پاکستان

پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ و تناظر

لال خان

طلبہ کسی بھی معاشرے کا کوئی مخصوص طبقہ یا مستقل سماجی پرت نہیں ہوتے۔ یہ مختلف طبقات سے آتے ہیں اور ان کی زندگی کا یہ عہد جب نوجوانی سے جوانی میں داخل ہورہا ہوتا ہے شاید ان کی عمر کا سب سے خوشگوار اور نسبتاً کم سماجی ومعاشی بوجھوں کا وقت ہوتا ہے۔ گو سماج کی محنت کش پرتوں سے آنے والی طلبہ کی اکثریت اس دور میں بھی معاشی پریشانیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔ لیکن اسی دور میں آنے والی زندگی اور مستقبل کے کردار‘پیشے اور نظریات پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن جوانی کی توانائیاں اور تازگی ایسے جذبوں اور ولولوں سے بھی سرشار ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر غیر معمولی ارادے اور کردار جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتاً آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوامل کی غمازی کرتے ہیں۔

برصغیر جنوب ایشیا میں پچھلی صدی میں چلنے والی جدوجہد آزادی میں بھی طلبہ نے ایک اہم ہراول کردارادا کیا تھا۔ اس تحریک کی شدت اور وسعت سب سے پہلے 1919ء میں ابھری جس کے پیچھے امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں بڑے پیمانے کا جنرل ڈائر کا قتل عام تھا۔ اس تحریک میں مزید شدت اس وقت آئی جب لاہور میں جلوس پر برطانوی سامراجیوں کے لاٹھی چارج میں زخمی ہونے والے لالہ لجپت رائے کا 17 نومبر 1928ء کو انتقال ہوا۔ اس سے مشتعل ہو کر طلبہ کا ایک بڑاحصہ سامراج کے خلاف بغاوت کا حصہ بنا۔ طلبہ اور نوجوانوں کی اس تحریک نے جلد ہی مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور یہ جس تنظیم میں زیادہ متحرک ہوئے وہ ’’HSRA‘‘ (ہندوستان سوشلسٹ انقلابی فوج) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ان میں قیادت کا کردار بھگت سنگھ‘ سکھ دیو‘ بی کے دت‘ راج گرو اور دوسرے کالج کے طالب علموں کا تھا۔

اس دور میں بڑی انقلابی بغاوت کی پارٹی غدر پارٹی تھی۔ 8 اپریل 1929ء کو لاہور میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس جان پائینز سونڈرز (John Poyants Saunders) کو گولی مار کر ہلا ک کیا گیا۔ اس دوران بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور ان پر مقدمہ قتل شروع ہوا۔

1927ء سے 1929ء کا دور پھر پورے برصغیر میں ایک انقلابی ابھار کا دور تھا۔ اس لیے اس مقدمے کے دوران بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے عدالت میں دیئے گئے بیانات اور دلائل جو بہت ہی ریڈیکل اور انقلابی تھے‘ سے تحریک کو مزید شکتی اورجرات ملی جس سے انگریز سامراج گھبرا گیا۔ ا ن کو یہ محسوس ہونے لگا تھاکہ براہِ راست سامراجی اور ریاستی جبر سے تحریک رکے گی نہیں اس لیے انہوں نے ہندوستان کے مقامی بالادست طبقات کے لیڈروں کو ابھار ا‘ ان کو استعمال کیا اور ان سے معاہدے کرکے تحریک کو مندمل کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران بھگت سنگھ ‘ جیل میں مارکسز م سٹڈ ی سرکلز اور اپنی عملی جدوجہد کے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مسلح جدوجہد کی بجائے ان کو محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ایک انقلاب کا راستہ اختیار کرنا تھا۔ بھگت سنگھ نے یہاں تک کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر کوئی آزادی نہیں ہوتی۔ ا گر برطانوی سامراج چلا بھی جائے تو ہم ایسی آزادی کو نہیں مانیں گے جس میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کوسوشلزم کے ذریعے اکھاڑ پھینکا نہ گیا ہو۔ اس ریڈیکلائزیشن کو روکنے کے لیے 5 مارچ1931ء کو گاندھی اور برطانوی وائسرائے لارڈ ارون (Irwin) کے درمیان ایک سمجھوتا ہوا اور 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو لاہور سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ہندوستان اور پاکستان میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں موجودہ حکومتوں اور پارٹیوں کو ہی جدوجہد آزادی کی تحریک پر غالب گردانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1943ء تک تحریک میں کمیونسٹ پارٹی کا بہت بڑا اثر تھا اور اسکی حمایت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ یہاں تک کہ کانگریس کے اندر بائیں بازو کی اکثریت بن رہی تھی۔ 1939ء کے کراچی کے اجلاس میں کانگریس کی صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کے رجحان کے امیدوار ڈاکٹرسبھاش چندر بوس نے مہاتما گاندھی کو شکست دے دی تھی۔ اس سارے عرصے میں طلبہ تحریک میں بائیں بازو کے رجحانات حاوی تھے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کی جدوجہد پر حاوی ہونے کی جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اس جدوجہدِ آزادی میں بائیں بازو کے رجحانات کے کردار سے بعد کی نسلوں کو بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہے۔

