فاروق طارق
پاکستان میں زمین کے ٹھگنے پر کئے گئے جرمانے کو برطانیہ میں غیر قانونی طور پر خریدی گئی پراپرٹی کی ضبطگی سے ملنے والی رقم سے ادا کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک ریاض سے انتہائی رعایت برتی اور اسے سندھ کی زمینیں ہتھیا نے کے جرم میں صرف 460 ارب روپے جرمانہ کیا۔ جو اس نے دس سال میں ادا کرنا تھا۔
ملک ریاض سرمایہ درانہ نظام کی موشگافیوں کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا شخص ہے۔ وہ بہت پہلے سمجھ گیا تھا کہ اس نظام میں سب بکتے ہیں، قیمت لگواتے ہیں اور کام کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس نے بحریہ کا نام ”قانونی“ طور پر اپنے نام کیا۔ ایک فوجی نام کو اپنے کمرشل مقصد کے لئے استعمال کرنا ملک ریاض کا ہی کام تھا، ایسا ہوتا نہیں‘مگر جب ایسا ہو گیا تو پھر سب دروازے کھل گئے۔ جو بھی فوجی اعلیٰ افسر ریٹائرڈ ہوتا اس کو نوکری کی پیشکش سب سے پہلے بحریہ ٹاؤن کی طرف سے ہی آتی۔
ملک ریاض کی کوئی ایسی بستی نہیں جو آباد ہونے سے پہلے کسانوں اور زمینداروں کے استحصال سے منسلک نہ ہو۔ اس نے جو بھی بنایا وہ اونے پونے داموں ریاستی مدد سے کسانوں کی زمینیں ہتھیانے سے بنایا۔ اسلام آباد کا بحریہ ٹاون ہویالاہور، کراچی کا‘ زمینیں ہتھیانے اورزبردستی اپنے نام کرانے کی ایک مسلسل داستان ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین حاصل کرنے کے لئے جس طرح اس نے ریاست کو استعمال کیااور غنڈوں سے کام لیا وہ ایک طویل داستان ہے۔ ڈان کی ہوش ربا رپورٹیں ہی اب اس کے دفاتر پر حملوں کو دعوت دے رہی ہیں۔
اب تو انتہاہی ہو گئی ہے۔ ملک ریاض نے سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے دینے تھے۔ ادھر، برطانیہ کے ایک اینٹی کرپشن ادارے نے یہ معلوم کر لیا کہ ملک ریاض کی جو پراپرٹی لندن میں ہے اس پر تو کوئی ٹیکس ہی ادا نہیں کیا گیا، چنانچہ سنٹرل لندن کی یہ پراپرٹی ضبط کر کے اسے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا حکم دے دیاگیا۔
یہ کوئی ملک ریاض کا جرمانہ ادا کرنے کے لئے پراپرٹی پاکستان کے حوالے نہ کی گئی تھی، مگر ملک ریاض نے اپنی پریس کانفرنس میں انتہائی ڈھٹائی سے اسے سپریم کورٹ کے جرمانہ سے لنک کر دیا۔
حکومت نے بھی اسے خاموشی سے تسلیم کر لیا اور فیصلہ کیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ زیادہ تر کمرشل میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپوزیشن کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے جیسے ملک ریاض کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے لیکر مسلم لیگ نواز تک سب نے ملک ریاض کو مراعات سے نوازا ہے اوراس کے بدلے خود بھی مراعات یافتہ ہوئے ہیں۔
عمران خان کا ایشو یہ ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھا تو بعض اوقات کئی سچی باتیں کہہ دیتا تھا۔ اس نے دو تقریروں میں کہا تھا کہ ”ملک ریاض نے سب کو خریدا ہوا ہے صرف وہ ہیں جو اس کے ہاتھوں بکے نہیں ہیں۔“ اس نے جو کہا تھا اس پر اب وہ خود پورا اترتے ہیں۔
مگر اب تو صاف ظاہر ہے کہ ان کو بھی سانپ سونگھا ہی نہیں بلکہ ڈسا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تو اس ایشو پر کچھ کہنے کو تیار نہیں۔
ملک ریاض کے اس موجودہ قصے نے سرمایہ دار سیاست دانوں کی منافقانہ گفتگو اور کردار کی پستی کو ایک بار سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ، عمران خان حکومت جو سرمایہ داروں کے باہر سے پیسے واپس لانے کی دعویدار تھی جب کچھ پیسے برطانوی حکومت کی وجہ سے واپس آئے تو اسے ایک بدعنوان کرپٹ سرمایہ دار کو کئے گئے جرمانہ میں شامل کر لیا گیا۔