فاروق طارق
یہ نعرے لگاتی نوجوان نسل‘یہ نعرے جو اب لاکھوں افراد سن چکے ہیں، شیئر کر چکے ہیں، تبصرہ کر چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ، بی بی سی، انڈین ایکسپریس اور جنگ ان نعروں کو لگانے والی نوجوان انقلابی عروج اور انکے ساتھیوں کے خیالات پر مبنی مضامین اور انٹرویو شائع اور نشر کر چکے ہیں۔
فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کا ذکر ان انقلابی نوجوانوں کے پرجوش نعروں سے کیا جا رہاہے۔ اس فیسٹیول نے انقلابی نظریات اور نعروں کو لاکھوں تک لے جانے میں مدد کی۔
یہ نعرے تو کب سے لگ رہے تھے، چار سال سے تو ہم یہ نعرے ان نوجوانوں کے ساتھ مل کر لگا بھی رہے ہیں اور ان سے سن بھی رہے ہیں۔ مگر وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ کبھی آپ کی بات کوئی بھی نہیں سنتا اور کبھی یہی بات لاکھوں لوگ سنتے بھی ہیں اور اس سے متفق بھی ہو تے ہیں۔ وقت بدلتے وقت نہیں لگتا۔ مگر آپ کو اس وقت کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔
ان طلبہ اور نوجوانوں کو کہا جاتا تھا کہ نعرے لگانے سے کیا ہوتا ہے، انہیں بائیں بازو کے بعض ناقدین طنز کا نشانہ بھی بناتے تھے۔ لیکن آج انہوں نے اپنے نعروں سے انہیں غلط ثابت کیا ہے۔
مگر نعرے اور نئی طرز اور نئے جوش عوام کی سوئی ہوئی رگوں کو جگاتے ہیں۔ ماضی کی انقلابی روایات کو یاد کراتے ہیں۔ لوگوں کو متحرک کرتے ہیں۔ جو بات گھنٹوں کی تقریروں میں لوگوں کو سمجھ آنے میں مشکل پیش آتی ہے وہ انقلابی نعروں سے ان کی سمجھ کے زنگ زدہ کونوں کو صاف کر دیتی ہے۔
انقلابی نعرے فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی انقلابی شاعری کا تسلسل ہیں۔ یہ ایک انقلابی نظم جو بھگت سنگھ کے ساتھی جیل سے عدالت جاتے وقت گاتے تھے اسے آج 90 سال بعد آج کے بھگت سنگھ لگا رہے ہیں۔
ان نعروں نے جس شدت سے 29 نومبر کے”طلبہ اور مزدور یکجہتی مارچ“ کے پیغام کو پھیلایا ہے وہ لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی نہیں کیاجا سکتا تھا۔ یہ مارچ لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں تعلیمی نجکاری، ہوش ربا تعلیمی اخراجات اور سرکاری تعلیمی کٹوٹیوں کے خلاف نکالے جا رہے ہیں۔ لاہور میں بھٹہ اور دیگر مزدور بھی اس مارچ میں اپنے مطالبات کے ساتھ جو کم از کم تنخواہ کی ادائیگی کے ارد گرد ہیں، اس مارچ میں شریک ہو رہے ہیں۔
آئیں آپ بھی نوجوانوں کے ساتھ شریک ہو ں اور 29 مارچ کو لاہور میں ناصر باغ سے چیئرنگ کراس تک جمعہ کے فوری بعد اپنے حق کے لئے نکلیں۔