تاریخ

بابا جان کو آزاد کرو

قلندر بخش میمن

ترجمہ: عدنان فاروق

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز

 25ستمبر 2014ء کو بابا جان اور گلگت بلتستان کے 11 دیگر سیاسی کارکنوں کو گلگت شہر میں انسداد ِدہشت گردی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔

بابا جان اور سزا پانے والے دیگر11 افراد دہشت گرد نہیں ہیں۔ بابا جان گلگت بلتستان کے ایک معزز سیاسی کارکن ہیں۔ انہیں اپنے علاقے کے مظلوموں کی حمایت میں سرگرمی دکھانے کی وجہ سے سزا سنائی گئی۔ بابا جان کے خلاف فیصلہ محض ایک فیصلہ نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی طرز حکمرانی پر فرد جرم بھی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اہل ِاقتدار علاقے کے لوگوں کو مکمل نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ثابت کیا کہ گلگت بلتستان پر نوآبادیاتی انداز میں حکومت کی جا رہی ہے۔ ایک ایسا طرز حکومت جس کی اس خطے کے عوام تیزی سے مخالفت کررہے ہیں۔

میں نے بابا جان سے پہلی بار 2010ء میں لاہور پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں ملاقات کی تھی۔ وہ وہاں بڑھتے ہوئے پانی اور سیلاب سے آگاہی کے لئے ایک ملک گیر مہم پر تھے جو عطا آباد گاؤں میں پہاڑی تودہ دریا میں گرنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ تودہ گرنے سے 19 افراد لقمہ اجل بن گئے اور اس کی زد میں آنے والا گاؤں عطا آباد تباہ ہو گیا۔ تودہ گرنے سے پانی کا بہاؤ رک گیا اور اوپر کی طرف بہنا شروع ہو گیایوں مکانات، زرعی اراضی، اسکول اور سڑکیں پانی کی زد میں آ گئے۔

پریس کانفرنس میں بابا جان مذکورہ ہنگامی صورتحال کے باعث شدید نالاں تھے۔ انہوں نے فوری کچھ کرنے کی ضرورت پر ضرور دیا اور کہا کہ مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو سارے گاؤں تباہ ہوجائیں گے۔

افسوس کچھ نہ کیا گیا۔ ایک کے بعد ایک گاؤں تباہ ہوگیا۔ بڑھتا ہوا پانی پاسو گاؤں تک چلا گیا۔ اس کے نتیجے میں اس نے عین آباد، شیشکت، گلمت، گلکن اور حسینی گاؤں کے کچھ حصوں کو تباہ کردیا۔ دسیوں ہزار افراد متاثر ہوئے اور لگ بھگ 460 خاندان اپنے گھروں سے محروم ہوگئے اور بیشتر اپنے روزگار سے بھی۔ امدادی کیمپ عطا آباد کے پہلو میں لگائے گئے تھے اور آج بھی، چار سال بعد بہت سارے کنبے ان میں رہ رہے ہیں۔ اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے وہی کیا جو پاکستان میں تمام حکومتیں کرتی ہیں، اس نے کچھ چیک لکھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ خاندانوں کو دو لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

 11 اگست 2011ء تک 200 کے قریب خاندانوں کو حکومت کی طرف سے اعلان کردہ معاوضہ نہیں ملا تھا اور اس کے خلاف متاثرہ خاندانوں نے احتجاج بھی کیا۔ انہوں نے ہنزہ کے علی آباد میں سڑک بلاک کردی جس پر گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سفر کرتے تھے۔ پولیس عہدیداروں نے مظاہرین کو واٹر کینن اور آنسو گیس سے منتشر کرنے میں اپنی ناکامی پر شرمندہ ہوکر مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی۔ نوجوان طالب علم، افضل بیگ، کو گولی مار دی گئی۔ اس کا والد شیر اللہ جو سڑک پر چند گز پیچھے تھا، اس نے گرتے ہوئے یہ منظر دیکھا، وہ ہمت جمع کرتے ہوئے پولیس کی طرف بڑھا، ”تم نے میرے بیٹے کو مار ڈالا ہے“۔ وہ غیر مسلح تھا۔

اس موسمِ گرما میں، میں نے احتجاج میں موجود بہت سے لوگوں سے ملاقات کی اور ایک عینی شاہد نے مجھ سے کہا، ”افضل بیگ کا والد ناقابلِ تسخیر لیکن غیر مسلح اور بے ضرر تھا، وہ سیدھا پولیس کی طرف بڑھا۔ وہ بھی ششدر تھے۔ ڈی ایس پی اور اس کے گارڈ نے ایک دکان میں پناہ لی اور شٹر نیچے کھینچ لیا۔ جلد ہی ایک ہجوم نے دکان کو گھیرے میں لے لیا۔ گارڈ نے دکان کے اندر سے فائرنگ شروع کردی اور شٹر کے ذریعے ہمارے پاس سے گولیاں برسیں۔ افضل کے والد شٹر کے بائیں طرف تھے۔ ڈی ایس پی اور گارڈ نے فائرنگ کے بعد شٹر اٹھایا اور بھاگنے کی کوشش کی۔ افضل کے والد نے ان کا راستہ روک لیا اور ان کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ڈی ایس پی نے اپنے گارڈ کو گولی مارنے کا حکم دیا۔ میں نے اسے حکم دیتے ہوئے سنا، یہ میرے سامنے ہوا۔ کانسٹیبل نے اپنا پورا رسالہ غریب آدمی کے سینے میں اتارا۔ افضل کے والد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ پوری وادی نے دونوں کے قتل کو دیکھا اور وہ، جیسے ہونا چاہئے، لوگ احتجاج کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ علی آباد میں زیادہ تر سرکاری عمارتیں نذر آتش ہوگئیں اور پولیس اور سرکاری ایجنسی کے بہت سارے اہلکاروں کو مارا پیٹا گیا (لیکن کسی کو بھی کوئی شدید چوٹ نہیں پہنچی)، جبکہ کئی میل کے فاصلے پر گلمیت میں پولیس اسٹیشن بھی جل گیا“۔

