ذیشان شہزاد
”آئیسولیشن“ (Isolation) انگریزی زبان کے لفظ آئیسولیٹ (Isolate) سے اخذ کےا گیا ہے جس کے لغوی معنی الگ یا تنہا کر دینا ہے اور ”سماجی فاصلے “ (Social Distancing) کے عمومی معنی سماج میں جسمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے فاصلہ قائم کرنے کے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا عالمی پیمانے پر پھیلنے کے بعد اس کو روکنے کے لئے ان دو الفاظ کا استعمال آج زبان زدعام ہے۔ ےعنی جن جن افراد میں ممکنہ طور پر اِس وائرس کی موجودگی کا خطرہ ہو ےا پھر جن افراد میں اِس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہو، ان تمام افراد کو باقی معاشرے سے ”آئیسو لیٹ“ ےا تنہا کر کے الگ الگ مخصوص مقامات ےعنی قرنطینہ سنٹروں میں رکھا جائے۔ اور باقی ماندہ انسانوں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ جسمانی طور پر ایک دوسرے سے مخصوص فاصلہ، ےعنی کم سے کم 6 فٹ ےا دو میٹر کی دوری اختیار کرتے ہوئے بات چیت کریں اور اس دوران وہ اپنے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں۔ ےہ احتیاطی تدابیر عالمی پیمانے پر 1918ءکے ہسپانوی فلو (Spanish Flu) کی وبا پھیلنے کے دوران متعارف کروائی گئی تھیں۔ مگر پھر بھی اس وبا سے 5 کروڑ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس مضمون میں ہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے نسل انسان کی اکثریت کو عالمی پیمانے پر مٹھی بھر سرمایہ دار گروہ کی جانب سے جس معاشی، معاشرتی، قومی، علاقائی، نسلی، لسانی، جنسی، جسمانی، روحانی اور ذہنی ” آئیسولیشن“ اور ”سماجی فاصلے“ کا سامنا ہے‘ اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
نسل انسان کی تاریخ میں آج سائنس اور ٹیکنالوجی جدت کی جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کی وجہ سے ےہ پہلی بار ممکن ہو سکا ہے کہ تمام انسانی آبادی کی ضروریات کو نہ صرف پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ ضرورت سے کئی گنا زائد پیداوار کا حصول کوئی یو ٹوپیا نہیں بلکہ ایک مادی حقیقت ہے۔ غلام داری اور جاگیر داری جیسے ماضی کے نظاموں میں جب ذرائع پیداوار اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے تو لوگوں کو جب بھی کبھی قحط اور وباﺅ ں کا سامنا ہوتا تھا تو بے تحاشہ آبادی اشیا ضروریات کی قلت کے سبب زندگی کی بازی ہار جاتی تھی۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اس جدید ذرائع پیداوار اور اشیا ضروریا ت کی فراوانی کے عہد میں بھی نسلِ اِنسان کی اکثریت کو غذائی قلت اور لا علاجی کا سامنا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے سے پہلے جاگیردارانہ نظام کے بر عکس جس قومی ریاست اور نجی ملکیت کے نظام کو تقویت دی، اس میں ذرائع پیداوار نے جہاں بے پناہ عروج حاصل کیا وہیں مارکسی استادوں نے بھی اِس بات کو بھی تفصیل سے بیان کیا کہ یہ نظام اشیا کی تخلیق اِس لئے نہیں کرتا کہ اس سے انسانی ضروریات کی تکمیل ہو سکے، جو کہ بظاہر نظر آتا ہے۔ بلکہ اِس کے برعکس اشیا کی پیداوار کا حتمی مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار کروا کے اور کم سے کم ”اجرتیں“ ادا کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصو ل ہے۔ مطلوبہ شرح منافع کے حصول کے لئے یہ نجی سرمایہ دار لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی بلی چڑھانے میں ایک لمحے کی بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ماضی کے جاگیر داری اور غلام داری نظاموں، جہا ں ہر فرد کی ”ڈیوٹی“ کسی بھی شے ےا جنس کی تیاری کے تمام مراحل کو انفرادی طور پر بخوبی سر انجام دینے کی تھی، کے برعکس سرمایہ داری میں جدید ذرائع پیداوار پر تمام مزدور رنگ، نسل، زبان اور علاقائی تعصب سے ماورا ہو کر ”ایک خاندان“ کی صورت میں اپنے اپنے کام سر انجام دیتے ہیں۔ جہاں ہر فرد ساری زندگی ایک ہی مشین پر کھڑا ہو کر ایک ہی ”جزو“ کی پیداوار میں جتا رہتا ہے اور سرمایہ دار کے لیے ہر مزدور کی حیثیت بھی پیداواری عمل میں شامل ایک ”مشینی پرزہ“ کی مانند ہی ہوتی ہے۔ ےہ تمام ”اجزا“ جب مل کر ایک ”کُل“ یعنی قابل استعمال جنس میں ڈھل جاتے ہیں تو وہ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ اجتماعی تخلیق ہو تی ہے۔ مگر اس تمام تخلیقی پیداواری عمل کے دوران سرمایہ دار ان تمام ”اجزا “ کی ”محنت“ اچھے سے نچوڑنے کے بعد چند ٹکے ان مزدوروں کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ اجرتوں میں کٹوتی یا ”غیر ادا شدہ اجرت“ سے ہی ”قدرِ زائد“ تخلیق ہو تی ہے اور جس کو سرمایہ دار سرمائے کے جبر اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے ذریعے اپنی تجوریوں میں چھپا لیتے ہیں۔ اس واردات کو آسان الفاظ میں ”منافع“ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی شرح میں اضافے کے لئے جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ سرمائے کی دیوی زندہ انسانوں کی قوتِ محنت کو جتنا زیادہ نچوڑتی ہے، اتنا ہی اس کی زندگی کو دوام ملتا ہے۔
مگر جب محنت کش کاغذ ی کرنسی کو لے کر منڈی کا رخ کرتا ہے تو وہ اپنی ہی پیدا کردہ اشیا کو اپنی پہنچ سے دور پاتا ہے۔ وہ ایک طرف اس اشرافیہ کی عیش و عشرت سے لبریز طرزِ زندگی دیکھتا ہے جن کی عزت، شہرت، دبدبے اور بے ہودہ ثقافت پر اس سرمائے کا غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے جس کی تخلیق میں اُن کا ذرہ برابر بھی کردار نہیں ہوتا۔ اور دوسری طرف لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو دیکھتا ہے جو اشیائے ضروریات کے موجود ہونے کے باوجود، جن کے تخلیق کار بھی وہ خود ہوتے ہیں، ان کوحسرت سے تکتے تو رہتے ہیں مگر ان کو اپنے استعمال میں لانے سے قاصررہتے ہیں۔ تو وہ نہ صرف اپنے پیداواری عمل بلکہ اپنے سماج اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ سے”آئیسولیٹ“ یا بیگانہ ہو جاتے ہیں۔
سرمائے کی اس طبقاتی تقسیم اور تفریق کی وجہ سے آج انسان اور انسان کے درمیان سماجی فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے امیر کبیر شخص مُکیش انبانی نے ممبئی میں اپنا ذاتی ستائیس منزلہ گھر تعمیر کروایا‘ جو تین ہیلی پیڈ، ذاتی سینما اور جدید ترین سکیورٹی سسٹم سمیت کم و بیش دنیا کی ہر آسائش سے مزین ہے۔ جہاں وہ اور اُن کی اولادیں دنیا و مافیہ سے ”آئیسو لیٹ“ ہو کر رہتے ہیں اور دوسری طرف اُسی ممبئی میں میلوں میل لمبی جھونپڑ پٹیوں کی قطاریں ہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام نے انہیں سارے جَگ سے آئیسولیٹ کر کے اسی غلاظت اور گندگی میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے ہی مناظر برصغیر کے کم و بیش ہر بڑے شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے گھر افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جو سرد و گرم موسم میں کھلے آ سمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح جب افراداپنے ہی ملک میں کرائے کے گھروں میں رہتے ہوں تو لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں”حب الوطنی “ کے جذبات نہیں پنپتے بلکہ ایسے معاشی کچوکے انسانوں کو نفسیاتی طور پر مزید بیگانہ اور الگ تھلگ کرنے کا باعث بنتے ہیں اور بعض افراد کے حوالے سے پروفیسر سحر انصاری کا یہ شعر صورتحال کو مزید واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ:
