لاہور (جدوجہد رپورٹ) گورنرپنجاب چوہدری سرور نے محکمہ ہائیر ایجوکیشن، آفیشل ایکریڈیشن کمیٹی اور محکمہ قانون کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاک پتن میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے ’سب کیمپس‘ کی اصولی منظوری دے دی ہے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق 10 جنوری 2020ء کو محکمہ ہائیر ایجوکیشن (ایچ ای ڈی) نے 6 نجی یونیورسٹیوں کے 23 سب کیمپس غیر قانونی قرار دے دیئے تھے اور داخلہ لینے والے طلبہ کو اپنی ڈگری مکمل کرنے کیلئے مرکزی کیمپس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ جامعات کے غیر قانونی سب کیمپس کا یہ معاملہ طویل عرصے سے جاری ہے۔
قبل ازیں 23 دسمبر 2019ء کو چانسلر نے گجرات، پاک پتن اور اسلام آباد میں قائم غیر قانونی سب کیمپسوں کی وجہ سے یونیورسٹی آف لاہور کے معاملات کی جانچ پڑتال اور انکوائری کا حکم دیا تھا۔ محکمہ ہائیر ایجوکیشن نے یونیورسٹی آف لاہور کے ٹرسٹ ڈیڈ میں بیان کردہ مقاصد اور اہداف کے تحت ہی کام کرنے اور ٹرسٹ کا فرانزک آڈٹ کرانے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ نجی جامعات نے 23 سب کیمپسوں کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کے اقدام کی مخالفت کی تو حکومت نے فرانزک آڈٹ کروانے کے ٹی او آرز کے تحت ان سب کیمپسوں کا دوبارہ معائنہ کرنے کیلئے 6رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
فرانزک آڈٹ کو مسترد کرتے ہوئے نجی جامعات نے ایک ایسوسی ایشن تشکیل دی اور جانسلر کے ساتھ ملاقات کی، جس کے بعد 6 ممبران پر مشتمل کمیٹی کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور 11 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔
کمیٹی کو ہجویری یونیورسٹی، قرشی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس، یونیورسٹی آف لاہور اور سپیریئر کالج کے معیارات اور رہنما خطوط کی روشنی میں سب کیمپس کا معائنہ کرنے کا پابند کیا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹرمحمد علی شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی کمیٹی نے پاک پتن میں یونیورسٹی آف لاہور کے سب کیمپس کی منظوری دینے کی سفارش کی لیکن کسی بھی دعوے یا معلومات کی فراہمی کیلئے کوئی دستاویز منسلک نہیں کی گئی۔ کمیٹی نے دیگر 5 جامعات کے سب کیمپس زمین نہ خریدنے اور فیکلٹی کی کمی کی وجہ سے غیر قانونی قرار دے دیئے۔ تاہم یونیورسٹی آف لاہور کے پاک پتن سب کیمپس کے معاملے میں کمیٹی نے الگ سلوک کیا۔ یہ کیمپس لیز پر دیا گیا ہے اور اس کی فیکلٹی بھی مکمل نہیں تھی، گجرات سب کیمپس کا معاملہ اسی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