ریاست کی طرف ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے سے بھی ڈرامائی طور پر انحراف کیا گیا ہے۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی کو بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اوسلو پراسیس طویل عرصے سے ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دوسرے انتفادہ کے بعد سے مر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”سابق فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو ایک آزاد فلسطینی ریاست مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کا وہم تھا، لیکن 20سال قبل نومبر2004میں عرفات کے ساتھ ہی یہ بھرم بھی دم توڑ گیاتھا۔نیتن یاہو فلسطینی ریاست کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ بات اسرائیلی وزیر اعظم نے خود کہی ہے۔“

تاہم انہوں نے استدلال کیا کہ الاقصیٰ فلڈ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور سیکورٹی تعاون کے ناقص اور غیر نتیجہ خیز عمل کا خاتمہ نہیں کیا۔ اس نے جو کچھ کیاوہ اوسلو پراسیس کے ذریعے جمود کے مقابلے میں ”بہت بدتر سیاسی متبادل متعارف کرایا گیا ہے۔“

غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آغاز کے ایک سال بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ فلسطینی آبادی ’بانتوتستان‘سے بھی کم جگہ پر بکھری ہوئی ہے اور اسرائیلی فار رائٹ انہیں بے دخل کر کے سینائی میں دھکیلنے پر زور دے رہاہے۔وہ ایسا کر چکے ہوتے، اگر مصری حکومت نے اس کے بارے میں سرخ لکیر نہ کھینچی ہوتی۔

آج حکومت میں نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے ساتھی غزہ میں فلسطینیوں کو پٹی کے انتہائی جنوبی مقام پر رفح میں رکھنے پر زور دیں گے اور اسرائیلی آباد کاروں کو غزہ کے شمال میں اور شاید پٹی کے درمیانی حصے پر مصر کے ساتھ سرحدوں تک دوبارہ قبضہ کرنے کی اجازت دیں گے۔

اشقر کہتے ہیں کہ ”اس پوری تباہی میں صرف ایک امید کی بات یہ ہے کہ فلسطینی عوام اور کاز کے ساتھ دنیابھر میں اور خاص طور پر امریکہ میں یکجہتی کا اضافہ ہواہے۔یہ مستقبل کے لیے اہم ہے۔ یہ ضروری ہے کہ دنیا یہ سمجھے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں تقریباً 50ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں،جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”فلسطینی مزاحمت کو ایک نئے سیاسی متبادل کی ضرورت ہے جو ماضی کی آزادی کی تحریکوں سے مختلف ہو نہ کہ صرف حماس سے۔ تیسری قوت کی ضرورت تھی، لیکن موجودہ قوتیں اس نئی قوت کو اپنا راستہ تلاش کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔“

”یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ نئی فورس عسکری نہیں ہونی چاہیے۔ عسکری طاقت فلسطینیوں کے مقاصد کو حاصل نہیں کر سکے گی۔ جب آپ کا دشمن زیادہ طاقتور ہو تو اس سے اس کی سرزمین پر نہ لڑیں بلکہ اس سے لڑنے کا کوئی دوسرا راستہ تلاش کریں۔

اشقرنے استدلال کیا کہ وہ کوئی ایسی چیز تجویز نہیں کر رہے ہیں جس سے آزادی کا فلسطینی راستہ ناواقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ”فلسطینی اثرات کا سب سے بڑا لمحہ 1988 میں پہلی انتفادہ کے دوران تھا، جب بغاوت کی بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی فلسطینی قیادت کے پاس موجود ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کی ذہانت تھی۔“

”اس وقت اسرائیلیوں کو بری طرح سے جکڑ لیا گیا تھا، اور اس کے بعد انہوں نے اوسلو میں فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ صرف پہلی انتفادہ کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا، جو اس وقت فلسطینی جدوجہد کا عروج تھا۔ آج فلسطینی عسکریت پسندی کے راستے کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس لمحے کی روح کو دوبارہ حاصل کرنے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔“

انکا کہنا تھا کہ ”فلسطینی عوام کی غیر فوجی جدوجہد نے اسرائیلی معاشرے کے اندر ایک کیمپ قائم کیا جو فلسطینی ریاست کا مطالبہ کر رہا تھا۔ دوسری طرف خودکش دھماکوں کے راستے نے شیرون کو اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو فروغ دینے میں مدد دی۔“

