پاکستان

جنرل مشرف کو سزائے موت: ابھی آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے

فاروق طارق

جنرل مشرف کو سزائے موت کے فیصلہ نے حکمران طبقات میں کھلبلی مچا دی ہے۔ وہ کبھی یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ خصوصی عدالت کے جج یہ جرات کریں گے کہ ایک آمر کو آئین کی پامالی پر سزائے موت سنا دیں۔ وہ بھی ایک ایسے دور حکومت کے دوران جس کے بارے میں سبھی کہتے تھے کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عمران خان تو کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اور فوجی جرنیل ایک پیج پر ہیں۔

حکمران جماعت نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ اس عدالتی فیصلے پر کیا ردعمل دیا جائے۔ فردوس اعوان یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھیں کہ ”عدالتی فیصلے پر ملک دشمن بغلیں بجا رہے ہیں“۔

جبکہ عمران خان کا 2007ء میں جنرل مشرف کی جانب سے ایمرجنسی لگانے کے بعد یہ ردعمل تھاکہ”جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر اور ججز کو نظر بند کرکے آئین شکنی کی ہے۔ ان پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 لگنا چاہیے اور انہیں سزا بھی ملنی چاہیے“۔

اب جب سزا ملی ہے تو یہ اس کی حکومت کے لئے بڑے مخمصے کی بات ہے کہ کیا کہیں، اگرچہ اس کی حکومت کے وکیلوں نے جنرل مشرف کو بچانے کی پوری کوششیں کی تھیں۔

آئی ایس پی آر نے تو اس فیصلے پر اپنے غم و غصہ کا پبلک اظہار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ فوجی رینک اینڈ فائل میں زبردست غصہ پایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوا، جنرل مشرف کا فیصلہ عجلت میں کیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ پانچ سالوں میں 100 سے زیادہ سماعتوں کے بعد کیا گیا۔ آئین میں واضح لکھا ہے کہ آئین توڑنے والوں کی سزا موت ہو گی اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آئین کی پامالی کی گئی تھی۔ یہ وہی آئین ہے جس کے بارے میں ایک اور آمر ضیا الحق نے کہا تھا کہ”تو ایک چند صفحوں کی ایک کتاب ہے جسے جب چاہوں پھاڑ سکتا ہوں“۔

ایک اور بات جو مشرف کے وکلا بار بار کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مشرف کو سنا نہیں گیا، یک طرفہ فیصلہ ہے۔ یہ موقف بھی حقائق کے خلاف ہے۔

جنرل مشرف کو بار بار موقع فراہم کیا گیا کہ وہ بیان ریکارڈ کرائیں۔ مگر وہ اڑے ہوئے تھے۔ گھمنڈی تھے، عدالت میں پیش ہونے سے کتراتے تھے۔ حتیٰ کہ ویڈیو پر بھی بیان ریکارڈ نہ کرایا۔ انہیں یہ یقین تھا کہ کس کی جرات ہے کہ ان کو سزا سنا سکے۔ وہ عدالت کی کوئی پرواہ کیے بغیر ملک سے باہر گئے تھے۔

جنرل مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا۔ کافی عرصے سے عدالتوں کا مسلسل مذاق اُڑایا جا رہا تھا۔ جب بھی عدالتیں مسنگ پرسنز بارے استفسار کرتی تھیں۔ ان کو کوئی واضح جواب نہ دیا جاتا تھا اور صاف انکار کر دیا جاتا تھا۔

سپریم کورٹ نے اس سے قبل آرمی چیف کی ایکسٹینشن کو بھی جب غیر آئینی قرار دیا تو اسے بھی سنجیدہ نہ لیا گیا۔ کورٹ کی طرف سے بار بار حکومت کو وارننگ دی جاتی رہی کہ آئین کی پامالی نہ کریں۔ جج صاحبان اکثر اوقات سیمینارز میں اصولی موقف بھی اختیار کرتے رہے اور کہتے رہے ہیں کہ قانون اور آئین سے بالا کچھ نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بھی بات کرتے رہے ہیں مگر حکمران طبقات یہ سمجھتے رہے کہ ”یہ باتیں ہیں باتوں کا کیا“۔

ایک چیف جسٹس نے جنرل مشرف کے دباؤ کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا تو دوسرے چیف جسٹس کے ایک معاون جج نے جنرل مشرف کو سزائے موت سنا کر دنیا کو حیران و پریشان کر دیا کہ یہ پاکستان میں ہو رہا ہے جہاں 32 سال فوجی آمریتوں میں گزرے ہیں۔

اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ فوجی جرنیل اس عدالتی فیصلہ کے ردعمل میں کیا مارشل لالگا سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ خارج از امکان نہیں لیکن زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر کے اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف لینے کی کوشش کی جائے۔

آئین میں آرٹیکل چھ کے باوجود جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ جنرل مشرف کو پھانسی ہو جائے گی۔ ابھی تو آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے۔

اپوزیشن کہتی ہے کہ اس فیصلے سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ یہ تب ہی ہو گی اگر عوامی سطح پر ایک جمہوری تحریک ہو اور عوامی پریشر اس قدر ہو کہ اس کی گرمی دور تک محسوس کی جا سکے۔

سزائے موت کسی مسئلے کا حل نہیں، ہم سزائے موت کے خلاف ہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایسی نہ بدلنے والی سزا ہے جس سے کسی بھی انسان کے زندہ رہنے کا بنیادی حق اس سے چھین لیا جاتا ہے۔ دنیا میں 150 ایسے ممالک ہیں جہاں سزائے موت کو قانونی طور پر یا عملاً بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود کہ ہم سزائے موت کے اصولی طور پر مخالف ہیں مگر ایک آمر کے خلاف یہ فیصلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، یہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس فیصلے سے اب راہیں کھل گئی ہیں۔ اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے سے حکمرانوں میں جو کھلبلی مچی ہے اس کا سیاسی اظہار ہونا ابھی باقی ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