کانگریس اور مسلم لیگ اس وقت حاوی ہونا شروع ہوئیں جب 1943ء میں یالٹا میں چرچل ‘ سٹالن اور روزویلٹ کے درمیان سمجھوتے کے تحت کمیونسٹ پارٹیوں کو دوسری عالمی جنگ میں سامراجیوں کا حلیف بنانے پر ماسکو کی سٹالنسٹ افسر شاہی نے مجبور کیا۔ ہندوستان میں ایک طرف گاندھی نہرو اوردوسرے بالادست طبقات کے لیڈروں کو کبھی گرفتار اور کبھی رہا کرکے انگریزسامراجی میڈیا اور دوسرے ذرائع سے’’لیڈر‘‘ بنار ہے تھے جبکہ دوسر ی جانب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی قیادت نے برطانوی سامراج سے مصالحت کرکے جدوجہدِ آزادی کو ان سرمایہ دار اورجاگیرداروں کے نمائندہ لیڈروں کے حوالے کردیا تھا۔ اس سے طلبہ اور نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر بددلی پیدا ہوئی۔ بعد میں حکمران طبقات کے گماشتہ اور بہت سے رجعتی لیڈر ایسے ابھرے جو 1943ء سے پیشتر کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ اور نوجوان تنظیموں میں تھے۔ مثلاً اٹل بہاری باجپائی 1941ء میں کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ ونگ میں متحرک تھے۔ جدوجہدِ آزادی کا ایک اور اہم سنگ میل 1946ء کی جہازیوں کی بغاوت تھی جس نے ایک انقلاب کو جنم دے دیا تھا۔ برصغیر میں کراچی سے لے کر مدراس تک بیشتر شہروں میں اس بغاوت میں ریلوے ٹیکسٹائل‘ ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں کے مزدوروں نے عام ہڑتال کرکے پورے برصغیر کو جام کردیا تھا۔ اس انقلابی صورتحال کو پیدا کرنے میں طلبہ اور نوجوانوں کی تحریک کا ایک فیصلہ کن ہاتھ تھا۔ لیکن اس ہڑتال کو شکست دینے اور جہازیوں کی بغاوت کو کچلنے میں پھر مسلم لیگ کانگریس اور دوسری مذہبی اور لبرل بورژوا پارٹیوں نے برطانوی سامراج کی مکمل حمایت کی تھی۔ دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی نے پارٹیشن کو بھی’’ قوم کی تشکیل میں مذہب کے عنصر‘‘ کے سٹالن کے فرسودہ نظریے کے تحت قبول کرلیا تھا۔ گو اس فیصلے سے کمیونسٹ پارٹی کے اندر بہت بڑی نظریاتی بغاوت ہوئی لیکن صرف سامراج سے مصالحت کے ایک فیصلے سے اس کی کئی دھائیوں کی محنت سے حاصل کردہ حمایت اور ساکھ ٹوٹ چکی تھی۔ یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ’’ہندو‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ ممبران کو کانگریس اور مسلم لیگ میں کام کرنے کے احکامات صادر کیے جو ایک نظریاتی جرم تھا۔ دانیال لطیفی جو کمیونسٹ پارٹی کا ایک عالب علم راہنما تھا اور دانشور تھا نے مسلم لیگ کا 1946ء کے انتخابات کے لیے منشور لکھا تھا۔ برصغیر کا بٹوارہ ایک انتہائی ردانقلابی اقدام تھا جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور طلبہ ‘نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں اور رجحانات پر ایک کاری ضرب بنا۔