”شیرون نے حماس کے خودکش حملوں پر سرفنگ کی اور اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے حماس کو بھی اس راستے میں پھنسایا۔“

انکا کہنا تھا کہ ”آج فلسطینیوں کو اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک نئے انداز اور نئی قیادت کی ضرورت ہے جو’ترقی پسند‘ہو اور تین مقاصد پر کام کرے۔“

”پہلا، اسرائیلی معاشرے کے ایک اچھے حصے کو صیہونیت کے نظریے اور راستے سے الگ کرنے کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ دوسرا،فلسطینی قیادت کے لیے عرب دنیا میں شہری حقوق کی تحریکوں سے رابطہ قائم کرنا ہے۔ تیسرا،اس بین الاقوامی یکجہتی کو وسعت دینا اور مضبوط کرنا ہے جو غزہ پر اسرائیل کی خوفناک جنگ کی وجہ سے عروج پر ہے۔

لبنان

اشقر کے مطابق لبنان کے بارے میں مزاحمت کے مستقبل کا سوال بہت زیادہ تہہ دار ہے۔ یہ سوال نصراللہ کے قتل کے بعد اور بھی دباؤ میں آ گیا ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ نصراللہ اور ان کے سیاسی اور فوجی انتخاب کوسیاہ یا سفید میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جہاں کچھ لوگ نصراللہ کو وہ شخص سمجھتے ہیں جس نے دمشق میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کر کے شامی عوام پر ظلم و ستم کو ہوا دی تھی، وہیں کچھ لوگ انہیں ’سید الموکواما‘(مزاحمت کا سربراہ) کے طور پر دیکھتے ہیں،جو مسلسل تین دہائیوں تک اسرائیل کا بدترین خواب تھا۔

اس عرصے کے دوران انہوں نے اسرائیلی فوج پر شکستیں مسلط کیں، جس میں 2000 میں لبنان کے جنوب سے انخلا کرنا بھی شامل ہے،جس پر اس نے 1982 کے حملے کے بعد سے قبضہ کر لیا تھا، جو اس وقت اسرائیلی فوج کے سربراہ کے طور پر شیرون کے ذریعے کیا گیا تھا۔

اشقر کے مطابق ”نصراللہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف کردار تھے۔“

اشقر کے مطابق ”لبنان میں اپنے اڈے تک، علاقے میں اپنے اتحادیوں کے لیے، اور بہت سے شیعہ کے لیے، وہ یقینا مزاحمت کے سربراہ تھے۔ اگر نصراللہ کے اسرائیلی قتل کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تباہی اور نقصان کا احساس صرف ان لوگوں تک محدود نہیں تھا جو نصر اللہ کی بنیاد یا ان کے نظریے کی حمایت کرتے تھے۔“

انہوں نے کہا کہ ”لبنان میں بہت سے لوگ نصراللہ کے بارے میں سوچتے ہیں اور انہیں ایک مضبوط رہنما کے طور پر سوچتے رہیں گے جس نے اسرائیل کو انخلاء پر مجبور کیا اور جس نے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت کی۔“

”تاہم آج نصر اللہ کے بارے میں ان کے جنوبی لبنان سے اسرائیلی انخلاء میں کردار کو منہا کیے بغیر اس حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچنا مشکل ہے کہ وہ شام میں ملوث ہوئے تو وہ اور حزب اللہ ایرانی پراکسی سمجھے جاتے تھے۔“

آخری تجزیے میں نصراللہ کی غالب تصویر اس شخص کی ہے جس نے جنوبی لبنان سے اسرائیلیوں کو انخلاء پر مجبور کیا، 2006 میں اسرائیلی حملے کے خلاف مزاحمت کی اور جس نے گزشتہ ایک سال کے دوران بڑی تعداد میں لبنان کے شمال میں اسرائیلی سرحدی علاقوں سے غزہ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر اسرائیلیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔

اشقر کا کہنا تھا کہ ”یہی وجہ ہے کہ ان کا قتل اسرائیل کے لیے ایک بڑی فتح ہے، اور یہی وجہ ہے کہ میرے سمیت بہت سے لبنانی، جو واضح طور پر بائیں جانب کھڑے ہیں اور جو حزب اللہ کے زیادہ تر نظریے سے متفق نہیں ہیں، ان کے قتل کو واقعی افسوسناک قرار دیتے ہیں۔ “

