لاہور(پ ر)پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کل کراچی میں سندھ رواداری مارچ میں حصہ لینے والے سول سوسائٹی کے کارکنوں پر ہونے والے تشدد کی فوری تحقیقات کرے۔ کراچی پولیس نے ایچ آر سی پی سندھ چیپٹر کے وائس چیئرپرسن قاضی خضر حبیب سمیت بیسیوں مظاہرین کو گرفتار کیا اور عورتوں سمیت کئی دیگر افرادکو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔
چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ گرفتار ہونے والوں کو کچھ دیر بعد رہا کر دیا گیا مگرکراچی میں دفعہ 144 کا نفاذ سرے سے تھا ہی غیر ضروری۔ سندھ رواداری مارچ کا مقصد ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر،جنہیں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے بعدازاں ایک پولیس افسر نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، کے لیے انصاف کی آواز بلند کرنے کی خاطر ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنا تھا۔ مارچ نے سندھ بھر سے ترقی پسند قوتوں کو اکٹھا کیا تھا۔ لہٰذا اسے ترقی پسند اور جمہوریت پرست ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کی مکمل حمایت ملنی چاہیے تھی۔ اُلٹا، کئی مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ اُن کے خلاف بھی جو پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے۔ مقدمہ فوری طور پر خارج کیا جائے۔
دوئم، ہو سکتا ہے کہ مارچ کی مخالفت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ٹی ایل پی کے احتجاج سے تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہو مگر ٹی ایل پی کی متشدد تاریخ اور توہینِ مذہب کے معاملے پر اس کے انتہا پسندانہ مؤقف کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہے کہ تصادم کا خطرہ سندھ رواداری مارچ کے مظاہرین پر دھاوا بولنے کا جواز ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ، کراچی پولیس کو تو چاہیے تھا کہ وہ ٹی ایل پی کے تشدد کی صورت میں مارچ کے پرامن مظاہرین کو تحفظ فراہم کرتی۔
اگرچہ، آئین پُرامن اجتماع کے حق کی ضمانت دیتا ہے مگر ریاست نے گذشتہ کئی برسوں کے دوران اس کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔ دفعہ 144 کا من مانا اطلاق جاری ہے، خاص طور پر انسانی حقوق کے معاملات پر پُرامن اجتماعات کے خلاف۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اس حق کی محافظ ہیں اور اس حیثیت سے پرامن اجتماع کی آزادی کی حفاظت و فروغ کی قانوناً پابند ہیں۔