عجیب ہوتے ہیں آدابِ رُخصت محفل
کہ اُٹھ کر وہ بھی چلا، جس کا گھر نہ تھا کوئی
حالیہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے جس طرح مُلکوں کو لاک ڈاﺅن کیا جا رہا ہے اُس سے معاشی اور سماجی تانے بانے یکسر بِکھر کر رہ گئے ہیں۔ محنت کشوں کی وسیع پرتیں سوچ رہی ہیں کہ اگر کام نہیں ملے گا تو جمع پونجی خرچ کرنی پڑے گی جو کہ در حقیقت اکثر کے پاس وجود نہیں رکھتی۔ اسی طرح بجلی اور گیس کے بلوں اور دکانوں اور مکانوں کے کرائے سے بھی چھٹکارہ نہیں ملا۔ ان کی مُستقبل میں ادائیگی کی تلوار محنت کشوں کے سر پر مسلسل لٹک رہی ہے۔ محنت کشوں کے ان حالات سے سماج میں بے ےقینی اور بیگانگی میں اضافہ دیکھنے میں ملے گا۔ مگر جہاں سماجی خلفشار بڑھے گا وہیں اِس جابر اور قاتل سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں پر بھی بے تحاشہ سوالات جنم لیں گے جو سماج کی بنیادوں تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔
موجودہ مغربی یورپ کے ممالک، جو آج اپنے آپ کو تہذیب اور انسانی حقوق کا علمبردار گردانتے ہیں، میں نشاط ثانیہ کے عہد سے پہلے کے ”تاریک دور“ میں بہت سارے لوگوں کو اِس لئے ”آئیسولیٹ“ کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا کہ اُن مخصوص افراد کے جسم میں شاید کوئی ”شیطانی بدروح“ حلول کر گئی ہے۔ مگر وقت نے کروٹ لی۔ نشاطِ ثانیہ کے دور کے بعد ایک نئے عہد، ایک نئے نظام کا آغاز ہوا۔ جس سے جدید قومی ریاست کا وجود ظہور پذیر ہوااور پھر اِن جدید قومی ریاستوں نے جدید ذرائع پیداوار اور جدید ذرائع ابلاغ اورآمد و رفت کی بدولت کم و بیش پوری دنیا کو اپنی کالونی بنایا۔ اور وہاں کے وسائل کی لوٹ مار سے اپنی داخلی افرادی قوت کو بہتر معیارِ زندگی دےنے کے قابل ہوئے (زیادہ تر مراعات مزدوروں نے اپنی جدوجہد اور جانوں کی قربانی دے کر حاصل کی ہیں)۔ پھر اِس ”کالونیل ازم“ کے عہد میں مختلف سامراجی ملکوں کے آپسی تنازعات اور مفادات کے لئے مختلف خطوں کو مصنوعی لکیروں اور جعلی بندر بانٹ کے ذریعے کاٹ کر عالمی طور پر معاشرے کو کبھی نہ دیکھے گئے انتشار میں جھونک کر رکھ دیا جو اپنی مثال آ پ ہے۔ اِن مہذب مُلکوں کے سرمایہ داروں نے جس طرح بغیر کوئی ویزہ لگوائے پوری دنیا کے وسائل اور افرادی قوت کے خون پسینے کو نچوڑا ہے اور دیگر عالمی باشندوں پر ویزہ جیسی قدغنیں لگا کر اُن کو مغلوب کیا ہے، وہیں اُنہوں نے ایسی تمام تقسیموں کی بدولت ہر ہر جگہ پراپنے مقامی دلال بھی پیدا کئے۔ جو اُن کی لوٹ مار میں اُن کی گُماشتگی کا کردار بخوبی نبھا سکیں۔ جس کے لئے اُنھوں نے سوٹڈ بوٹڈ نقال بندروں سے لے کے مذہبی لبادوں میں ملبوس جلادوں تک کی پشت پناہی کی۔
