خبریں/تبصرے

تین کشمیری صحافیوں پر مقدمہ

عامر ملک

کشمیری جیلوں میں بہاروں کاموسم ہے۔ اس لئے نہیں کہ درختوں پر پھول آ رہے بلکہ اس لئے کہ کورونا وائرس نے ہندوستانی حکام کو کشمیر میں صحافیوں پر حملہ کرنے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے لئے نیا موقع فراہم کر دیا ہے۔

21 اپریل کو صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ یہ تیسرے کشمیری صحافی ہیں جن پر دو دن کے اندر مقدمات درج ہوئے۔ دنیا جب کورونا وائرس کا مقابلہ کرتی نظر آ رہی ہے، ایسے میں ہندوستانی ریاست کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔

20 اپریل، پیر کی صبح جموں کشمیر پولیس نے کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک آزاد فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف ”نوجوانوں کو بھڑکانے“ اور ”اینٹی نیشنل پوسٹس شائع کرنے“ کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا۔ دن ختم ہوتے ہوتے، بھارت میں شائع ہونے والے ”دی ہندو“ اخبار کے کشمیری نامہ نگار پیرزادہ عاشق کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی تھی۔

اس کے بعد، کشمیر پریس کلب نے ایک پریس نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ”صحافت جرم نہیں ہے“۔ کلب نے پوری دنیا کے صحافیوں اور میڈیا سے کہا کہ ”تمام کشمیری صحافیوں کی حمایت کریں“۔ اس سے ایک روز قبل، گوہر گیلانی نے مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کی حمایت کی تھی۔

بھارت یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ کشمیر میں ہر چیز ’نارمل‘ہے۔ مسرت زہرااپنے کیمرے کے ذریعے ان دعووں کے کھوکھلے پن کو کھولتی آ رہی تھیں۔ مسرت زہراچار سال سے جنگ کی تصاویر کھینچ رہی ہیں۔ ان کا فیس بک اکاؤنٹ ان کے کام کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کشمیر میں ہندوستانی فورسز کی روزمرہ کی زیادتی کو دستاویز کرتی ہیں۔ اْنہوں نے ایک ڈیجیٹل نیوز آؤٹ لیٹ کو بتایا، ”میں فوٹو جرنلسٹ ہوں، مجھے اور کیا اپ لوڈ کرنا چاہئے؟“۔ ان کے خلاف مقدمے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کشمیر میں صحافت کو غیر قانونی سمجھتا ہے۔ پیرزادہ عاشق کو بھی اسی طرح ہراساں کیاگیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اخبار نے ”تصدیق“ کیے بغیر خبر شائع کی تھی۔

ماضی میں بھی کشمیری صحافی ہندوستانی ریاست کا نشانہ رہے ہیں اور انھیں جیل میں بھی اذیت دی جاتی رہی ہے۔ کشمیری میگزین کشمیر نریٹر کے ایک صحافی آصف سلطان کئی سالوں سے جیل میں ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے ان کی گرفتاری کو جرم قرار دیا ہے۔ صحافی جنید ڈار کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ ایف آئی آر سے قبل حال ہی میں پیرزادہ عاشق کو بھی تفتیش کے لئے بلایا گیا تھا۔ نیز کشمیر آبزرور کے صحافی مشتاق احمد اور دی پرنٹ کے رپورٹر اذان جاوید کو بھی مارا پیٹا گیا۔

ادھر، ان تینوں صحافیوں کے لئے دنیا بھر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گی ہیں۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کے صحافی بابا عمر نے لکھا، ”صحافی مسرت زہرا گذشتہ چار سالوں سے تنازعہ کشمیر میں زندگی کو ڈاکومنٹ کر رہی ہیں وہ حوصلہ افزائی اور تعریف کی مستحق ہیں، ان کو خاموش کرنے کی کوشش غلط ہے“۔

نئی دہلی میں روزنامہ انڈین ایکسپریس کے سینئر صحافی مزمل جلیل نے لکھا، ”ہم اپنے ساتھی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، ہم سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کیس واپس لیا جائے“۔ ہندوستان میں خواتین کے نیٹ ورک نے بھی ایک نوٹ لکھا اور کہا کہ مسرت کی تصاویر ”زمینی حقیقت، گہری ہمدردی اور درست اطلاع دہندگی“ کو ظاہر کرتی ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ایشیا کی سینئر محقق عالیہ افتخار نے کہا ”مسرت زہرااور پیرزادہ عاشق کو جموں اور کشمیر میں ہونے والے واقعات کے بارے میں آزادانہ طور پر اطلاع کرنے کی چھوٹ ہونی چاہئے“۔ معروف مصنف مرزا وحید نے لکھا، ”پیرزادہ عاشق اور مسرت زہرا کے ساتھ ہیں“۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ ”مسرت، پیرزادہ اور گوہر کے خلاف تمام الزامات ختم کردیں۔“

Amir Malik
+ posts

عامر ملک آزاد صحافی ہیں، نئی دہلی میں رہتے ہیں۔