اس پس منظر میں قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر کوئی بڑی تحریک نہیں ابھری۔ تحریک کی طبقاتی جدوجہد کے نظریات پر مبنی اصل انقلابی بنیادیں پسپا ہوچکی تھیں۔ ابتداء میں یہ تحریک قومی اور دوسری غیر انقلابی نظریات اور راستوں میں بکھر گئی تھی۔ پاکستان کے بننے کے بعد ہمیں ایک طرف مذہبی بنیادوں پر ’’احمدیوں‘‘ کے خلاف تحریک میں طلبہ کے کچھ عناصر ملتے ہیں۔ یا پھر 1950ء کی دہائی میں بنگال میں ’’زبان‘‘ کے مسئلہ پر تحریک میں طلبہ کی بڑی شرکت ملتی ہے۔ لیکن اس دوران بائیں بازو کے طالب علموں نے ڈی ایس ایف (DSF) اور این ایس ایف(NSF) کے گرد متحرک اور منظم ہونا شروع کردیاتھا۔ پارٹیشن کے باوجود پاکستان کے حکمران بائیں بازو کے نظریات اور تحریکوں سے بہت ہی خائف تھے اور انہوں نے خصوصاً بائیں بازو کے طالب علموں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کا بنیادی وطیرہ اپنایا۔ اس میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت بائیں بازو کے جو تھوڑے بہت لیڈر تھے ان کو گرفتار کرلیا تھا۔ 1957ء میں مولانا عبدالحمید بھاشانی مغربی پاکستان آئے اور انہوں نے مختلف بائیں بازو کے لیڈروں سے مل کر نیشنل عوامی پارٹی قائم کی لیکن اس کی نظریاتی ساکھ ریڈیکل سوشل ڈیموکریسی سے زیادہ نہیں تھی۔ اسی دوران بائیں بازو نے مختلف شہروں میں کسان تحریکیں ابھاریں لیکن ان کو حکومتوں نے آسانی سے کچل دیا۔ ان تمام سیاسی سرگرمیوں میں طلبہ کا ایک اہم کردار رہا تھا۔ لیکن کوئی بڑی تحریک نہیں ابھر سکی تھی اور طلبہ سیاست عمومی طور پر زیادہ سرگرم کردار ادا نہیں کرسکی تھی۔ لیکن پھر عہد بدلا۔ عالمی پیمانے کروٹ کھائی اور پھر چوتھائی صدی بعد ایک انقلابی دور کا آغاز 1960ء کی دہائی کے دوسرے حصے میں شروع ہوا۔ گو پاکستان میں 1964ء میں طلبہ مطالبات اور ایوبی آمریت کے خلاف ایک بڑی طلبہ تحریک ابھری تھی لیکن وہ محنت کش طبقے کی دوسری پرتوں کوتحریک میں متحرک نہیں کرسکی تھی۔ لیکن 6 نومبر 1968ء کو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کے طالب علم عبدالحمید کے پولیس فائرنگ سے قتل ہونے کے بعد ایک انقلابی طوفان ابھرا جو ایک جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک( مغربی ومشرقی پاکستان) میں پھیل گیا۔ طلبہ کی یہ تحریک پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب جس کا بنیادی کردار سوشلسٹ تھا کا نقطہ آغاز بن گئی تھی۔ یہ انقلابی تحریک آمریت کو توڑ کے‘ انتخابات کو چیر کے جنگ اور ملک ٹوٹنے جیسے واقعات کو بھی پامال کرکے آگے بڑھ گئی تھی۔ پھر اس تحریک کے ابھرنے والی پارٹی کو اقتدار دیا گیا اور اس ملک کی تاریخ میں تعلیم‘ علاج‘صنعت‘ زراعت ‘ لیبر اور دوسرے شعبوں میں سب سے ریڈیکل اصلاحات کی گئیں۔

لیکن سرمایہ دارانہ ریاست اور معیشت کے ڈھانچے برقرار ہے۔ سرمایہ داری میں چونکہ اس وقت بھی اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے جونہی اس نظام کا بحران بڑھا سماج میں انتشار بڑھنا شروع ہوگیا تھا۔

چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر طلبہ تحریک کی حمایت سے ابھرے تھے۔ اس وقت طلبہ میں ؤبائیں بازو کا بڑا رجحان این ایس ایف (NSF) کی شکل میں تھا۔ گو اس تنظیم میں بھی بہت سے ماسکو نواز‘ پیکنگ نواز اور دوسرے بائیں بازو کے فیکشن تھے لیکن جب تحریک ابھری تو ان فیکشنوں کی موجودگی کے باوجود طلبہ میں پورے سماج پر بائیں بازو کا غلبہ ہوگیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے پی ایس ایف (PSF) کے نام سے جو طلبہ کی تنظیم بنائی تھی اس کا واضح سوشلسٹ پروگرام این ایس ایف سے بھی زیادہ انقلابی ہونے کی وجہ سے طلبہ کے لیے پرکشش تھا۔ 1967ء سے 1972ء تک پی ایس ایف تیزی سے بڑھی اور این ایس ایف کے بہت سے دھڑے اسی میں شامل ہوئے تھے لیکن 1972ء میں پیپلز پارٹی کے برسرِاقتدار آنے اور 1974ء کے بعد سماج میں 1968-69ء کے انقلابی رجحانات کی پسپائی سے نہ صرف پی ایس ایف بلکہ این ایس ایف اور دوسری بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں بھی بحران اور حمایت میں کمی کا شکار ہونے لگیں۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جو اصلاحات کیں تھیں ان میں ایک اہم اقدام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین سازی کے حق کا اجراء تھا۔ تاریخی طور پر اگر بائیں بازو کی کوئی بڑی طلبہ تنظیم نہیں تھی تو دائیں بازو کی بھی طلبہ میں تنظیمی اور نظریاتی جڑیں بہت کمزور تھیں۔ مسلم لیگ اور ایوبی آمریت کے تحت عمومی طور پر آمریت اور سرمایہ داری کے خلاف طلبہ میں نفرت پائی جاتی تھی۔ اگر کوئی تنظیمیں حقیقی طلبہ حمایت رکھتی تو وہ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتی تھیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے دسمبر 1971ء کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں بہت سی صنعت اور بھاری صنعت کو قومی تحویل میں لیا گیا تھاوہاں عالمی اجارہ داریوں کے بڑے یونٹ افسر شاہی نے نیشنلائزنہیں ہونے دیئے تھے۔ اسی طرح تمام تر نیشنلائز اداروں میں مزدوروں کا جمہوری کنٹرول اور انتظام قائم نہیں ہو سکا تھا۔

ریاستی سرمایہ داری (State Capitalism) کی اس شکل میں جو کینشین (Keyensian) معیشت ابھری وہ عالمی طور پر ہی اس وقت بحران میں داخل ہوچکی تھی اور اس سے بہت بڑے پیمانے پر افراطِ زر ابھری تھی۔ اسی طرح جہاں بہت سے نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیے گئے تھے وہاں ریاستی افسر شاہی نے ایچی سن کالج لاہور جیسے بڑی اشرافیہ کی اولادوں کے تعلیمی اداروں کو عمومی قومی تعلیمی پالیسی کے کنٹرول میں نہیں آنے دیا۔ اس کے باوجود دسویں تک تعلیم مفت‘ طلبہ کے لیے دس پیسے کرایہ اور دوسرے ایسے اقدامات ہوئے جو اس ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے یا بعد میں نہیں ہوسکے۔ لیکن طبقاتی نظام تعلیم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ اگر 1970ء کی دہائی کے اس تجربے کو دیکھا جائے تو ملک میں بالا دست طبقات کی حاکمیت اور ریاست کے مکمل خاتمے کے بغیر طبقاتی نظام تعلیم ختم نہیں ہوسکا۔