انہوں نے مزید کہا کہ نصر اللہ کے بارے میں سوچے بغیر حزب اللہ کے بارے میں سوچنا مشکل ہے،جیسا کہ وہ اب سیاسی یا عسکری لحاظ سے بن چکی ہے۔ تقریباً 30 سال اقتدار میں رہنے کے بعدنصراللہ ہی تھے جنہوں نے حزب اللہ ایسا بنایا جو آج وہ ہے۔ وہ نسبتی لحاظ سے حزب اللہ کے بہترین ممکنہ رہنما تھے۔ اس لیے کہ جب وہ لڑنے کے لیے تیار تھے تو  ان کے پاس جان بچانے کے لیے ذہانت اور حساسیت تھی،خاص طور پر عام شہریوں کی۔

اشقر اس مشہور انٹرویو کو یاد کرتے ہیں جو نصر اللہ نے جولائی 2006 میں لبنان کے خلاف اسرائیلی جنگ کے بعد دیا تھا۔ وہ انٹرویو حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کے اغوا ء کے بعد سامنے آیا تھا۔ نصر اللہ کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اسرائیل کی طرف سے لبنان کو پہنچنے والے بڑے نقصان کا اندازہ ہوتا تو ان کا حساب مختلف ہوتا۔

اگست 2006 میں جنگ کے خاتمے کے چند ہفتے بعد نصراللہ نے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اسرائیل لبنان کو اتنا بڑا نقصان پہنچائے گا، تو وہ حزب اللہ کے جنگجوؤں کو اسرائیل کے شمال میں خفیہ کراسنگ میں ایک آپریشن کے دوران دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے کا حکم نہ دیتے۔

اشقر کے مطابق یہ بیان لبنانی عوام کے لیے ایک پیغام تھا،اور نصر اللہ کے پاس انہیں ایسا بنانے کا حوصلہ اور ضمیر تھا۔

اگرچہ وہ شاید بڑے حکمت عملی ساز نہ تھے، جیسا کہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ تھے، لیکن نصر اللہ نے اپنے برسوں کے دوران اسرائیلی شہریوں کو اغوا یا نقصان پہنچانے سے گریز کیا کیونکہ وہ لبنانی شہریوں کو اسرائیل کے ہاتھوں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ ان کی مقبولیت کا ایک حصہ تھا۔۔۔اور یہی وجہ ہے کہ ان کی موت نہ صرف حزب اللہ کے لیے بلکہ ملک کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔“

اشقر نے کہا کہ ”اسی طرح کے محتاط سیاسی تاثرات شاید حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے ساتھ شیئر کیے گئے تھے اور یہی ایک وجہ تھی کہ نیتن یاہو نے ان دونوں رہنماؤں کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔“

نیتن یاہو نہیں چاہتے تھے کہ مزاحمتی قائدین سیاسی سمجھداری اور ہمت اور وزن کے ساتھ سیاسی تصفیے کو آگے بڑھا سکیں۔

اشقر کا ماننا ہے کہ ”نیتن یاہو شیرون کی طرح ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی شخص سیاسی طور پر شامل نہیں ہونا چاہتا اور نہ ہی چاہتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو کسی بھی معاملے پر سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کی اہلیت یا ارادے کے حامل رہنما نہیں بنناچاہتے۔ ہنیہ کی جگہ یحییٰ سنوار، جو عملی سیاسی سمجھوتوں پر غور کرنے کے لیے اپنے پیشرو کے مقابلے میں بہت کم مائل ہیں، شاید نیتن یاہو کی حماس کے خلاف جاری جنگ کے لیے مفید ہیں۔“

نصراللہ کے ممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین کے اسرائیلی قتل کے بارے میں قیاس آرائیوں سے پہلے بات کرتے ہوئے اشقر نے دلیل دی کہ نصراللہ کی جگہ حزب اللہ کے سربراہ کے طور پر جو بھی ہو، اسرائیل کے پاس اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے، کیونکہ یہ امکان نہیں ہے کہ کوئی بھی ممکنہ جانشینوں میں سے وہ پیچیدہ پرفارمنس پیش کرنے کے قابل ہوگا جو نصراللہ نے کی تھی، خواہ ان کی خامیاں بھی رہی ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ کوئی اور نصراللہ ہو گا۔جزوی طور پر یہی وجہ ہے کہ لبنانی مزاحمت کو بھی ایسے متبادل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہوگی جو بہت زیادہ سیاسی، ترقی پسند اور جامع ہو اور کم عسکریت پسند اور فرقہ پرستی پر مبنی ہو۔“

