امان اللہ کاکڑ
کرونا ایک مہلک وائرس ہے۔ یہ وائرس انتہائی مختصر وقت میں پوری دنیا کے اندر پھیل گیاہے جس سے افسوسناک جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔ یہ وائرس تاریخی تباہی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ وائرس انتہائی بے رحمی سے میدان میں لڑ رہا ہے اور دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اور ایٹمی ہتھیار کرونا وائرس کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں۔
یہ وائرس کسی کا لحاظ کئے بغیر ہر مذہب، مسلک، قوم، زبان، ثقافت، ذات پات، رنگ، نسل اور ہر سرحد کے آر پار لوگوں پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ امیر اور غریب پر بھی یکساں حملہ آور ہوتا ہے۔ خوف نے ہر قسم کی تفریق اور تقسیم لوگوں کے دلوں اور ذہنوں سے نکال دی ہے۔
پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ ایک عالم گیر مسئلے کیلئے متحد ہونے کی بجائے دور دور ہونا پڑرہا ہے۔ ایک طرح سے کرونا وائرس نے ہر رشتہ، ہر دوستی اور ہر تعلق توڑ دیا ہے۔ کسی کو گلے لگانا اور ہاتھ ملانا اب ممکن نہیں رہا۔ ہر کوئی بچنے اور بچانے کی کوشش میں مبتلا ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ ہر کوئی راہِ تنہائی اختیار کر رہا ہے اور ایک انوکھا پہلو یہ بھی ہے کہ ہتھیار کی بجائے احتیاط (احتیاطی تدابیر اور ہدایات سے) سے لڑنا پڑتا ہے۔
کرونا وائرس کے ہر حوالے سے سماج پر گہرے اثرات ہیں اور اس سے بھی گہرے اور برے اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہوسکتے ہیں کیونکہ ہر قسم کاکاروبارِزندگی متاثر ہے۔ بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ”دن کو کماؤ اور رات کو کھاؤ“ کے سوا لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔رہی سہی کسر نالائق حکمرانوں نے نکال دی۔طاقت کے نشے میں مست، منافع و حوس کے لالچ میں مبتلا حکمرانوں پر بے وقوفی کی غنودگی طاری تھی۔ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ایک دن چھوٹا سا وائرس پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا۔
اس احمق پن کی بنیادی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے مصنوعی دشمنیوں اور جنگوں کیلئے اسلحہ بنانے پر صحت سے زیادہ خرچ کیا۔ اب انسانوں کا پیسہ ضائع کرنے والا ایٹم بم سے ہزاروں گنا زیادہ کرونا وائرس کی ویکسین کی ضرورت ہے۔ محاذ پر لڑنے والے فوجیوں سے زیادہ لیبارٹریز میں لڑنے والے سائنسدانوں کی ضرورت ہے اور سپاہیوں اور بندوقوں سے زیادہ دوائیوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی ضرورت ہے۔
یہ ایک بائیولوجیکل جنگ ہے جس میں بندوق اور سپاہی کی نہیں بلکہ ڈاکٹر اور دوائی کی ضرورت ہے۔ اب دنیا کی سپر طاقت امریکہ کی پوری دنیا میں خون ریزی پھیلانے والی فوج کی بجائے کیوبا کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ امریکہ کی ناکامی اور کیوبا کی کامیابی اور ساتھ ساتھ کیوبا کی سپر طاقت ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ لوگ بچنے کیلئے ترس رہے ہیں اور کیوبا کے ڈاکٹربچانے کیلئے پیش ِخدمت ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے خلاف لڑائی بھی ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ حکومت کی طرف سے کوئی تعاون اور امداد فراہم نہیں کی جا رہی۔ صحت کا انفراسٹرکچر پہلے سے خستہ حالی کا شکار ہے۔ جہاں ایک عام بیماری کا علاج ممکن نہیں ہے وہاں کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ یہاں اقدامات زیادہ تر صرف اعلانات اور ہدایات تک محدود ہیں۔ عوام مجبور ہیں۔ جب تک ضروریاتِ زندگی پوری نہ ہوں تب تک یہ ہدایات مفید ثابت نہیں ہوسکتیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں کرونا وائرس سے بھی زیادہ یہ ذہنیت تکلیف دہ ہے جس کی وجہ سے کرونا وائرس کی روک تھام یا خاتمہ اور مشکل ہو جاتا ہے، وہ ذہنیت جو لاپرواہی، غیر سائنسی علاج پر یقین اور بے وقوفی پھیلاتی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں لوگ نازک صورتحال میں ڈاکٹروں سے زیادہ مولویوں اور نام نہاد پیروں کی بات سنتے ہوں، توکل پر زندگی گزارتے ہو، جہاں سائنسی علاج سے زیادہ غیر سائنسی علاج کو ترجیح دیتے ہوں، جہاں سائنس دانوں اور ماہرین صحت کے احتیاطی تدابیر سے زیادہ مولویوں کی نصیحت قابل توجہ ہوں، وہاں یہ وبا اور بھی خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اس شعوری پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے حکمران ہیں جو عوام کی ثقافتی و تعلیمی پسماندگی کو قرونِ وسطیٰ کے عہد سے باہر نہیں لا سکے۔ اگر کوئی ڈرامائی تبدیلی نہ آئی تو حکمران طبقے کی اس تاریخی نا اہلی کی بہت بڑی سزا اس ملک کو ملنے والی ہے۔