اس کیفیت میں طلبہ میں بے چینی پھیلنی شروع ہوئی اور جیسے تحریک کے عروج میں سب سے پہلے طلبہ متحرک ہوتے ہیں اسی طرح انقلابی پسپائی کے پہلے اثرات بھی طلبہ میں ہی نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں۔ افراطِ زر سے جنم لینے والی مہنگائی نے اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ پاکستان میں پہلی بار طلبہ سیاست میں دائیں بازو کا غلبہ بڑھنا شروع ہوا۔ بحران کے خلاف طلبہ میں مزاحمت کو دائیں بازو کی رجعتی پارٹی اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں مبذول کروایا گیا۔ اس وقت جماعت اسلامی براہِ راست امریکی سامراج کی گماشتگی کررہی تھی اور پاکستان میں امریکی پالیسیوں کی سب سے بڑی پیروکار تھی۔ لیکن طلبہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پھیلاؤ جہاں سی آئی اے کے پیسے اور دوسرے ہتھکنڈوں سے ہورہا تھا وہاں پیپلز پارٹی حکومت میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سرائیت نے بائیں بازو کے طلبہ کو دوہرے جبر کا شکار کرنا شروع کردیا تھا۔ ایک طرف تو اس جمعیت کی غنڈہ گردی کے ذریعے ان کو کچلا جارہا تھا اور دوسری جانب خصوصاًپنجاب میں صادق قریشی جیسے رجعتی جاگیردار کا پیپلز پارٹی حکومت میں وزیر اعلیٰ بن جانے سے پولیس اور دوسرے سرکاری ادارے بھی بائیں بازو کے طلبہ پر ظلم ڈھارہے تھے۔ یہی ساری صورتحال اس دائیں بازو کی سی آئی اے کی حمایت کردہ پی این اے کی 7 197ء کی تحریک کا باعث بنی جس کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کو معزول کردیا گیا اور ضیاء الحق کی درندہ صفت فوجی آمریت نے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا 4 اپریل 1979ء کو بھیانک عدالتی قتل کردیا۔ ضیاء کی آمریت کے جبر تلے پاکستان میں طلبہ تحریک کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ جماعت اسلامی اور اسکی بغل بچہ اسلامی جمعیت طلبہ اس وحشی آمریت کی درندگی کی بی ٹیم بن گئے۔ لیکن ضیاء الحق کے جبر کے خلاف طلبہ میں ایک نئی مزاحمت ابھری جس نے آمریت سمیت بیشتر تجزیہ نگاروں کو حیران کردیا۔ بیشتر تعلیمی اداروں میں جمعیت کی غنڈہ گردی مارشل لاء کی مکمل پشت پناہی کے باوجود جمعیت اور دوسری دائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ہارنے لگیں۔ ان انتخابات میں ان شکستوں سے خوفزدہ ہو کر ضیاء الحق نے 16 اکتوبر 1979ء کو طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کردی۔ اس پابندی کے خلاف پھر بہت سے تعلیمی اداروں میں تحریکیں اور بغاوتیں پھوٹیں۔ ضیاء آمریت کے خلاف 1979‘ 1981‘ سندھ کی 1983ء، 1986ء اور 1988ء میں ابھرنے والی تحریکوں میں طلبہ نے بے پناہ قربانیاں دیں اور بے مثال جدوجہد کی۔ این ایس ایف (NSF) کے زوال کے بعد کمیونسٹ پارٹی سے ملحقہ ڈی ایس ایف (DSF) اور زیادہ بڑے پیمانے پر بی ایس ایف (BSF) نے ان مزاحمتی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں بی ایس او (BSO) کی بھی ریاست اور مختلف حکومتوں کے خلاف مزاحمتوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس میں بہت سے بائیں بازو کے انقلابی رجحانات پائے جاتے تھے لیکن خصوصاً سوویت یونین کے انہدام کے بعد قوم پرستی مکمل طور پر حاوی ہوگئی اور سوشلسٹ عناصر بہت کم رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ دوبارہ ایک نئی صورتحال میں ابھرسکتے ہیں۔ یہی صورتحال کسی حد تک پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں بھی رہی ہے۔ اے این پی (ANP) کی قیادت کی سرمایہ داری سے مکمل مصالحت سے انقلابی اور سوشلسٹ رجحانات کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ضیاء آمریت کے خاتمے کے بعد جو جمہوری حکومتیں آئیں ان کی بنیادی معاشی پالیسیاں سرمایہ داری پر مبنی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہمیشہ اس وقت لائی گئی جب نظام اور ریاست کو کسی عوامی تحریک کا سامنا یا خطرہ لاحق تھا۔ لیکن ایسی کیفیت میں اقتدار میں آنا اور نظام کا بحران اس قسم کی اصلاحات یا سماجی بہتری کا موقع اور گنجائش بھی نہیں دیتا جو پہلی پیپلز پارٹی کی حکومت نے کی تھیں۔ اقتدار میں آکر محض چند مراعات اور رعائتیں حاصل کی جاسکتی ہیں جو کارکنان کی بھی ایک قلیل تعداد حاصل کرپاتی ہے۔