مگر وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی اور 2008ءکے عالمی معاشی بحران کے بعد یورپ کے نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش کے لئے ”کمتر“ افریقی مُلکوں کا رُخ کرنے لگی۔ کیونکہ بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں اَب اِن نوجوانوں کے لئے اپنے اپنے ”مہذ ب اور ترقی یافتہ “ مُلکوں میں روزگار کے مواقع مفقود ہو چکے تھے۔ 2011-12ءکے بعد مشرقِ وسطیٰ میں انقلابات اور ردِ انقلابات کی کشمکش میں جہاں بے تحاشہ اِنسانی آبادی کو زندگی سے ہاتھ دھوناپڑا، وہیں بے تحاشہ آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ جہاں اِنسانوں کو چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کی پُر خطر طوفانی لہروں پر سفر کرنا تھا اور زندگی اور موت کی کشمکش میں کسی ایسی غیبی امداد کا انتظار تھا جو اِن سرمایہ دار درندوں کی بربریت اور اِن کی تیار کردہ مذہبی جنونیت کی وحشت سے اُن کو صرف” زندہ سلامت“ بچا سکے۔ 3 سالہ شامی پناہ گزین بچے آلیان الکُردی کی سمندر کنارے تیرتی ہوئی ملنے والی لاش اور یزیدی خواتین پر ایک مخصوص مذہبی سوچ کے حامل گروہ کا جنسی اور جسمانی تشدد اِس کی صرف ایک مثال ہے۔ مسلمان ہمسایہ ممالک نے بھی اپنی سرحدیں خانہ جنگی سے تباہ حال پناہ گزینوں کے لئے بند کر دیں۔ ایسے ہی کچھ مناظرہمیں میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی کے دوران بھی نظر آئے۔ جہاں ریاستی سرپرستی میں بُدھ مت کے شدت پسند گروہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو اُن پناہ گزینوں کو مسلمان ہمسایہ ممالک یعنی بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا نے پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے واقعات کے رونما ہونے سے پیشتر بھی انسانوں کی غیر قانونی نقل و حرکت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر جاری تھی۔ جس میں ایک طرف غربت کے مارے انسان بہتر مُستقبل کی آس میں غیر قانونی اور غیر محفوظ طریقوں سے نقل و حمل کے دوران موت کی وادی میں دھکیل دیے جاتے ہیں‘ وہیں ےہ لاشیں انسانی سمگلروں کی دولت میں بے پناہ اضافے کا مو جب بھی بنتی ہیں۔ اِن تمام اقسام کے مہاجرین کو اپنے اپنے نئے ملکوں میں جس ”سماجی‘فاصلے“ اور ”آ ئیسولیشن“ کا سامنا ہے، اُس نے وہاں سماجی بُنت کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔
آج وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے۔ نوول کورونا وائر س کی حالیہ وبا کے مراکز اِس وقت چین (اُبھرتی ہوئی عالمی معاشی قوت)، امریکہ (موجودہ عالمی تھانیدار)، برطانیہ (جس کی سامراجیت کا ڈنکا ایک وقت میں آدھی دنیا میں بجتا تھا)، جرمنی اور فرانس (یورپی یونین کے اصل آقا) اور اٹلی اور سپین (یورپ کی بالترتیب تیسری اور چوتھی بڑی معیشت) جیسے ”جدید اور مہذب“ ممالک ہیں۔ جن پر کئی ”پسماندہ اور َبد تہذیب“ افریقی ممالک کی طرف سے اِس وائرس کے ممکنہ پھیلاﺅ کے خطرے کے پیشِ نظر ویزہ پابندیا ں سخت کی جا رہی ہیں۔ بالکل ایسے ہی امریکی صدر ٹرمپ نے عنانِ اِقتدار سنبھالتے وقت جس رعونت اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ میکسیکو سے آ نے والے غیر قانونی پناہ گزینوں کو روکنے کے لئے امریکہ میکسیکو بارڈر پر پختہ دیوار تعمیر کروائے گا اور اِس کا خرچہ بھی میکسیکو کی ریاست کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اِس جبر کا پہلا عملی مظاہرہ تب ہوا جب میکسیکو سے آنے والے پناہ گزینوں کے بچوں کو والدین سے ”آئیسولیٹ“ کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ آ ج وہ تکبر خاک میں مل گےا ہے جب کینیڈا اور میکسیکو نے امریکی باشندوں پرکوروناوائرس کے ممکنہ پھیلاﺅ کے خطرے کے پیشِ نظراپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔
جو لوگ سرمائے کی آمریت کے زیرِ اَثر اور بچوں کے رِزق کی خاطر دیارِ غیر کی خاک چھاننے پر مجبور ہوئے اور قانونی طریقوں سے وہاں پہنچے ہوں اور جو لوگ حصولِ روزگار کے لئے اپنے دیس میں ہی پردیس کاٹ رہے ہوں، موجودہ لاک ڈاﺅن کی صورتحال میں وہ تمام محنت کش اپنی اپنی جگہ پر ”آئیسولیٹ “ ہو گئے ہیں۔ اِس ”آئیسولیشن “ کی کیفیت میں ذرائع آمدورفت کی بندش سے محنت کشوں اور اُن کے پیاروں کے مابین ”سماجی فاصلے“ بڑھ جانے سے وہ جس ذہنی اذیت، کرب اور دباﺅ کا شکار ہیں وہ اُن کی روحوں کو مُسلسل گھائل کر رہے ہیں۔ جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے جس جدید قومی ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی (جو اِس سے پہلے کے جاگیرداری نظام کی نسبت ایک آگے کا قدم تھا) اور کالونیل ازم کے عہد کے بعد دنیا بھر میں جتنی بھی مصنوعی لکیریں کھینچ کے بھونڈی قومی ریاستوں کو دنیا کے نقشے پر اُبھارا گےا تھا، اُنہوں نے آئرلینڈ سے لے کر برصغیر تک میں حقیقی قومی آزادی کی تحریکوں کو مسخ کرنے، بہ زورِ طاقت روکنے اور سرمائے کی آمریت کی دلالی کا غلیظ کردار ہی ادا کیا ہے۔ ان مصنوعی لکیروں کو وجود میں لانے سے لے کر اِن کو برقرار رکھنے میں نسلِ اِنسان کو جو لہو کا خراج دینا پڑا ہے اُس کو سرمائے کے کسی ترازو میں تولنا ممکن نہیں ہے۔ اِس ساری کیفیت میں دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں میں ایک بہت بڑے نظریاتی سپیڈ بریکر کا کردار سٹالنسٹ بیوروکریسی کے ’ایک مُلک میں سوشلزم‘ یا ’قومی جمہوری اِنقلاب ‘ اور ماﺅا زم کے ’عوامی جمہوری انقلاب‘کے فلسفے نے اداکیا۔ ان نظریات نے قومی آزادی کی تحریکوں کو سوائے ناکامی اور بربادی کے اور مظلوم اقوام پر سامراجی جبر میں اضافے کے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ مثال کے طور پر صہیونی ریاست کی بنیاد کی اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد سٹالنزم کا وہ تاریخی جُرم ہے جس کا خمیازہ آج بھی غزہ کے اٹھارہ لاکھ معصوم انسان بھُگت رہے ہیں۔ غزہ کو دنیا بھر سے ”آئیسولیٹ“ کرکے ایک کُھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں موت ہر پل زندگی کا تمسخر اُڑاتی ہے۔ کُھلی جیل کا ذکر ہوا ہے تو چلتے چلتے ذرا ہندوستانی مقبوضہ کشمیر پر بھی نظر ڈالتے چلیں۔ جہاں بھارتی نیم فسطائی حکومت نے 270 روز پہلے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے جبری کرفیو لگا دیا تھا اور تب سے آج تک وہ جس عالمی ”آئیسولیشن “ اور ذرائع اَبلاغ اور آمدورفت کی جبری بندش سے جس ”سماجی فاصلے“ کا شکار ہے‘ وہ سراسر انسانیت کی تذلیل ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اس جنت نظیر وادی میں پہلے سے سسکتی اور بلکتی اِنسانیت کو مزید تاراج کرے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سرمائے کی عالمگیر اجارہ داری نے تمام سرحدوں کو بے معنی کر دیا ہے جن کے خاتمے کے بغیر کوئی بھی قومی آزادی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ تمام اقوام کے محنت کش مل کر عالمی سرمایہ دارانہ سامراجیت اور اُن کے حواریوں کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کا راستہ اَپنائیں۔
