قیصر عباس
بیس سالوں بعدمیں پھر وہیں کھڑی ہوں
اپنے شہر میں، جہاں میں نے جنم لیا تھا
عورت اورارتقا کے موضوع پر اسی سیمینارمیں
اسی حرافہ کے کردار میں جو میں نے پہلے بھی ادا کیاتھا!
لاہور کچھ زیادہ نہیں بدلا
وہی جانے پہچانے چہرے ہیں ہال میں
جو سفید بالوں کے ساتھ کچھ بوڑھے ہوچکے ہیں
انسانی حقوق، اپنے حقوق، بیٹیوں کے حقوق
غریبوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق
کے لئے چیخ رہے ہیں!
فوزیہ افضل خان کی ایک انگریزی نظم کا یہ بندتاریخ کے اس باب کی یاد دلاتاہے جو پاکستان میں کئی بار دہرایا جاچکا ہے اور ان حقیقتوں کا مظہر بھی ہے جو وہیں موجودہیں جہاں پہلے تھیں۔ فوزیہ، بقول شاعر، شاید وہ ہنس ہیں جو سوکھے تالاب کے کنارے اس امید پر بیٹھے رہتے ہیں کہ شاید وہ پھر بھر جائے گا!
فوزیہ کاتعلق تو لاہور سے ہے مگر وہ آج کل امریکہ کی مونٹ کلیریونیورسٹی میں انگریزی ادبیات پڑھا رہی ہیں اور شعبہ نسائی حقوق کی ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں۔ نوآبادیات اور پس ِنوآبادیا ت کا ادب، نسائی حقوق، تیسری دنیا کا ادب، ثقافت اور ادائیگی کافن ان سب موضوعات پر تدریس و تحقیق میں مصروف ہیں اور پانچ کتابوں کی مصنف بھی ہیں۔ لیکن وہ صرف ایک پروفیسر نہیں ہیں، ان کی ذات گوناگوں صلاحیتوں کا مجموعہ ہے۔ وہ ایک شاعرہ ہیں، اداکارہ ہیں، گلوکارہ ہیں، مصنفہ ہیں اور محقق بھی ہیں۔ وہ اپنا تعارف کچھ اس طرح کراتی ہیں:
”میرے والد کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اور ہمارا شجرہ نسب مشہور صوفی شاعر بابا غلام فرید سے جا ملتاہے۔ اس لحاظ سے ہمار ا خانوادہ امن پسند صوفی روحانیت کا پیروکار رہا ہے جس میں کٹر مذہبی رو یوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔“
اس خصوصی انٹرویومیں فوزیہ ادب سے لے کر سیاست اور برصغیر میں سامراجیت کے اثرات، سب پر بے لاگ تبصرہ کررہی ہیں۔
آپ کی سرگزشت ”Lahore With Love “سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی پرورش ایک ایسے سماج میں ہوئی جہاں تیزی سے سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ سماجی طورپرمرد اور عورت کے الگ الگ خانے تھے جس میں عورت کو مردوں کے مقابلے میں کم تر درجہ حاصل تھا جو اب بھی ہے۔ اس گُھٹے ہوئے ماحول کے باوجود آپ ایک ترقی پسند مصنفہ، شاعرہ، تحریک نسواں کی علم بردارا ور امریکہ میں انگریزی ادب کی پروفیسر ہیں۔ آپ کے لئے یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
