جیاتی گوش
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو وسیع پیمانے پر گزند پہنچانے کی مہم میں مصروف ہے۔ یہ آمرانہ ذہنیت سے مرتب کی گئی حکمت عملی ہے جس کا ہدف اس جدت کو روکنا ہے جو انسانی ترقی اور بھارت کے مستقبل کے لئے ناگزیر ہے۔
5 جنوری کو، نقاب پوش مردوں اور خواتین نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کیمپس پر دھاوا بولا، جہاں میں ایک پروفیسر ہوں۔ وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ پر انھوں نے لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور درانتیوں سے حملہ کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ، سکیورٹی گارڈزاور مقامی پولیس نہ صرف اس ہنگامہ آرائی کے بے گناہ متاثرین کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی بلکہ خاموش تماشائی بن کر وہ بھی اس حملے میں شریک تھے جس میں تشدد کے علاوہ توڑ پھوڑ اور بیجا مداخلت شامل تھی۔ یہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی کا بھارت۔
جے این یو ایک انتہائی قابل احترام ادارہ ہے لیکن بھارتی قیادت نے ہندو قوم پرستی کی جارحانہ شکل کو فروغ دیتے ہوئے غیر آئینی طور پر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نافذ کرکے لاکھوں مسلمان بھارتیوں کو شہریت سے محروم کر دیا جس کے بعد یونیورسٹی دشمن کی نمائندگی کرنے والی جگہ بن گئی۔ لبرل ازم اور برداشت تو بھارتی جمہوریت کی بنیاد سمجھے جاتے تھے۔
یہ حملہ کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے جسے مودی حکومت کے پیغام کی غلط تشریح کرنے والے غیرت مندوں کے کسی چھوٹے گروہ سے منسوب کر دیا جائے۔
اس کے برعکس، مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ایک طویل عرصے سے انتہا پسند بیانئے کا پھل حاصل کر رہی ہے۔ 2014ء میں برسراقتدار آنے کے بعد سے بی جے پی کی حکومت یونیورسٹیوں کو بدنام کرنے کے لئے اپنے ہمنوا میڈیا کا استعمال کررہی ہے۔ خاص طور پر جے این یو نشانے پر ہے کیونکہ اس کے اساتذہ اور طلبہ نے بھارت کو تقسیم کئے جانے کے عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
در حقیقت، جے این یو پر حملے سے صرف ایک ہفتہ قبل، بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے سی اے اے کے خلاف عوامی احتجاج کے درپردہ لوگوں کو ”سبق سکھانے“ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اقلیتوں اور ان کا دفاع کرنے والے ہر شخص کو مؤثر طریقے سے کھلے عام نشانہ بنانے کا اعلان کیا اور اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ہندو انتہاپسند ”شکاریوں“ کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے ان مظاہروں کو جے این یو میں جاری مظاہروں سے بھی جوڑا ہے، جہاں طلبہ من مانی فیسوں میں اضافے کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سوں کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔
جے این یو پر حملے کے دوران، سکیورٹی گارڈز اور پولیس نے جارحیت پسندوں کو اندر جانے کی اجازت دی۔ اپنی غنڈہ گردی کو بڑھاوا دینے کیلئے انہوں نے اسٹریٹ لائٹس بند کردیں اور میڈیا سمیت کسی کو بھی کیمپس میں داخل ہونے یا باہر جانے سے روک دیا۔ جے این یو انتظامیہ سے قربت رکھنے والے اساتذہ اور بی جے پی کے طلبہ ونگ نے مسلح غنڈوں کی مدد کی۔ اس کے بعد وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے جب وہ جے رام جیسے ہندو قوم پرست اور جنگجویانہ ترانے گا رہے تھے۔ اس سے قبل وہ طلبہ کو تشدد کے ذریعے زخمی کر چکے تھے جن میں طالبات، اساتذہ اور طلبہ یونین کی صدر بھی شامل تھیں۔
