ہیلن کیلر
کئی مہینوں سے میرا نام اور سوشلزم کا ذکر اکثر اخبارات میں ایک ساتھ نظر آئے۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اخبارات کے صفحہ اول پر میں بیس بال، امریکی صدر روز ویلیٹ اور نیو یارک پولیس اسکینڈل جیسی خبروں کے ساتھ شائع ہوئی ہوں۔ ایسی خبروں کے ہمراہ شائع ہونامجھے پوری طرح خوش تو نہیں کرتا لیکن، مجموعی طور پر، مجھے خوشی ہے کہ بہت سارے لوگ مجھ میں اور میری استاد محترمہ میسی (این سلیوان) کی تعلیمی کامیابیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
بدنامی کو فائدہ مند استعمال کی طرف بھی موڑا جاسکتا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ میری سرگرمیوں کو اخباروں کے کالموں میں جگہ ملنے سے کثرت سے سوشلزم کا لفظ تو استعمال ہوا۔ مستقبل میں، میں سوشلزم کے بارے میں لکھنے کی امید کروں گی اور کسی حد تک اپنی اس تشہیر کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کروں گی جو میرے اور میری رائے کے قریب تر ہے۔
ابھی تک میں نے اس موضوع کے بارے میں بہت کم لکھا ہے اور بہت کم کہا ہے۔ میں نے چند خطوط لکھے ہیں، خاص طور کامریڈ فریڈ وارن کو جو”اپیل ٹو ریزن“ میں چھپا تھا، میں نے کچھ رپورٹروں سے بات چیت کی ہے جن میں سے ایک نیو یارک ورلڈ کے مسٹر آئر لینڈ بھی ہیں جنہوں نے اس گفتگو کی تعریفوں سے بھرپور رپورٹ تیار کی ہے اور بڑی نفاست سے وہ سب بیان کیا جو میں نے کہا۔
میں کبھی شینکیٹادی (مشرقی نیویارک کا صنعتی شہر) میں نہیں رہی، میں میئر لیون سے کبھی نہیں ملی۔ مجھے ان کی طرف سے کبھی کوئی خط نہیں آیا، لیکن انہوں نے مسٹر میسی کے ذریعے خیر سگالی پیغامات بھیجے ہیں۔ مسز میسی کی بیماری کی وجہ سے، شینکیٹادی کے کارکنوں سے ملاقات کے منصوبے کو بھی ترک کرنا پڑا، منفی اور نسبتاً غیر اہم معاملات پر سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ پریس میں بہت سارے اداریے لکھے گئے۔ ان تراشوں سے دراز بھرا پڑا ہے۔ میں نے ان میں سے ایک چوتھائی بھی نہیں پڑھے اور مجھے شک ہے کہ میں شاید ہی ان سب کو کبھی پڑھ پاﺅں گی۔
اتنی کم مقدار پر بھی اتنا سیر حاصل تبصرہ ہو سکتا ہے تو اگر میں نے کبھی سوشلزم کے لئے لکھنے اور بات کرنے کے لئے سلیقے سے کام کرنا شروع کر دیا تو اخبارات کیا کریں گے؟فی الحال مجھے اپنے موقف کی وضاحت کرنی ہے اور کچھ غلط رپورٹوں کی درستی اور کچھ تنقیدکا جواب دینا ہے جو میرے نزدیک ناانصافی پر مبنی ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ میں سوشلسٹ کیسے بنی؟
پڑھ کر۔
پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ ویلز کی ’نیو ورلڈ فار اولڈ‘ تھی جسے میں نے مسز میسی کی سفارش پر پڑھا۔ وہ اس کے تخیلاتی معیار سے راغب تھیں اور انہیں امید تھی کہ اس کا برقی انداز میری دلچسپی اپنی جانب مبذول کرے گا۔ جب انہوں نے مجھے یہ کتاب دی تو وہ سوشلسٹ نہیں تھیں اور وہ اب بھی سوشلسٹ نہیں ہیں۔ شاید وہ واحد شخصیت ہوں گی جن سے میں اور مسٹر میسی مستقبل میں بحث کر رہے ہوں گے۔ میری پڑھائی محدود اور آہستہ رہی ہے۔ مجھے نابینا افراد کے لئے بریل میں تیار کردہ جرمنی کے دوماہی سوشلسٹ جریدے میسر ہیں (ہمارے جرمن ساتھی کئی معاملوں میں ہم سے آگے ہیں)میں نے جرمن بریل کاوسکی کے ایرفرٹ پروگرام میں بھی شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ سوشلسٹ لٹریچر جو میں نے پڑھا ہے وہ اس دوست کی مرہون منت ہے جو ہفتے میں تین بار میرے پاس آتی تھی اور میرے ہاتھوں پر ہر اس تحریر کے ہجے کر دیتی جو میں پڑھنا چاہتی۔ میرے ہاتھ دوست کی انگلیوں سے جس جریدے کی بطور خاص درخواست کرتے وہ ’نیشنل سوشلسٹ‘ ہے۔ وہ مضامین کے عنوانات بولتی، میں اسے بتاتی کہ کب پڑھنا ہے اور کب چھوڑنا ہے۔ میں نے اس کی مدد سے ’انٹرنیشنل سوشلسٹ ریویو‘ کے مضامین بھی پڑھے ہیں جن کے عنوانات سننے میں بہت پرعزم لگتے تھے۔
دستی ہجے کرنے میں وقت لگتا ہے۔ معاشیات کی کتاب کے پچاس ہزار الفاظ کسی کی انگلیوں کے ذریعے تیزی سے جذب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے تاہم میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے اور میں بار بار اس سے لطف اندوز ہوں گی تاوقتیکہ میں اپنے آپ کو کلاسک سوشلسٹ مصنفین سے روشناس نہ کرا لوں۔
مذکورہ بالا گزارشات کی روشنی میں اپنے بارے میں ایک اقتباس پر تبصرہ کرنا چاہتی ہوں جو ”کامن کاز“میں طبع ہوا تھا اور ”لائیو ایشو‘ ‘میں دوبارہ شائع کیا گیا تھا، دونوں سوشلسٹ مخالف جریدے ہیں۔ ان سے ایک اقتباس یہ ہے:
”پچیس سال سے مس کیلر کی استاد اور مستقل ساتھی مسز جان میسی تھیں، جو رینتھم ما کی رہنے والی تھیں، مسٹر اور مسز میسی دونوں پرجوش مارکسسٹ پروپیگنڈا کرنے والے ہیں اور یہ حیرت انگیز بات ہے کہ مس کیلر، اپنی دیرینہ رفیق جن سے وہ زندگی جانکاری حاصل کرنے کے لئے انحصار کر رہی ہیں، وہ ان کی سوچ پر اثر انداز نہیں ہوتی ہوں گی؟“
مسٹر میسی ایک پرجوش مارکسسٹ پروپیگنڈا کرنے والے ہو سکتے ہیں، حالانکہ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ انہوں نے اپنے مارکسزم کو کبھی میری انگلیوں کے ذریعے پھیلانے میں زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا، مسز میسی مارکسسٹ نہیں اور نہ ہی سوشلسٹ ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں جو ”کامن کاز“ کہتا ہے وہ سچ نہیں ہے۔ یہ ایڈیٹر کی اپنی ایجاد ہو گی، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ایڈیٹر کا دماغ اسی طرح کام کرتا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیوں کہ وہ سب سوشلزم ہی کے مخالف ہیں۔ ان کے پاس سوشلزم یا کسی اور چیز کا فکری لحاظ سے قابل قدر ہونے کا احساس ہی نہیں۔ اسی مضمون کے ایک اور اقتباس پر غور کریں۔ سرخی کچھ یوں ہے:
”شینکیٹادی کے سرخے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے نابینا لڑکی ہیلن کیلر کا نام استعمال کرتے ہیں“
پھر آرٹیکل شروع ہوتا ہے:
”شینکیٹادی کے سوشلسٹوں کے ہاتھوں بیچاری ہیلن کیلر کے موجودہ استحصال سے زیادہ قابل رحم واقعات کا تصور کرنا ذرا مشکل ہوگا۔ کئی ہفتوں سے پارٹی کا شعبہ اطلاعات یہ باور کرانے میں لگا ہے کہ ہیلن ایک سوشلسٹ ہے اور وہ جلد ہی شینکیٹادی کے بننے والے نئے عوامی بہبود بورڈ کی رکن بننے والی ہیں“۔
”غریب ہیلن کیلر کا استحصال۔ “ اس جملے پر طنزیہ تبصرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن میں محض یہ کہہ کر گریز کروں گی کہ مجھے ” کامن کاز“ جیسے جریدے کی منافقانہ ہمدردی حاصل کرنا پسند نہیں تاہم مجھے خوشی ہے کہ انہیں لفظ ”استحصال“ کا مطلب معلوم ہے۔
اب حقائق کی طرف آتے ہیں۔ جب میئر لیون نے سنا کہ میں شینکیٹادی جا سکتی ہوں تو انہوں نے عوامی فلاح و بہبود کے بورڈ کو میرے لیے جگہ مختص کرنے کیلئے کہا۔ میئر لیون کے اخبار ”دی سٹیزن“ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں چھپا تھا۔ دراصل بورڈ کا ارادہ تھا کہ جب تک میں شینکیٹادی منتقل نہیں ہوتی اس وقت تک اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کہے گا لیکن سرمایہ دار پریس کے نامہ نگاروں کو اس منصوبے سے آگاہی ملی اور ایک دن میئر لیون کی شینکیٹادی سے غیر موجودگی کے دوران، البانی کے نیکربوکر پریس نے اس کا اعلان کردیا۔ اس کا پورے ملک میں پرچار کیا گیا اور پھر اصلی استحصال کا آغاز ہوا۔ سوشلسٹ پریس کے ذریعے نہیں، سرمایہ دار پریس کے ذریعے۔
سوشلسٹ اخبارات نے یہ خبر چھاپی اور بعض نے خیر مقدمی اداریے بھی چھاپے لیکن میئر لیون کے اخبار ”دی سٹیزن “ نے بدستور چپ سادھے رکھی اور اس دوران جب رپورٹر مجھ سے رابطہ کر کے انٹرویو کے لیے وقت مانگ رہے تھے اس اخبار نے میرے نام کا تذکرہ نہیں کیا، یہ سرمایہ دار پریس تھا جس نے استحصال کیا، عام تجارتی اخبارات کو سوشلزم کی کیا پروا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے بالکل نہیں، انہیں تو اس سے نفرت ہو گی لیکن میں تو چونکہ افسوس کے ساتھ اخباری گپ شپ کا موضوع ہوں۔ ہم یہ انکار کرتے ہوئے تھک گئے ہیں کہ میں شینکیٹادی میں تھی، اب تو مجھے اس رپورٹر سے بھی گھن آنے لگی ہے جس نے سب سے پہلے یہ ”خبر“ شائع کی۔
یہ حقیقت ہے کہ سوشلسٹ اخبارات نے سرمایہ دار اخبارات کی طرف سے ”اس حقیقت کا پرچار کرنے کے بعد کہ میں ایک سوشلسٹ ہوں“ مجھ سے اچھا رویہ رکھا لیکن میرے پاس آنے والے تمام رپورٹرز عام تجارتی اخبارات سے تھے، سوشلسٹ اخبارات ”دی کال“ اور ”نیشنل سوشلسٹ“ نے کبھی مجھ سے مضمون نہیں مانگا۔ دی سٹیزن کے ایڈیٹر نے مسٹر میسی سے اشاراتاً اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ میرا مضمون شائع کرنا چاہتے ہیں مگر یہ خواہش اتنی مناسب اور غور طلب تھی کہ صاف انکار کرنا مشکل لگا۔ نیویارک ٹائمز نے بھی مجھ سے ایک مضمون طلب کیا۔ ٹائمز کے ایڈیٹر نے مجھے یہ یقین دہانی کراتے ہوئے لکھا کہ ان کا اخبار عوام تک پہنچنے کے لئے ایک قیمتی ذریعہ ہے اور وہ مجھ سے مضمون چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ مجھے اپنے منصوبوں کی تفصیل بھیجیں اور شینکیٹادی کے بورڈ آف پبلک ویلفیئر کے رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض کے بارے میں اپنا نظریاتی خاکہ پیش کریں، مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس درخواست کی تعمیل نہیں کی، کچھ دنوں بعد ”ٹائمز“ نے میرا سماجی اخراج کرتے ہوئے مجھے اپنی کامل ہمدردی کی حدوں سے بھی نکال باہر کیا، 21 ستمبر کو ٹائمز میں ”قابل فہم سرخ پرچم“ کے نام سے ایک اداریہ شائع ہوا۔ میں اس سے دو اقتباسات کا حوالہ دوں گی:
