دنیا

بل گیٹس اگر ٹیکس دیتا تو اسکی دولت 97 ارب نہیں 14 ارب ڈالر ہوتی

فاروق سلہریا

سرمایہ داری کتنا بڑا ڈاکہ ہے اس کی ایک مثال تو ہم نے چند روز قبل ایمازون کے مالک جیف بیزوس کے حوالے سے ایک رپورٹ میں دی تھی۔ ”روزنامہ جدوجہد“ کی اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح امریکہ کے اِس (غالباً) سب سے بڑے چور نے پندرہ منٹ میں بارہ ارب ڈالر بنا لئے مگر پچھلے سال اس نے سال2018ء کی آمدن پر ایک ڈالر بھی ٹیکس ادا نہیں کیا۔

دو دن قبل ڈوچے ویلے نے ایک دلچسپ خبر دی جس کا عنوان تھا: ”امیر امریکی بائیں بازو کے امیدواروں سے کیوں خوفزدہ ہیں؟“ رپورٹ کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن الزبتھ وارن، جو بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں، پچاس ملین ڈالر تک کے کروڑ پتیوں پر دو فیصد دولت ٹیکس لگانا چاہتی ہیں جبکہ ارب پتی افراد پر چھ فیصد ٹیکس لگانا چاہتی ہیں۔ امیر لوگ اس ٹیکس پر آنسو بہا رہے ہیں۔

اس میں ایک دلچسپ تبصرہ ایک دائیں بازو کے ماہرمعیشت کا ہے۔ برکلے یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے گابریل زکمین اس ٹیکس کے خلاف ہیں (یہ ایک اور مثال ہے کہ کس طرح سے نام نہاد پروفیسر امیروں کی لوٹ مار کو علمی اور دانشوارانہ تحفظ مہیا کرتے ہیں)۔ ان پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس سے منڈی بیٹھ جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ”اگر یہ ٹیکس 1982ء میں لگا دیا جاتا تو آج مائیکروسافٹ کے مالک بل گیٹس کی دولت 97 ارب ڈالر کی بجائے 14 ارب ڈالر ہوتی“ (اتفاق سے یہ وہی بل گیٹس ہے جو دنیا بھر میں اربوں روپے کی خیرات دیتا ہے مگر سرمایہ داری کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتا جو ایسی غربت پیدا کرتی ہے۔ جس سے ایک طرف بل گیٹس کی دولت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف اسکی دولت میں اضافہ ہوتا ہے اوراس کی خیرات اس نظام کو جاری رکھنے کا ہی موجب بنتی ہے)۔

ذرا غور کیجئے! امیروں پرصرف دو سے چھ فیصد ٹیکس کی بات ہو رہی ہے!

اگر انہیں غریبوں کی طرح پچاس پچاس فیصد ٹیکس دینا پڑ جائے تو کیا ہو؟ محنت کش کی تنخواہ سے بھی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اور جب وہ دودھ دہی لینے، آٹا چاول خریدنے یا کبھی بیوی بچوں کے ساتھ کسی ریسٹورانٹ چلا جائے تو بھی ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے۔ محنت کشوں کے لئے تو ٹیکس شاید پچاس فیصد سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور اسی کا نام سرمایہ داری ہے۔ اسی لئے اٹھارہویں صدی میں ہی بالزاک نے جب سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کی اٹھان دیکھی تو کہا: ”ہر بڑی جائیداد کے پیچھے ایک بڑا جرم ہوتا ہے“۔

امریکہ ہو یا پاکستان اور ہندوستان، سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کا ایک ہی طریقہ واردات ہے۔ اتفاق سے ہر جگہ انہیں گابریل زکمین جیسے پروفیسر حضرات بھی مل جاتے ہیں جو اپنے علم سے اس لوٹ مار کا دانشوارانہ دفاع کرتے ہیں لیکن آج اگر امریکہ میں بھی صدارتی دوڑ کا سب سے مقبول امیدوار برنی سانڈرز ہے، جو خود کو سوشلسٹ کہتا ہے، تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب سرمایہ داری کا فسوں ٹوٹ رہا ہے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں بیٹھے پروفیسر بھی اب اس نظام کے مکروہ چہرے پر انسانی نقاب نہیں پہنا پا رہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