اسرائیل

لبنان کے جنوب میں حال ہی میں شروع کی گئی زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی نقصانات کو خارج نہ کرتے ہوئے اشقر نے دلیل دی کہ غزہ پر اس کی سالہا سال سے جاری نسل کشی کی جنگ اور حزب اللہ، حماس کے رہنماؤں اور ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کے قتل کے نتیجے میں نیتن یاہو اب دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ اسرائیلی تکبر کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جسے الاقصیٰ فلڈ آپریشن اور اس سے پہلے 2006کے بعد جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی دوبارہ تعیناتی سے ٹھیس پہنچی تھی۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ ”نیتن یاہو کی نظر میں اسرائیل کا خوف پھر سے قائم ہو گیا ہے۔ یکم اکتوبر کو اسرائیلی اہداف پر ایرانی میزائل حملوں پر اسرائیلی جوابی کارروائی کے بارے میں اب بھی خدشات ہیں۔“

ان کے مطابق ”نیتن یاہو کے لیے ایک اور حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن زیادہ تر حماس اور حزب اللہ کو تباہ کرنے کے لیے چھیڑی جانے والی اسرائیلی جنگوں کے حامی رہے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ جب گزشتہ ایک سال کی جنگ کی ہولناکیوں پر دنیا مشتعل تھی،تو انہوں نے جو کچھ بھی کہا، غزہ پر اسرائیلی جنگ بلاشبہ امریکہ اور اسرائیل کی پہلی مکمل مشترکہ جنگ ہے۔“

انہوں نے دلیل دی کہ ”اس کے نتیجے میں نیتن یاہوڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد امیدوار کملا ہیرس کی نومبر کے انتخابات میں کامیابی صورت میں اس طرح کی امریکی حمایت کے ختم ہونے کا انتظار کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیں گے، جنہیں یقین نہیں ہے کہ سابق ریپبلکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں وائٹ ہاؤس واپسی کی راہ ہموار کرپائیں گے یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ خاص طور پر نیتن یاہو کے ایران کے خلاف منصوبوں کے حوالے سے ہے۔ نیتن یاہو خود کو روکنے کے لیے اس دباؤ کا سامنا نہیں کرنا چاہیں گے جو ہیرس عائد کر سکتی ہیں۔ نیتن یاہو یاد رکھیں گے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما نے نیتن یاہو کے سخت اعتراضات کے باوجودتہران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ترجیح دی تھی۔“

ایک نیا مشرق وسطی؟

اشقر کا خیال ہے کہ ایرانی محاذ پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔آج مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظر نامہ ایسا ہے جہاں تمام رنگوں کی اسلام پسند تحریکوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ان تحریکوں کی پسپائی کے ساتھ ایک سیاسی خلا ہے جسے سیاسی طاقت کی ایک نئی شکل سے پُر کرنے کی ضرورت ہے جو کہ 2019 کے سوڈانی انقلاب کی ’بہت متاثر کن نوجوان سویلین قیادت‘ جیسی ہو سکتی ہے جس نے سابق صدر عمرالبشیر کی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔

انکا کہنا ہے کہ ”یہ کرنا آسان کام نہیں ہے اور ہمارے وہاں پہنچنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔“

دریں اثناء اشقر یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ مشرق وسطیٰ اس انداز میں تبدیل ہو رہا ہے جس طرح نیتن یاہو چاہتے ہیں۔ جہاں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت ہمیشہ کے لیے شکست کھا گئی ہو، یا کم از کم معذور ہو گئی ہو، اور جہاں اسرائیل کی موجودہ صورتحال کے ساتھ چلنا معمول بن چکا ہو، قطع نظر اس کے کہ فلسطینی کاز کے ساتھ کچھ بھی ہو۔

انہوں نے کہا کہ”ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ سعودی خود اب کہہ رہے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کی طرف سنجیدہ اقدام سے پہلے اسرائیل کے ساتھ معمول پر نہیں آئیں گے۔“

اشقر نے کہا کہ ”دوسرے عوامل جو مشرق وسطیٰ کے اس قسم کے ظہور کو روک سکتے ہیں جس کی نیتن یاہو امید کر رہے ہیں، ان میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے خطے میں عوامی حمایت اور بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت بھی شامل ہے جس کے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء تک خاموش ہونے کا امکان نہیں ہے۔“

بشکریہ: الاہرام، ترجمہ: حارث قدیر

Roznama Jeddojehad
+ posts