بابا جان علی آباد میں ہونے والے واقعات سے لاعلم تھے۔ وہ راکاپوشی پہاڑوں کی چوٹی کے نظاروں میں مگن چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انہیں لوگوں نے مظاہرین کو منظم کرنے میں مدد کے لئے بلایا تھا اور وہ واقعے کے کئی گھنٹوں بعد وہاں پہنچے تھے۔ وہ زخمیوں اور مردہ افراد کو دیکھنے کے لئے پہلے ہسپتال گئے۔ رات بھر انہوں نے لوگوں کو پرامن احتجاج پر راضی کیا۔ وہ صبح کے وقت مرنے والوں کو سڑک کے کنارے لائے اور مطالبہ کیا کہ قتل کے ذمہ داران افسروں کا احتساب کیا جائے۔ اگلے دن وزیر اعلیٰ نے ان سے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔

تاہم، بابا جان اور ایک سو کے قریب جوانوں کو جو کچھ ملا وہ ان کے خلاف ایف آئی آر تھا۔

پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار شرمندہ تھے کہ لوگوں سے مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑا چاہے مختصر دورانیے ہی کیلئے سہی۔ وہ سٹیٹس کو کو واپس لانا چاہتے تھے اور سٹیٹس کو کا مطلب ان کی حکمرانی ہے۔ ایسا کرنے کیلئے انہوں نے عوام کو جتایا کہ سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے والا بابا جان ہی ہے۔ ایک بار پھر، اس موسم گرما میں، میں نے ان لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بابا جان کے ساتھ تھے جب وہ راکا پوشی کے پہاڑوں پر چائے پی رہے تھے اور اس وقت علی آباد میں ہنگامہ برپا ہورہا تھا۔ یہ سب کچھ ہوچکا تو وہ علی آباد گئے تھے۔

دو سال تک بابا جان جیل میں رہے اور ضمانت سے انکار کیا۔ نوم چومسکی اور طارق علی جیسے دانشوروں کی حمایت میں ان کی رہائی کے لئے ایک بین الاقوامی مہم چلی، ہالینڈ، جاپان، لاہور، اسلام آباد اور گلگت میں ان کے حق میں مظاہروں کے بعد بابا جان ضمانت منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ ان دو برسوں کے دوران، ان پر افتخار حسین کے ساتھ تین مواقع پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا، افتخار حسین چار سال سے اسی جیل میں تھے، انہیں اسی کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دریں اثنا، فائرنگ کا حکم دینے والے ڈی ایس پی کو ترقی دے دی گئی۔

گلگت بلتستان میں چے گویرا کہلانے والے بابا جان غیر متشدد انداز میں منظم ہیں اور وہ اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں نظروں میں آ گئے۔ ان کو دی جانے والی سزا گلگت بلتستان میں پاکستانی ریاست کی کوتاہیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ کسی بھی دوسرے علاقے کی نسبت بلوچستان اور گلگت بلتستان بیوروکریسی اور ملٹری کے رحم و کرم پر ہیں۔ آئینی طور پر، گلگت بلتستان کی حیثیت کشمیر سے منسلک ہے اور اسی وجہ سے وہ ’متنازع‘ ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کے لوگوں کی کوئی نمائندگی نہیں، سپریم کورٹ ان کی اپیلوں پر سماعت نہیں کرتی اور اہمیت کے حامل معاملات میں گلگت بلتستان اسمبلی بے اختیار ہے۔ اس سے فوجی اور سول بیوروکریسی کی حقیقی طاقت واضح ہوتی ہے۔ بلاشبہ طاقت کے عادی اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

اس سال موسم ِگرما میں مجھے بہت سے دیہات میں گلگت بلتستان کے نوجوان طلبہ سے ملنے کا موقع ملا۔ زیادہ تر لوگوں نے وہاں کے نظامِ حکمرانی اور خود مختاری کے فقدان پر مایوسی کا اظہار کیا۔ وہ سب علی آباد کے واقعے سے واقف تھے اور یہ ان کے نزدیک نا صرف ناانصافی کی ایک مثال ہے بلکہ اس استعماری نظام کا ایک نشان بھی ہے جس کا انہیں سامنا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے یہ مشورہ بھی لیا کہ وہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کس طرح لڑ سکتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اس کا زیادہ علم نہیں۔ تاہم جب تک گلگت بلتستان کے سیاسی قیدیوں کے خلاف الزامات کو ختم نہیں کیا جاتا اور اس علاقے کو ایک ایسا آئینی پیکیج نہیں دیا جاتا جو خطے کے عوام کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی خودمختاری دیتا ہو تب تک بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔

Qalandar Bux Memon
+ posts

قلندر بخش میمن ایف سی کالج یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور عصری آرٹ اور ثقافت کے رسالے ”نیکیڈ پنچ ریویو“ کے مدیرہیں۔