علی عبداللہ رانجھا
ہر جمہوری ریاست اپنے آئین کے ذریعے لوگوں کو انکے بنیادی حقوق مہیا کرتی ہے۔ ان حقوق کی بالادستی کیلئے دونوں‘ریاست اور عوام کچھ ادارے قائم کرتے ہیں۔ ریاست کے قائم کیے گئے ادارے ریاستی ادارے کہلاتے ہیں۔ پارلیمنٹ، عدالتیں اور سیکیورٹی فورسسز ایسے ہی ادارے ہیں۔ عوام کے بنائے ہوئے ایسے ادارے غیر سرکاری، عوامی یا غیر ریاستی کہلاتے ہیں۔ ان دونوں کا بنیادی کام آئینی حقوق کی حفاظت کرنا ہوتاہے۔ دونوں چیک اینڈ بیلنس کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ایک کی غیر موجودگی میں دوسرا اپنے قانونی دائرے سے نکل کر پہلے کی جگہ بھی لے لیتا ہے۔
سٹوڈنٹس یونین بھی ایک ایسا ہی عوامی ادارہ ہے جو ایک یا مختلف تعلیمی اداروں کے طالبعلم اپنے آئینی حقوق کی حفاظت اور اپنے تعلیمی مسائل کے حل کیلئے وجود میں لاتے ہیں۔ اس یونین کے ذریعے سے طالبعلموں کے پاس ایک طاقت ہوتی ہے جس کے بل بوتے پر وہ اپنے تمام مسائل حل کروا لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ یونین طالبعلموں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر علاقائی، نسلی، زبانی، جنسی، مذہبی، معاشرتی اور سماجی دوریاں ختم کرتی ہے اور معاشرے میں ایک ہم آہنگی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ مختلف فکر کے لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں مدد کرتی ہے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے الٹی گنگا بہتی ہے۔ معاشرے کو ایک ترقی پسند راہ پر گامزن کرنے والی سٹوڈنٹس یونین 35 سالوں سے ریاستی پابندی کا شکار ہے۔ اس ظلم کا سہرا ضیاالحق کو جاتا ہے جس نے 9 فروری 1984ء کو اس کو غیر قانونی قرار دے کر طلبہ کو اپنے حقوق مانگنے سے محروم کر دیا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ریاست اور تعلیمی ادارے چیک اینڈ بیلنس کے اصول سے آزاد ہو گئے اور وہ ا پنے قانونی حدودسے باہرنکل کر من مانی کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہ اتنے سخت ہو گئے کہ ہر وہ طالبعلم جو اپنا چھیناہوا حق یعنی سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کی بات کرتا تو اسے ڈسپلن کمیٹی کے سامنے پیش کر کے ڈرایا جاتا اور حق سے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا۔ کبھی کبھار تو طالبعلم کو تھانے کی ہوا بھی کھانی پڑتی ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سٹوڈنٹس یونین کی غیر موجودگی میں ملک بھر کے طالبعلموں کے تعلیمی مسائل کون حل کر رہا ہے اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟ جب سے طالبعلموں کو اپنے حقوق کی حفاظت سے روک دیاگیا ہے تو ریاست نے یہ ذمہ داری نبھانے کی ناکام کوشس کی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ 1947ء سے لے کر 1984ء تک جس ریاست سے طلبہ نے اپنے حقوق زبردستی اور بہت مشکل سے لیے اسی ریاست نے اب ان کابیڑا اٹھا لیاہے۔ اگر ہم اس تمام عرصے کا مطالعہ کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ریاست نے طلبہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں بڑی حد تک اضافہ کیا ہے اور آئینی حقوق کی حفاظت کی بجائے ان کو سلب کیا ہے۔ ابھی پچھلے ہی مہینے آئی ایم ایف کے کہنے پر اعلیٰ تعلیم کے قلیل بجٹ سے کٹوتی کر کے اسے مزید مختصر کر دیا گیا ہے۔ نئے تعلیمی ادارے بنانے کی بجائے موجودہ اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ طلبہ کو مستقل نوکری دینے کی بجائے آٹھ ماہ کے عارضی کنٹریکٹ پر ہی بہلایا جا رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اس معاملے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ریاست کے بعد تعلیمی ادارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سٹوڈنٹس یونین کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ طالبعلموں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن یہ تعلیمی ادارے اور انکی انتظامیہ طلبا و طالبات کے حقوق کو پورا کرنے کی بجائے اپنے پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں۔ اس نومبر میں ہی نیب کی انکوائری نے یہ ثابت کیا ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں 7 ملین ڈالر کی سکالرشپس کے نام پر کرپشن کی گئی ہے۔ ہمیں ایسے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں جس میں سٹوڈنٹس پر خرچ کے نام پر ادارے اپنے بینک اکاؤنٹس کے ہندسوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ بنیادی سہولیات کا فقدان، پسندیدہ بندوں کو کیفے کے ٹھیکے، جنسی ہراسانی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر برتاؤ اور احتجاج کرنے کی صورت میں ادارے سے نکال دینا ایسے مسائل ہیں جو تقریباً ہر ادارے میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ریاست اور تعلیمی ادارے نہ صرف طالبعلموں کے حقوق کو غصب کر رہے ہیں بلکہ وہ اس صورتحال کو جاری رکھنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
پروفیسر عزیز الدین احمد نے اپنی کتاب ”پاکستان میں طلبہ تحریک“ میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ تاریخ کے آگے کے سفر کو وقتی طور پر روکا جا سکتا ہے مگر مستقل نہیں کیونکہ اس روکاوٹ کی قیمت معاشرے کوبھی ادا کرناپڑتی ہے اور وہ اتنی زیادہ ہے کہ معاشرہ دیر تک اس کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ ان 35 سالوں کے لمبے عرصے کے بعد تاریخ کا یہ سفر دوبارہ سے آگے چل پڑا ہے۔ طالبعلموں نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے دوبارہ سے آواز اٹھانی شروع کر دی ہے۔ ریاست کے دباؤ کے باوجود سٹوڈنٹس یونین کو بحال کرنے کی آوازیں بلند ہو رہیں ہیں۔ ان نئی ابھرنے والی آوازوں میں سے ایک آواز ”طلبہ یکجہتی مارچ“ ہے جو 29 نومبر کوملک کے مختلف شہروں میں نکالا جا رہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کو دیکھ کر یہ کہاجا سکتا ہے کہ اندھیرے کو دور کرنے کیلئے چراغ روشن ہونے لگے ہیں اور تاریخ دوبارہ سے لکھی جانے لگی ہے۔