”یہ جھنڈا مفت ہے۔ لیکن یہ کسی سے بھی کم حقیر نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا میں لاقانونیت اور انتشار کی علامت ہے اور اسی طرح تمام حق پرست افراد کی توہین کی جاتی ہے“۔
” سرخ پرچم اٹھانے والا اس وقت تک پولیس کے ہاتھوں زدوکوب نہیں ہوتا جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کا لال جھنڈا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم، اس پرچم کا تھامنے والا اس کا مستحق ہے کہ اسے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لاقانونیت کی علامت لے کر وہ احترام اور ہمدردی کا حق کھو دیتا ہے“۔
میں کسی رنگ کے کپڑوں کی عبادت گزار نہیں ہوں لیکن مجھے سرخ پرچم میرے اور دوسرے سوشلسٹوں کی علامت ہونے کی وجہ سے مجھے بہت پسند ہے۔ میرے مطالعے کے کمرے میں ایک سرخ پرچم لٹکا ہوا ہے اور اگر میں یہ کر سکتی تو بخوشی اس پرچم کے ساتھ ’ٹائمز‘ کے دفتر کے آگے سے گزرتی تاکہ تمام رپورٹر اور فوٹوگرافر مجھے دیکھ پاتے۔ ٹائمز کے مطابق میں نے احترام اور ہمدردی کے تمام حقوق کھو دیئے ہیں اور مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ پھر بھی ’ٹائمز‘ کا ایڈیٹر چاہتا ہے کہ میں ان کیلئے مضمون لکھوں۔ اگر میں مشکوک کردار کی مالک ہوں تو وہ مجھ پر کیسے اعتبار کرسکتا ہے کہ میں اس کے لئے لکھوں۔ میں امید کرتی ہوں کہ جب تک میں بری اخلاقیات، خراب منطق اور برے آداب کی بات کرتی رہوں اتنا ہی آپ لطف اٹھائیں گے۔ ایک سرمایہ دار ایڈیٹر بھی یہی لب و لہجہ اس وقت اختیار کرتا ہے جب اسے اس تحریک کی مذمت کرنا ہوتی ہے جو ان کے مفادات کو بے نقاب کرتی ہے۔ ہم ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ہم میں سے بعض لوگ’ٹائمز‘ کیلئے مضامین لکھ سکتے ہیں جو ان کے لیے پیسہ کمانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ شاید ہماری آرا کی ٹائمز کے ایڈیٹر کے نزدیک وہی قدر ہے جو ایک مشہور قاتل کے اعتراف جرم کی ہوتی ہے۔ ہم اچھے نہیں ہیں لیکن ہم دلچسپ ضرور ہیں۔ مجھے اخبار نویس پسند ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں اور دو یا تین ایڈیٹر میرے انتہائی قریبی دوستوں میں شامل رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اخبارات نے اس کام میں ہماری بہت مدد کی ہے جو ہم نابیناﺅں کے لئے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نابینا افراد اور دیگر خیراتی اداروں کی امداد کرنا ان کے لیے مشکل نہیں۔ لیکن سوشلزم۔ ۔ آہ، یہ الگ معاملہ ہے! یہ غربت اور خیرات کی جڑ تک جاتا ہے۔ اخبارات کے پیچھے پیسوں کی طاقت سوشلزم کے خلاف ہے اور مدیران ان ہاتھوں کے تابع دار ہیں جو ان کو کھلاتے ہیں۔ وہ سوشلزم کو پامال کرنے اور سوشلسٹوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ جب کامریڈ فریڈ وارن کو لکھا گیا میرا خط ”اپیل ٹو ریزن“ میں شائع ہوا تو میرے ایک دوست جو بوسٹن ٹرانسکرپٹ کے لئے خصوصی محکمے میں لکھتے ہیں، نے اس کے بارے میں ایک مضمون لکھا جسے چیف ایڈیٹر نے اشاعت سے نکال دیا۔ ”بروکلین ایگل“ سوشلزم اور میرے تعلق کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہیلن کیلر کی ”غلطیاں اس کی نشوونما کی واضح حدود سے نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں“۔ کچھ سال پہلے میں نے ایک شریف آدمی سے ملاقات کی جس کا” مسٹر میک کیلوی ایڈیٹر بروکلین ایگل“ کے طور پر مجھے تعارف کرایا گیا۔ یہ نیویارک میں ہمارے نابینا افراد کی ایک میٹنگ کے بعد کی بات ہے۔ اس وقت اس نے میری اتنی تعریف کی تھی کہ اب اسے یاد کر کے شرم سی محسوس ہوتی ہے لیکن اب جب میں سوشلزم کے لئے نکلی ہوں تو وہ مجھے اور عوام کو یاد دلاتا ہے کہ میں اندھی اور بہری ہوں اور خاص طور پر یہ کہ غلطی کی مرتکب ہو سکتی ہوں۔ ممکن ہے اس ملاقات کے برسوں بعد میری ذہانت سکڑ گئی ہو۔ یقیناً اب شرمسار ہونے کی باری ان ایڈیٹر صاحب کی ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ بہرا پن اور اندھا پن سوشلزم کی طرف مائل ہوں۔ مارکس شاید مکمل بہرا تھا اور ولیم مورس اندھا تھا۔ مورس نے اپنی تصاویر کو چھونے کے احساس سے بنایا اور دیواری کاغذوں کو بو کے احساس سے تیار کیا تھا۔ اوہ کتنا مضحکہ خیز ہے یہ سب ”بروکلن ایگل“!
”ایگل“ کتنا بے چارہ پرندہ ہے! معاشرتی طور پر اندھا اور بہرا، جو ایک ناقابل برداشت نظام کا دفاع کرتا ہے، ایک ایسے نظام کا دفاع کرتا ہے جو بہت سارے جسمانی اندھے پن اور بہرے پن کا سبب ہے جس کو ہم روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ”ایگل“ ہمیں مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ ہم اس صنعتی ظلم پر حملہ نہ کریں جو اس کی حمایت کرتا ہے، اس کے کانوں کو بند کرتا ہے اور اس کی بینائی کو اچکتا ہے۔ ایگل اور میں لڑ رہے ہیں، میں اس نظام سے نفرت کرتی ہوں جس کی وہ نمائندگی کرتا ہے، معافی مانگتی ہوں اور اس کی حمایت کرتی ہوں، جب یہ لڑتا ہے تو اسے منصفانہ لڑنے دیں۔ میرے خیالوں پر حملہ کرنے دیں اور سوشلزم کے مقاصد اور دلائل کی مخالفت کرنے دیں۔ مجھے اور دوسروں کو یہ یاد دلانا مناسب لڑائی یا اچھا استدلال نہیں ہے کہ میں دیکھ نہیں سکتی اور سن نہیں سکتی۔ میں انگریزی، جرمنی اور فرانسیسی زبان میں جتنا وقت میسر ہو، سوشلزم پر کتابیں پڑھ سکتی ہوں۔ اگر بروکلین ایگل کے ایڈیٹر ان میں سے کچھ پڑھ لیتے تو شاید وہ دانشمند آدمی ہوتے اور اخبار کو بھی بہتر بنا پاتے۔ اگر میں کبھی بھی سوشلسٹ تحریک میں اس کتاب کے ذریعے حصہ ڈال سکوں جس کا میں کبھی کبھی خواب دیکھتی ہوں تو، اس کا نام میں نے سوچ رکھا ہے: صنعتی اندھا پن اور معاشرتی بہرا پن۔