لاہور(جدوجہد رپورٹ)معروف مصنف، دانشور اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر جلبیر اشقر کا کہنا ہے کہ شام میں غیر فرقہ ورانہ حکومت کے قیام کی امیدیں اب دم توڑ چکی ہیں۔ ہیئت تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) کے سربراہ الجولانی نے جو دعوے دمشق پر قبضے سے قبل کیے تھے ان پر خود ہی ادلب میں قائم کی گئی اپنی ’سالویشن حکومت‘ کو عبوری حکومت کا درجہ دے کر خودہی پانی پھیر دیا ہے۔
’لنکس‘ میں شائع ہونے والے تفصیلی مضمون میں انہوں نے لکھا کہ شام میں گزشتہ جمعہ کے بعدحیرت انگیز تاریخی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اسد حکومت کے تحت قید ہونے والے شہری آزاد ہو گئے ہیں، شامی خاندان جلاوطنی سے واپس آرہے ہیں۔شام اور یورپ کے ارد گرد ملکوں میں مقیم لاکھوں شامی پناہ گزینوں کا بھی اپنے وطن واپسی کا خواب پوراہوتا دکھائی دے رہا ہے۔چاہے یہ واپسی محض سیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو، کچھ عرصہ قبل ایسا بھی ممکن نہیں تھا۔
انکا کہنا تھا کہ شامی حکومت پانچ غیر ملکی قابضوں میں سے دو غیر ملکی قابضوں کی بدولت کھڑی تھی۔ ایرانی مداخلت اور کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ایک دہائی قبل اسد خاندان کی حکومت زوال سے بچ پائی تھی۔ بیرونی حمایت ختم ہو جائے تو کٹھ پتلی حکومتیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی کے دوران کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اب شام کی حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یوکرین حملے کی دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے روس نے شام سے اپنی افواج کا انخلاء شروع کر رکھا تھا، جبکہ اسرائیلی حملوں سے لبنانی حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچااور ایران نے بھی محتاط رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ یہ وہ عوامل تھے جو اسد خاندان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنے۔
انکا کہنا تھا کہ افغان اور شامی معاملات میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایچ ٹی ایس طالبان کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ اسد خاندان کی حکومتی فوجیں کسی طاقتور دشمن کے خوف سے نہیں گریں بلکہ اس لیے گریں کہ ان کے پاس حکومت کا دفاع کرنے کا حوصلہ ہی نہیں تھا۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم کی گئی فوج کے پاس اسد خاندان کے کنٹرول کے لیے لڑنے کی کوئی ترغیب نہیں تھی۔ ان کی تنخواہیں بہت کم تھیں اور پچاس فیصد اضافے کی ناکامی کوشش بھی کچھ تبدیل نہیں کر سکی۔ شام کی موجودہ صورتحال طالبان کی فتح کے بعد کے افغانستان سے بہت مختلف ہے۔ ایچ ٹی ایس صرف شام کے کچھ علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے اور کچھ حصے میں اس کا کنٹرول بہت کمزور ہے، خاص طور پر دارالحکومت دمشق کے آس پاس کے علاقوں میں اس کاکنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔
انکا کہنا تھا کہ شام اس وقت متضاد ہی نہیں بلکہ دشمن قوتوں کے زیر قبضہ کئی علاقو ں میں تقسیم ہے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیاں ہیں، جہاں صہیونی ریاست نے بفر زون میں توسیع کے لیے موقع سے فائدہ اٹھایا اور 1981میں شامی حکومت کے زیر کنٹرول دیئے گئے علاقوں پرقبضہ کر لیا۔ ترک قبضے کے تحت شمالی سرحد پر دو علاقے ہیں، جن کے ساتھ سیریئن نیشنل آرمی تعینات ہے۔ شمال مشرق میں دریائے فرات کے مشرق کا علاقہ کرد تحریک کی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ امریکی حمایت یافتہ آزاد افواج دریائے فرات کے جنوب میں ایک بڑے علاقے پر قابض ہیں۔ جنوبی علاقے میں درعا کے علاقے کی وہ افواج قابض ہیں جنہوں نے اسد حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ان افواج میں سے کچھ روسی سرپرستی میں تھیں اور سویدا کے علاقے میں عوامی تحریک سے ابھرنے والی قوتوں نے اکٹھے ہو کر جنوبی آپریشنز روم تشکیل دیا، جو شامی عرب مسلح دھڑا ہے اور عوامی جمہوری تحریک سے سب سے زیادہ قریب سے جڑاہوا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ مستقبل کے حوالے سے دیکھا جائے تو پہلا مشاہدہ یہ ہے کہ ان تمام دھڑوں کے کسی ایک اتھارٹی کے تابع ہونے کا امکان تقریباً صفر ہے۔ کرد تحریک کو ایک طرف رکھ کر عرب دھڑوں تک بھی محدود رہیں تب بھی ایسا ممکن نہیں لگتا۔ ایچ ٹی ایس کے ساتھ دیرینہ تعلقات رکھنے والا ترکی بھی اپنے قبضے اور اپنی کٹھ پتلیوں کو اس وقت تک نہیں چھوڑے گا، جب تک وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتا۔ دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ ایچ ٹی ایس اور احمد الشرع عرف الجولانی کے سلفی جہاد سے غیر فرقہ وارانہ جمہوریت میں تبدیلی کی امید رکھتے تھے، یا اس پر یقین رکھتے تھے، وہ اب سمجھنے لگے ہیں کہ وہ فریب میں مبتلا تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایچ ٹی ایس اپنی ظاہریت کو تبدیل کرنے اور جمہوری اور غیر فرقہ وارانہ مستقبل کے امکانات ظاہر نہ کرتی تو اسد حکومت کی جگہ لینے کے قابل نہ ہوتی۔ اس صورت میں حمص سے دمشق تک مقامی قوتیں اس کی شدید مزاحمت کرتیں۔اب الجولانی نے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ادلب کے علاقے پر حکمرانی کرنے والی اپنی ’سالویشن حکومت‘ کو شام کی نئی حکومت قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام نے ان لوگوں کو مایوس کردیا ہے، جو ان سے مخلوط حکومت کے لیے بلائے جانے کی توقع رکھتے تھے۔ ادلب کے مکینوں نے صرف8ماہ قبل ایچ ٹی ایس کے ظلم کے خلاف احتجاج کیا تھا اور الجولانی کا تختہ الٹنے،جبر کے آلات کو تحلیل کرنے اور قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ظالم حکومت کے زوال کی خوشی میں ہمیں یورپی حکومتوں کی جانب سے شامی پناہ گزینوں کی درخواستوں پر غور کرنے کا عمل روکنے کی جلد بازی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مختلف ملکوں، خاص طور پر لبنان، ترکی اور کچھ یورپی ملکوں، کو شامی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلوں پر غورکرنا چاہیے۔ شام ابھی تک اپنی طویل تاریخی آزمائش سے نہیں نکلا ہے، جو54سال قبل شروع ہوئی تھی اور 13سال سے بہت المناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ تمام ملکوں کو شامی باشندوں کو دیے گئے سیاسی پناہ کے حق کا احترام کرتے رہنا چاہیے۔