مذہب کی ریاست سے علیحدگی سرمایہ دارانہ بورژوا اِنقلابات کا ایک اہم پہلو تھا۔ مگر انہی سرمایہ داروں نے دنیا بھر میں وسائل کی لوٹ مار کرنے اور محنت کشوں کو سرمائے کا مغلوب کرنے کے لئے جہاں جہاں جیسے جیسے ضرورت درکار ہوئی ہر قسم کی مذہبی بنیاد پرستی اور رجعتی درندگی کا بھرپور استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ جہاں اِن بنیاد پرست رجعتی قوتوں نے مذہبی مُنافرت کو محنت کشوں کو ایک دوسرے سے ”آئیسولیٹ“ کرنے کے لئے استعمال کیا وہیں یہ سب سرمایہ دارانہ جبر و اِستبداد اوراستحصال کو قدرت کے آفاقی نظام ثابت کرنے جیسی فرسودہ سوچ کو معاشرے میں پھیلا کر عوامی بغاوتوں اور مزاحمتوں کو زائل کرنے اور بہ وقت ضرورت کچلنے کے لئے پُر تشدد کاروائیاں کرنے جیسا غلیظ کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ سب محنت کشوں کو سماج اور سیاست سے ”آئیسولیشن“ کا درس دیتے رہتے ہیں۔ اِس سب کے پسِ پردہ اِن رجعتی قوتوں کے اپنے اپنے مالی اور مادی مفادات پِنہاں ہوتے ہیں۔ مگر وقت نے پلٹاکھایا او ر کورونا وائرس کی وبا عالمگیر پیمانے پر پھیلنے سے جو لاک ڈاﺅن کی صورتحال بنی ہے اور جیسے پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی افادیت اور پذیرائی میں خاصہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اُس سے اِن تمام اَقسام کے بنیاد پرستوں کے علمبرداروں کا سرمایہ داروں کی دلالی جیسا غلیظ کردار محنت کشوں کی وسیع پرتوں کے سامنے مزید عیاں ہو گیاہے۔
نسلی تفریق عالمی پیمانے پر سامراجیت کے ہاتھوں محنت کشوں کو ایک دوسرے سے ” آ ئیسولیٹ“ کرنے اور محنت کشوں کی طبقاتی جڑت میں ”فاصلے“ بڑھانے میں ایک اہم اوزار ہے۔ اِسی طرح لِسانی تعصبات کو ہوا دے کر مزدوروں اور محکوموں کی اصل ضروریات اور حقیقی جدوجہد کو پسِ پُشت ڈالنے کی واردات بھی عالمی پیمانے پر سرمایہ دارانہ گِدھ کرتے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اِنسانوں کے مابین جنس کی بنیاد پر تفریق کو جہاں تاریخ کے ہر طبقاتی نظام نے دوام بخشا اور آبادی کی وسیع تعداد کو دوسری جنس کی بہ نسبت کمتر اورمحکوم قرار دیتے ہوئے معاشی، معاشرتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، وہیں سرمایہ دارانہ نظام نے اِس پدر شاہی بیڑیوں کی جکڑ بندیوں کو خواتین کے گرد مزید توانا اور مضبوط کیا ہے۔ حالیہ ”لاک ڈاﺅن “ نے جہاں معاشی بربادی پھیلائی ہے وہیں بیکاری اور مستقبل کی بے یقینی کے خوف نے گھریلو تشدد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ جیسا کہ حالیہ رپورٹوں میں اِنکشاف ہوا ہے کہ کِس طرح امریکہ اور یورپ م جیسے ملکوں میں بھی خواتین پر تشدد کی شرح میں بڑھوتری دیکھنے کو ملی ہے۔ جہاں خواتین کے ساتھ یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے وہاں جنسی اقلیتوں کی حالت زار کا اندازہ لگا لیں جن کو اِس سے بھی زیادہ وحشی، جابرانہ اور غیر اِنسانی سماجی رویوں کا سامنا ہے۔
لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ عالمی پیمانے پر نسلِ انسان کی اکثریت کو ایک دوسرے سے”آئیسولیٹ“ کرنے اور انسانوں کے مابین ہر قسم کی ”سو شل ڈسٹینسنگ“ کی بنیادی وجہ، جو سرمائے کا عالمگیر جبر ہے، کو اس سماج کی بنیادوں سے ہی نکال کر ماضی کے عجوبوں کے ساتھ کسی عجائب گھر میں ”آئیسولیٹ“ کر کے رکھ دیا جائے۔ جو آج کے عالمگیر یت کے عہد میں صرف اور صرف منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر انٹرنیشنل سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آ ج ہمیں ساحر لدھیانوی کے الفاظ میں یہ عہد کرنا پڑے گا کہ:
ہم مٹا دیں گے سرمایہ و محنت کا تضاد
یہ عقیدہ، یہ اِرادہ، یہ قسم لے کے چلو