اس قسم کی حاصلات کی دوڑ میں پارٹی نظریات سے دور ہوتی چلی گئی اور تبدیلی کا پیغام فراموش ہوتا گیا۔ جب نظریات سے انحراف ہو جائے تو پھر بدعنوانی اور طاقت ودولت کی سیاست پارٹی پر حاوی ہوجاتی ہے۔ یہی صورتحال پی ایس ایف کو بھی لاحق ہوئی۔ اس کی تنظیم نو اور اس کو سوشلسٹ نظریات کے ذریعے سرشار کرکے اس کو انقلابی طاقت بنانے کا عمل تقریباًختم ہو کر ر ہ گیا ہے۔ آج پی ایس ایف کو اس کے جنم کے انقلابی سوشلزم کے پروگرام اور لائحہ عمل پر ہی ایک فعال طلبہ کی تنظیم بنایا جاسکتا ہے۔ بھٹو ازم سوشلزم کے بغیر کچھ نہیں رہتا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خاتمے کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ آئی ایم ایف اور سامراج کی ان پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے پھر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے طلبہ ہی ایک انقلابی پروگرام میں منظم ہو کر جدوجہد شروع کرسکتے ہیں جو پھر ایک سوشلسٹ منشور اور انقلابی پارٹی کے تحت ہی انقلاب کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک انقلابی لائحہ عمل پر قائم رہنے اور انقلابی سوشلزم کو اس مشکل ترین معروض میں سربلند رکھنے کی آج یہیں پر مثال جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کی صورت میں موجود ہے۔ اس کا آج تک کشمیر کے طلبہ اور نوجوانوں کی انقلابی سرگرم روایت کے طور پر قائم رہنا صرف اس لیے ممکن ہوا کیونکہ ایک جرات مندانہ مارکسی قیادت نے مشکل ترین معروض اور دشواریوں‘ تکلیفوں اور داخلی وخارجی حملوں کا دلیری سے سامنا کرکے نظریات کی فتح اور بقا کے لیے بے پنا ہ قربانی ہمت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ’’ JKNSF‘‘ بھی کب کی زوال پذیر ہوچکی ہوتی۔

جہاں بہت سے موضوعی عناصر کی وجہ سے طلبہ کی انقلابی وبائیں بازو کی تنظیمیں زوال پذیر ہوئی ہیں وہاں معروضی طور پر بھی بیس 25 سال سے سماجی نفسیات بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس معروض کے طلبہ اور نوجوانوں پر بھیانک اثرات ہوئے ہیں۔ ایک جانب اس کیفیت میں جنم لینے والی محرومی‘ ناکامی‘ بیگانگی اور پراگندگی نے بہت سے طلبہ اور نوجوانوں کو مذہبی جنونیت اور دہشت گردی کی جانب دھکیل دیا ہے تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ لبرل ازم اور مغرب زدہ سوچوں نے بے ہودگی‘ بدتمیزی‘لالچ ‘ ہوس‘ خود غرضی‘ نمائش اور غنڈہ گردی کو جنم دیا ہے۔ یہ دونوں منفی رجحانات لمپن ازم کی مختلف شکلیں یا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے‘ چینی افسر شاہی کی سرمایہ داری میں چھلانگ اور دیوارِ برلن کے گرنے کو اب تقریباً 25سال ہوچکے ہیں۔ دو نئی نسلیں جوان ہوچکی ہیں۔ وہ بے روزگاری اور تاریک مستقبل سے پریشان ہیں اور کسی راستے اور انقلابی متبادل کی متلاشی ہیں۔