میرے والدین ترقی پسند نظریات کے حامل تھے جنہوں نے میرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں میری ہر قدم پر اعانت کی۔ میری والدہ میرے لئے ایک مثبت رول ماڈل تھیں جو اسلامیہ کالج کوپر روڈ، لاہور کی پروفیسر رہیں اور بعد میں پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ انہوں نے متوسط گھرانے کی سینکڑوں طالبات کواسی روشن خیالی اور پرامن طرز زندگی کے مثبت رویوں کی تربیت دی۔ یہی نظریات تھے جن کے تحت میری تعلیم وتربیت ہوئی۔ مجھے بزرگوں نے ہمیشہ سے سمجھایا کہ معاشی ناانصافیاں ہی سماجی تفریق اور سیاسی چپقلش کی بنیاد ہیں اور ہر انسان قابل عزت ہے۔ ان ہی رویوں نے میری تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددکی اور مجھے صنفی اور طبقاتی شعور کا ادراک دیا۔ میرے والدین کی اسی تربیت نے مجھے تاریخ اور اس کے نظریوں کوسمجھنے کی صلاحیت بھی دی۔
نسائی حقوق کی رجعت پسندتحریکیں پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں جو عورتوں کے حقوق کی مذہبی حوالے سے بات کررہی ہیں۔ آپ انہیں ترقی پسند نسائی تحریکوں سے کس طرح مختلف سمجھتی ہیں؟
یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ اس کا تعلق بین الاقوامی تحریکوں اور تحریکِ نسواں کی تھیوری میں رجعت پسندی کے رجحانات سے ہے۔ میرے خیال میں ہم نسائی حقوق کے رجعت پسند نظریوں کو تحریک نسواں کے زمرے میں شامل نہیں کرسکتے ہاں اسے عورتوں کو بااختیار بنانے کی کوششوں کا حصہ ضرور کہہ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے میں پاکستان میں جماعت اسلامی سے متعلق مذہبی دائیں بازو کے صنفی نظریات کو تحریک نسواں کا حصہ نہیں سمجھتی۔ امریتا باسو نے بھی کہاہے کہ صنفی حقوق کی سب ہی کوششیں تحریک نسواں کا حصہ نہیں ہیں۔
ان رجعت پسندتحریکوں کی کچھ حمایتی مغربی درسگاہوں کی دانشور بھی ہیں خاص طورپر صبا محمود جنہوں نے مسلم عورتوں پر تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ اسے لبرل، سیکولراور ہومنیسٹ تحریکوں کے لئے ایک چیلنج اور مغربی دنیا میں تحریک نسواں کا سب سے مقبول حصہ سمجھتی ہیں۔ لیکن مغرب میں لبرل اور سیکو لر نسوانی تحریکو ں کوسوشلسٹ، مارکسی اور اقلیتی خواتین محققین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان کی سیکولر محقق اور وومن ایکشن فورم کراچی سے منسلک عافیہ شہربانو ضیانے بھی مذہبی تحریک نسواں پر، جن کے سیاسی مفادات ہیں اورجن کا مقصد شریعہ اور اسلامی قوانین کی آڑ میں اقلیتوں اور پسماندہ خواتین کو کنارے لگانا ہے، پر کڑی تنقید کی ہے۔ لیکن بائیں بازو کے کچھ حلقوں نے ان کی نئی کتاب پر ان بنیادوں پر تنقید کی ہے کہ وہ لبرل اور ہیومنسٹ نظریات کو فروغ دیتی ہیں اور پوری طرح مارکسی نقطہ نظرسے اتفاق نہیں کرتیں۔ اس پوری بحث کا ایک عجیب وغریب اور متضاد پہلو یہ ہے کہ کچھ مارکسی اور اسلامی دونوں حلقوں کی جانب سے لبرل اور ترقی پسند نسوانی تحریکوں پر تنقید کی جارہی ہے!
