حسنین جمیل فریدی
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!
تعلیمی اداروں میں حصولِ علم کے لئے آنے والے طلبہ کی طرح مجھے بھی اپنی یونیورسٹی سے والہانہ محبت اور دلی لگاؤ ہے۔ میرا پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ اس کے درو دیوار، کھیل کے میدانوں، ہاسٹل، کلاس کے کمروں اور میس ہال سے میرا ایک خاص رشتہ قائم ہے۔ اس جامعہ میں ملازمت کرنے والے اساتذہ، کلرک، خاکروب، مالی، سکیورٹی گارڈز اور کینٹینوں پر کام کرنے والے محنت کش‘سب کے ساتھ ایک خوبصورت سا رشتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جامعہ میں تقریباً سات سال گزارنے کے باوجود میرا کسی سے بھی لڑائی، جھگڑا حتیٰ کہ تلخ کلامی تک نہ ہوئی۔ شاید میرا جرم یہ تھا کہ میں نے ہر اس ناانصافی پر آواز اٹھانے کی کوشش کی جس کا سامنا اس جامعہ میں پڑھنے اور رہنے والے ہر عام انسان کو کرنا پڑتا ہے اور آواز اٹھانے کے اس عمل کو سیاست قرار دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسکی حالیہ مثال مجھے میری اس جامعہ سے نکالا جانا ہے۔ جس جرم کی پاداش میں مجھے ایک ناپسندیدہ طالب علم قرار دیا گیا اسکی وجہ یہ تھی کہ میں نے اور میرے جیسے چند سر پھروں نے یونیورسٹی میں بسوں کی کمی کے خلاف احتجاج کیا، جسے یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور سیاسی سرگرمی میں ملوث پائے جانے پر موردِ الزام ٹھہرا تے ہوئے میرے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
میں نے اس جامعہ میں تقریباً سات سال گزارے جس دوران تین ڈگریاں کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے سیاسیات میں پوزیشن کے ساتھ ایم اے، بعد میں ایم ایس سی سوشیالوجی اور پھر ایم فل پاکستان سٹڈی میں داخلہ لیا۔ کچھ معاشی حالات کی وجہ سے فیس ادا نہ کر سکا، جس کی بناپر میری ایم فل کی ڈگری لیٹ ہوتی گئی۔ تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتا رہا اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ مجھے تینوں شعبوں، ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس آفیئرز اور ہاسٹل کی سیاست کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جن میں اساتذہ کی آپسی سیاست اور الیکشن میں جوڑ توڑ، ایک طلبہ تنظیم کی اجارہ داری، کونسلوں، انتظامیہ اور جمیعت کے جھگڑے، انتظامیہ کا اپنے مفادات کیلئے طلبہ کا استعمال، معصوم طلبہ پر انتظامیہ کا ذہنی اور ایک تنظیم کا جسمانی تشدد بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر میں صرف دیکھتا رہا کیونکہ ان تمام پر سوال کرنا جامعہ میں سیاست کرنے کے مترادف تھا اورہم سے ایک غیر قانونی حلف نامے کے ذریعے سیاست سے دور رہنے کا حلف لیا جاتا ہے اور ان تمام پر سوال اٹھانا جامعہ کو بدنام کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری جامعہ کی ایک لڑکی بس میں جگہ نہ ہونے کے باعث اسکے نیچے آ کر مرگئی۔ مگر میں اسکی موت کا ذمہ دار اس نظام کو نہ ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں اپنی بہن کے ساتھ یونیورسٹی گراؤنڈ میں بیٹھا تھا تو ایک تنظیم کے نوجوانوں نے آکر ہمیں دھمکیاں دیں اور ہمیں انہیں بہن بھائی ثابت کرنے کیلئے اپنے شناختی کارڈز دکھانے پڑے۔ اس شرمندگی کا ذمہ دار میں اس نظام کو نہ ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب اے پی ایس واقعے کے بعد میرے سمیت بہت سے طلبہ کو ہاسٹلز سے نکال دیا گیااور میں نے رشتہ داروں کے گھروں میں رہ کر اپنی سردیاں گزاریں۔ فاٹا، بلوچستان، سندھ اور دور دراز سے آئے طلبہ نے سڑکوں پر راتیں گزاریں، مگر میں اسکا ذمہ دار اس نظام کو نہ ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں اپنی بہن کے ساتھ ایڈمن بلاک جارہا تھا تو اسی دن پشتون کلچرل ڈے پر حملہ کیا گیا۔ گروپوں کے تصادم میں پولیس کی آنسو گیس نے میری بہن کی آنکھوں کو تکلیف پہنچائی مگر میں اسکا ذمہ دار کسی کو قرار نہ دے سکا، کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب سوشیالوجی کی کلاس میں فیس جمع نہ کروانے پر مجھے بھرے کمرہ امتحان سے نکال دیا گیا، اس سلوک پر میں سوال نہ اٹھا سکا، کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میرے استاد عمارعلی جان یونیورسٹی کلاس پڑھانے آئے تو اِنھیں معلوم ہوا کہ انھیں نکال دیا گیا ہے۔ میں اپنے استاد کے ساتھ ایسے سلوک پر سوال نہ اٹھا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری کلاس فیلو نے مجھے خود کے ساتھ ہونے والی جنسی حراسانی کی دکھ بھری کہانی سنائی، مگر میں اسکی مدد نہ کر سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میری بہن کو ہاسٹل لیٹ آنے پر اسکی وارڈن نے وہ جملے کہے جو شاید ایک بھائی نہ سن پائے مگر میں اسے کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میرے انتہائی شفیق استاد ڈاکٹر اقدس علی کاظمی کو چھے ماہ کی تنخواہ دئیے بغیر ایک نوٹس کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔ میں اپنے استاد کے اْس دکھ کا ازالہ نہ کر سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب میں نوکری کا انٹرویو دیکر ہاسٹل واپس آرہا تھا تو روڈ پر پولیس کی گاڑیاں کھڑی دیکھ کر پتہ چلا کہ ہاسٹل میں ایک لڑکی نے خود کشی کر لی مگر بے بس ہو کر میں نے اپنی موٹر سائیکل آگے نکال لی، میں اس خود کشی کا ذمہ دار اس نظام کو نہ ٹھہرا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ دل دہلا دینے والی رات جب میں اور میرا دوست عظمت برکت مارکیٹ سے واپس آرہے تھے تو یونیورسٹی کے ہاسٹل روڈ پر ہاسٹل نمبر ایک کے درزی کی خون سے لتھڑی لاش پڑی تھی۔ مگر کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ آج تک اْس محنت کش نوجوان کے قاتل کا سراغ نہ لگا سکا۔ میں ایسی سکیورٹی پر سوال نہ اٹھا سکا کیونکہ ایسا کرنا سیاست ہے۔
یہ وہ یاداشتیں ہیں جو شاید اس یونیورسٹی کے تمام طلبہ کی ہیں۔ مگر چونکہ من حیث القوم بھلکڑ ہیں اور تاریخی کم ظریف وقت ہے کہ پچھلے مسئلے کو بھلانے کے لئے نیا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر دفعہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ان پر پھینک دیا جاتا ہے جنہیں سیاست کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ نظام ہے جہاں وی سی آفس سے لیکر خاکروب کے سٹور روم تک میں سیاست ہوتی ہے، مگر جن کی بناپر ہورہی ہے انکی سیاست ممنوع ہے۔ اس تاریخی اور خوبصورت جامعہ کو کارخانہ بنا دیا گیا ہے جہاں سے نیو لبرل اکانومی کو چلانے کیلئے روبورٹس اور مشینیں تیار کی جاتی ہیں۔ تنقیدی، تعمیری اور تخلیقی سوچ کو دبایا جاتا ہے اور کھلی فضاکے ماحول کو گْھٹن زدہ کال کوٹھڑی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بقول بیدل حیدری
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباس زیست بہت دلفریب تھا
پر ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
شاید میں نے اس جامعہ سے وہ سیکھا جو کوئی نا سیکھ سکا۔ مجھے یہ تمام سوالات اٹھانا میری اسی جامعہ نے سکھایا ہے، اس ظلم کے خلاف بولنا بھی اسی جامعہ نے سکھایا ہے۔ ظلم و بربریت کے اس نظام کے خلاف بغاوت بھی اسی جامعہ نے سکھائی۔ اس نظام کو بدلنے کا عزم، ہمت اور حوصلہ بھی اسی جامعہ نے دیا۔ یہ مجھے سکھاتی ہے کہ اپنے حقوق کیلئے سیاست کرنا از حدضروری ہے تا کہ یہ جامعہ تنقیدی اور تخلیقی سوچ پیدا کر سکے۔ جہاں سب کو مفت اور معیاری تعلیم مل سکے۔ جہاں کوئی خود کشی نہ کرے۔ جہاں سب کو ہاسٹل مل سکیں، جہاں سوال کرنے کی آزادی ہو، جہاں اساتذہ کو عزت دی جائے، جہاں تمام کی بہنیں جنسی حراسانی سے محفوظ رہیں، جہاں نئے ادیب، شاعر، سیاستدان، انجینیئراور سائنس دان پیدا ہو سکیں۔ جہاں مباحثے ہوں، جہاں امن ہو، جہاں کسی بھی جنسی، مذہبی اور علاقائی شناختوں کی تفریق کے بغیر محبت پروان چڑھے۔