جہاں طلبہ خود کوئی طبقہ نہیں ہوتے وہاں مختلف طبقات سے تعلق ضرور رکھتے ہیں۔ تعلیم کی مختلف سطحوں پر ان کی سوچ اور مقاصدبھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں میں کیریرازم کوئی مقام حاصل کرنے کی ہوس یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی نسبتا کم ہوتی ہیں۔ انکی عمریں بھی کم ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ کچھ بڑا کرجانے اور انقلابات کے ذریعے سماج کو بدل دینے کے لیے زیادہ جلدی آمادہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن عالمی سرمایہ دارانہ معاشی بحران نے جس طرح اعلیٰ تعلیم میں ایم بی اے اور اس قسم کی دوسری ڈگریوں اور تعلیم کے لیے مستقبل تاریک کردیا ہے اس سے ان طلبہ میں بھی اب ایک بے چینی اور بغاوت کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ یہی سوچ ان کو انقلاب کی جانب راغب کرسکتی ہے۔ تعلیم بھی سماجی ارتقا کی کیفیت اور طرز سے مبرا نہیں ہوا کرتی۔ جب صنعت کاری اور معاشی ترقی کسی حد تک سماجی کردار حاصل کرتی ہے تو طالب علم اور ان کے والدین انجینئر ‘ ڈاکٹر ‘ وکیل‘ ٹیکنیشن وغیرہ بننے کی تعلیم کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ لیکن اب سرمایہ داری میں تو مالیاتی طور پر پھیلاؤ اور ترقی کی سکت باقی نہیں رہی ہے اور نہ ہی صنعتی اور پیداواری شعبے میں ا س کا بڑھنا ممکن رہا ہے۔ معاشی وسماجی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ غربت ‘مہنگائی‘بے روزگاری‘ دہشت گردی اور ضروریات کی محرومی مزید بڑھے گی۔ یہ اس نظام کا ناگزیر انجام ہے۔ اس نظام کی نمائندگی کرنے والی مذہبی‘ لبرل‘ قومی ‘ لسانی‘ جمہوری پارٹیاں اپنی ساکھ کھوچکی ہیں۔ ان کی پروردہ طلبہ تنظیموں کی بھی یہی حالت ہے۔ جماعت اسلامی ایک بڑی پھوٹ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آج سیاسی پارٹیاں ہی طلبہ سیاست کو ڈی پولیٹیسائز کررہی ہیں۔ ہر راستہ بند کردیا گیا ہے۔ تعلیم اور علاج عوام کی پہنچ سے دور ہوگئے ہیں۔ زندگی ایک عذاب بن گئی ہے۔ جینا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ راستہ ہی کونساسے بچا ہے؟ایسی صورتحال میں پہلی ذہنی کیفیت مایوسی اور پراگندگی کی ابھرتی ہے۔ لیکن پھر طلبہ اور نوجوانوں میں پہلے یہ پھٹ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے مقصد کے لیے اگر ایک لینن اسٹ پارٹی سماج میں ابھر رہی ہوتی ہے تو اس میں ابتدائی کردار انہی طالب علموں اور نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ یہی پھر انقلاب کا پیغام لے کر فیکٹریوں ‘ کھیتوں ‘ کھلیانوں اور دوسرے اداروں میں جاتے ہیں۔ لیکن جہاں وہ انقلابی پرچے سٹڈی سرکل اور دوسرے جدید طریقوں سے انقلابی نظریات کا مزدوروں میں پرچار کررہے ہوتے ہیں وہاں وہ شعوری یا لاشعوری طور پرمزدوروں سے بہت کچھ سیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ یہاں صرف ایک طبقاتی نظام تعلیم ہی نہیں ایک طبقاتی نصابِ تعلیم بھی ہے۔ لیکن اس بحران زدہ نظام کا بلند ترین نصاب بھی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ اس لیے یہ امر بھی سمجھنا ضروری ہے کہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ افراد بہت جاہل اور بدتمیز بھی ہوسکتے ہیں اورسفید ان پڑھ لوگ بہت ذہین عقل مند اور مہذب بھی ہوسکتے ہیں۔ طلبہ میں درمیانے طبقے کی اکثریت ہوتی ہے۔ اس لیے اس طبقے کی نفسیات اور سوچیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ لیکن انقلابی پارٹی میں پرولتاریہ ثقافت اور سوچ کا ہونا لازم ہوتا ہے اس لیے طلبہ کامریڈوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مزدوروں کے ثقافتی معیار کو اپنائیں اور خود پرستی ‘ خود غرضی اور انفرادیت کی نفسیات سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اس طرح ہی وہ سوشلسٹ انقلاب کی اس بین الاقوامی پرولتاری فوج کے بہادراور حقیقی سپاہی بن سکیں گے اور دنیا میں اب تیز تر ہو جانے والی اس طبقاتی جنگ میں ایک سوشلسٹ فتح حاصل کرسکیں گے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