فاروق طارق
اگرچہ اس وقت کالا باغ ڈیم کے معاملہ پہ خاموشی ہے مگر اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ حکومت مسلسل بگڑتے ہوئے معاشی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے کالا باغ ڈیم یا اس جیسا کوئی اور ایشو دوبارہ ابھار سکتی ہے۔
مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ بارشیں بہت ہو رہی ہیں اور ضروری ہے کہ بارشوں کے پانی کو ’ضائع‘ کرنے کی بجائے ذخیرہ کیا جائے جس کے لئے کالا باغ ڈیم ضروری ہے۔
لیکن جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو ڈیموں کے بند بھی کھولنے پڑتے ہیں کہ سیلاب کہیں ڈیم کو ہی اڑا کر نہ لے جائے۔ سمندر میں گرنے والا پانی ’ضائع‘ نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص مقدار میں سمندر میں پانی گرنا ضروری ہوتا ہے۔ وگرنہ سمندر آگے بڑھنے لگتا ہے اور خشکی کو کھاتا چلا جاتا ہے (جیسی کہ پاکستان کے بعض ساحلی علاقوں کی صورتحال بن چکی ہے)۔ سمندر کی بھی اپنی ایک زندگی ہوتی ہے جس کے لئے اس میں دریاؤں کا گرنا ضروری ہوتا ہے۔
ڈیموں کو تو سارا سال پانی چاہئے ہوتا ہے اور پانی پہلے ہی کم ہے۔ آپ کس کے حصے کا پانی روک کر ڈیم کا پانی پورا کریں گے؟
ویسے بھی نئی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں تو بڑے ڈیموں کی تعمیر کوئی بہتر عمل نہیں ہے۔ بڑے ڈیم قدرتی عوامل کو تتر بتر کر دیتے ہیں۔ پانی میں پلنے والی حیات کو ختم کر دیتے ہیں۔ بڑے سیلابوں کا باعث بن سکتے ہیں۔حتیٰ کہ زلزلوں تک کا باعث بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی تعمیر کے دوران ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ہجرتیں کرنی پڑتی ہیں جس کے بہت سے مضر سماجی اثرات بھی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی آزاد عالمی اداروں کی کیس سٹڈیز اور سفارشات موجود ہیں۔
آج پانی ذخیرہ کرنے سے لے کے بجلی کی پیداوار تک ڈیموں کے بیشمار متبادل، سستے اور کم نقصان دہ طریقے موجود ہیں۔ جو پانی کی کمی کو ختم کرنے اور توانائی کی پیداوار میں اضافہ لانے میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ چھوٹے ڈیم، پانی کے ڈی سنٹرلائزڈ ذرائع، زیرِ زمین پانی کے ذخیرے، شمسی توانائی، چلتے دریاؤں کے اوپر بجلی گھر، ہوا سے توانائی کا حصول وغیرہ ایسے ہی طریقے ہیں۔
سب سے بڑھ کر آبپاشی کے نظام کو جدید بنانے کی ضرورت ہے جو پاکستان میں پانی کے زیاں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ آج آبپاشی کے لئے ڈرپ اریگیشن جیسے جدید ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے انتہائی کم پانی سے فصلوں کو زیادہ بہتر طور پہ سیراب کیا جا سکتا ہے۔
کالا باغ ڈیم کو مختلف حکومتیں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور قومی و لسانی نفرتوں کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرتی آئی ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے پورے دور میں کالا باغ ڈیم بنانے کی رٹ لگائے رکھی۔ تین صوبوں نے کھل کے اس کی مخالفت کی۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف کے بنائے گئے جی این عباسی کمیشن نے بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی مخالفت کی۔ مشرف نے اس دور میں توانائی کا ایک بھی متبادل ذریعہ نہ ڈھونڈا۔ مہنگی بجلی کے ذریعوں پر انحصار رہا اور آئی پی پیز کو کھربوں روپے لٹائے جاتے رہے۔ 2008ء میں بجلی کا بحران شروع ہوا۔
پیپلز پارٹی نے بھی 2008ء سے 2013ء تک بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے کی بجائے آئی پی پیز وغیرہ پر ہی اکتفا کیا۔ بجلی مہنگی ہوتی گئی۔ لوڈ شیڈنگ اور بحران بڑھتے گئے۔
تاہم مسلم لیگ (ن) نے 2013ء سے 2018ء تک کالا باغ ڈیم بنانے کی رٹ لگانے کی بجائے توانائی کے متبادل ذرائع پر کچھ توجہ دی۔ اگرچہ ہمیں کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹوں پر شدید اعتراض ہیں کیونکہ ایک تو ان میں سامراجی لوٹ مار ملوث ہے۔ دوسرا ان کے ماحول پر اثرات بھی انتہائی منفی ہیں۔
پنجاب کے عوام کو ایک خاص پراپیگنڈہ کے ذریعے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر گزارہ ممکن نہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن ہیں۔ یہ کام پنجاب کے بالادست طبقات کے کچھ انتہائی رجعتی حصے کرتے ہیں جو آج کل تحریک انصاف کی حکومت سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
پنجاب میں بائیں بازو کو زور دار طریقے سے اس ایشو کے حقیقی پہلوؤں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو بتایا جانا چاہئے کہ یہ ایک نان ایشو ہے۔ اور بالفرض یہ ڈیم بن بھی جائے تو ملک کے سارے مسئلے حل نہیں ہو جائیں گے جیسا کہ تاثر دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ماحول دوست منصوبوں سے وہ مقاصد زیادہ سستے میں حاصل کیے جا سکتے ہیں جو اِس ڈیم کے بتائے جاتے ہیں۔
عوام کو چاہئے کہ حکمرانوں کی منافرتیں پھیلانے والی تمام حرکتوں اور چالوں سے آگاہ رہیں جو وہ انہیں تقسیم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ڈالر کے مسلسل گرنے اور معاشی بحران کے بڑھنے کے پیش نظر یہ حکومت اور بھی کئی طرح کے نان ایشوز کھڑے کر سکتی ہے جو عوام کو تقسیم کرنے کا باعث بنیں۔
ویسے بھی کالا باغ ڈیم ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے جو تین صوبوں کی مخالفت میں بننا بہت محال ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں کچھ شور شرابے کے بعد یہ معاملہ اب بڑی حد تک ڈیڈ ہو چکا ہے۔ لیکن اسے پھر سے ہوا دینے کی بھرپور مخالفت کی جانی چاہئے۔