گزشتہ ستر سالوں میں برصغیر میں معیاری انگریزی ادب تخلیق کیا گیاہے جسے عالمی سطح پربھی تسلیم کیاجاتاہے۔ کیا ہمارا ا نگریزی ادب آج اس مقام پر ہے کہ اسے ”بر صغیر کے انگریزی ادب“ کی حیثیت سے ایک الگ پہچان دی جاسکتی ہے؟ اگر یہ درست ہے تو یہ کس طرح دوسرے علاقائی ادب سے مختلف ہے؟
یہ ایک بہت دلچسپ سوال ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیااور سری لنکا کے انگریزی مصنفین نے عالمی منظرنامے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ادبی ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ پاکستانی مصنفین محسن حامداور کاملہ شمسی کو بُکر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا اور انڈیا کی اروندھتی رائے نے یہ ایوارڈ حاصل بھی کیا۔ ادھر دو پاکستانی نژاد امریکی دانیال معین الدین کو افسانوی ادب اور ایاز اختر کو ڈرامائی ادب میں پولٹزرپرائز دیے گئے۔ جنوب ایشیا ئی انگریزی ادب نے علاقے کی سیاسی اور سماجی تصویر کشی اس کے آمرانہ نظام اورانتظامیہ کی مالی بدعنوانیوں اور مذہبی تصادم کے ذریعے کی ہے۔ سلمان رشدی نے جادوئی حقیقت پسندی کے ذریعے، جس کی ابتدا لاطینی امریکہ سے ہوئی تھی، اپنے ناولوں میں برصغیر کے بٹوارے اوربعد کے گمبھیرمسائل کی نشاندہی کی ہے۔
میرے خیال میں برصغیر کے انگریزی ادب کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے اب جنوب ایشیائی ادب کی ایک الگ صنف کا درجہ حاصل ہے جس طرح افریقہ کے انگریزی ادب میں نوآبادیات اور بعد کے مسائل پر قابل قدرنگارشات شامل ہیں۔
پسِ نو آبادیات کے مسائل پر انگریزی ادب کو ”Postcolonial“ ادب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیرمیں آزادی کے بعد بھی بیشترادارے پرانے نو آبادیاتی نظام ہی کے تحت کام کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں ہم ان تحریروں کو ”Postcolonial“ ادب کہہ سکتے ہیں؟
پسِ نو آبادیات کی ایک اہم دانشور ایلا شوہات نے اپنے ایک لازوال مقالے میں اورپھر کپلانا سیشدری اور میں نے اپنی ایک کتاب میں لکھاہے کہ نو آبادیاتی نظام، اس سے پہلے ا ور بعد کے ادوار میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بعد از نو آبادیات کا تعلق صرف ”بعد“ کے مسائل تک محدود نہیں ہے۔
کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ پوسٹ کلونیل یا پسِ نو آبادیات انگریزی ادب کی علمی افادیت اب کم ہوگئی ہے اور اس کی پہچان اعلیٰ تعلیمی اداروں سے باہر اب بہت کم رہ گئی ہے۔ آپ کے تاثرات؟
جی نہیں۔ دراصل اس تھیوری نے ان رجحانات کو مزید فروغ دیا ہے جن سے آغازمیں سامراجیت کے خاتمے کو مہمیز ملی تھی آج جب ہم دنیا میں دائیں بازو کی حکومتوں کو سامراجی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور جہاں نیو لبرل سرمایہ داری پھر عروج پرہے لیکن ساتھ ہی سا تھ سوشلزم کی نئی مزاحمتی تحریکیں بھی جنم لے رہی ہیں، اس تھیوری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے جو آنے والے کل میں آزادی کی نوید دے سکتی ہے۔
آزادی کے بعد مختلف وجوہات کی بناپرہندوستان میں جمہوریت مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے جہاں سول حکومت دفاعی اداروں سے زیادہ طاقتو ر نظر آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں سیاسی حکومتیں ابھی تک لشکرشاہی کے زیرِ تسلط کام کررہی ہیں۔ اس کے باوجود آج دونوں ملکوں میں مذہبی رجعت پسندی، اقلیتوں کے خلاف تشدد اور شدت پسند رجحانات عروج پر ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجوہات ہیں؟
میرے خیال میں دونوں ملک نوآبادیاتی نظام کے اثرات سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ برطانوی سامراج کے لئے ”لڑا ؤ اور حکومت کرو“ کی پالیسی کا اہم ہتھیار مذہبی تفریق تھی جس نے آگے چل کر بٹوارے کی بنیاد رکھی۔ اب یہی پالیسیاں دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے سر جھکانے میں استعمال ہورہی ہیں۔ آج کے حالات میں ہندو بھارت اور مسلم پاکستان 1947ء کے بٹوار ے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
آج کل جوکچھ کشمیر میں ہورہا ہے وہ بھی سامراجیت کے ہینگ اوور ہی کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان میں سیکولر جمہوریت اب ایک ڈھونگ نظر آتی ہے جو ماضی کی غلطیوں ہی کو منظر عام پر لے آئی ہے۔ اس صورت حال میں پوسٹ کلونیل تھیوری ہی حالات کے تجزیے کا ایک موثر طریقہ کار فراہم کرسکتی ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