اس دہشت گردی کے کئی گھنٹوں بعد پولیس نے ہمارے تباہ کن کیمپس سے ان شیطانی غنڈوں کو اپنی نگرانی میں کیمپس سے فرار کروایا۔ پولیس کو بڑی آسانی سے معلوم ہو گیا کہ سی سی ٹی وی ثبوتوں کی کمی ہے اور اساتذہ اور طلبہ کی طرف سے موصولہ شکایات کو درج کرنے سے انکار کردیا۔ پولیس نے اب دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کچھ حملہ آور طلبہ کی شناخت کی ہے حالانکہ یہی طلبہ سب سے زیادہ زخمی ہیں اور انہی کے خلاف پہلے سے مقدمات بھی درج ہیں۔
یہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی ہے اور جے این یو متاثرین میں سے ایک ہے۔ دسمبر میں، پولیس نے نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے کیمپس پر دھاوا بول دیا جہاں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کو ختم کرنے کیلئے طلبہ کو لاٹھیوں سے مارا، آنسو گیس اور گولیوں کا نشانہ بنایا اور لائبریری سمیت یونیورسٹی کی املاک کی توڑ پھوڑ کی۔ 100 سے زیادہ طلبہ زخمی ہوئے۔
اسی دن پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اسی نوعیت کا بلکہ اس سے بھی زیادہ پْرتشدد حملہ کیا۔ آنسو گیس کے شیل کی زد میں آنے کے بعد ایک ڈاکٹریٹ کے طالب علم کا دایاں ہاتھ کاٹنا پڑا۔ علی گڑھ یونیورسٹی پر اس قدر وحشیانہ حملہ کیا گیا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے منصفانہ تحقیقات کیلئے ریاستی حکام پر بھروسہ نہ کیا اور انسانی حقوق کمیشن کو تحقیقات کی ہدایت کی۔
مودی سرکار نے دیگر طریقوں سے بھی یونیورسٹیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص فنڈ کو جی ڈی پی کے 0.6 فیصد سے کم کر کے 0.2 فیصدکر دیا۔ فی طالب علم اخراجات میں نصف کمی واقع ہوئی ہے۔ یوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو معیار ِتعلیم کو برقرار رکھنے کے لئے سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ بہت سوں کو خدمات کا بجٹ کم کرنا پڑا، ملازمین کو فارغ اور کم تنخواہ والے عارضی اساتذہ پر انحصار کرنا پڑا۔ متعدد سرکاری اداروں (بشمول جے این یو) نے فیسوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس سے بہت سارے طلبہ تعلیم جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
بی جے پی کی اعلیٰ تعلیم کے خلاف مہم کی وضاحت کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ طریقہ کار چین، مصر، ہنگری، ترکی اور بہت سارے دوسرے ملکوں کی طرح آزمائے ہوئے آمرانہ طریقہ کار سے مماثلت رکھتا ہے۔ طوطے کی طرح رٹا لگانے والاطریقہ تعلیم یا محض ہنر سکھانے کی بجائے یونیورسٹیوں نے تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرکے غیر مشروط اطاعت اور وفاداری کے آمرانہ خواب کو مجروح کر دیا ہے۔
خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ایسی تعلیم معاشرے کے محروم طبقات کو میسر آجائے جو پہلے باضابطہ طور پر معاشرے سے خارج کردیئے گئے تھے یعنی خواتین، نچلی ذات کے شہری اور پسماندہ نسلی گروہ۔ تعلیم معاشی اور معاشرتی ناانصافی کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف لڑنے کے لئے مہارت اور نیٹ ورک کی آگاہی دیتی ہے۔ اس طرح تعلیم تک رسائی کے نتیجے میں زیادہ تر مساوات اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور معاشرے کے برے لوگوں اور موقع پرستوں کے لئے تفریق پیدا کرنے کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی تحقیقات اور متحرک بحث کو دبانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ یہ طریقہ کار معاشرے کو اطاعت پسند اور مرکزیت پسند تو بنا سکتا ہے تاہم آنے والے وقتوں میں یہ فکری اور ثقافتی غربت کا باعث بنے گا اور اس جدت کو روکے گا جو انسانی ترقی اور بھارت کے مستقبل کے لئے ضروری ہے۔
مستقبل اب غیر یقینی ہے۔ مالی اور عملی طور پر اعلیٰ تعلیم پر اپنے ہر حملے کے ساتھ مودی حکومت بھارت کو تباہی کے قریب لائی ہے۔