لاہور(جدوجہد رپورٹ) لاہور کے علاقے گلبرک میں واقع پنجاب گروپ آف کالجز کے کیمپس میں سکیورٹی کارڈ کی جانب سے سال اول کی طالبہ کے ساتھ زیادتی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس نے فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 10طلبہ زخمی ہو گئے ہیں۔
’پاکستان ٹوڈے‘ کے مطابق کالج کے تہہ خانے میں کالج اوقات کے دوران سکیورٹی گارڈ کی جانب سے طالبہ کے ساتھ زیادتی کیے جانے کے بعد طلبہ نے احتجاج کیا۔ تاہم کالج انتظامیہ نے طلبہ کو کلاس رومز میں بند کر کے احتجاج سے روکنے اور معاملے کو دبانے کی کوشش کی، جس کے بعد طلبہ مشتعل ہو گئے اور دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر باہر نکلنے کی کوشش میں اساتذہ کے ساتھ طلبہ کا تصادم بھی ہوا۔ احتجاج مظاہرے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں بدل گئے۔
کالج کی کارروائیوں کی وجہ سے احتجاج بھی سائز میں بڑھتا گیا اور مزید پرتشدد ہو گیا۔ طلبہ نے املاک کی توڑ پھوڑ کی، سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا، اور کالج کے اثاثوں کو آگ لگا دی۔ صورتحال پر قابو پانے کی کوشش میں مقامی پولیس بشمول اینٹی رائٹ فورس کو کیمپس کے اندر اور باہر تعینات کیا گیا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں ابتدائی طور پر ناکام ہوئیں، جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان جسمانی تصادم ہوا۔ اس کے بعد ہونے والی جھڑپوں کے دوران 10 طلبہ اور 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ریسکیو ٹیموں کو طلب کیا گیا تاکہ تشدد میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکے جن میں طلبہ، عملہ اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔
طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث سکیورٹی گارڈ مبینہ طور پر موقع سے فرار ہو گیا تھا، تاہم بعد میں سیالکوٹ سے پولیس نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔
کالج میں طالبہ سے جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آنے کے بعد پنجاب بھر سمیت پاکستان بھر میں طلبہ میں ایک بار پر غم و غصے کی لہر پائی جارہی ہے۔ واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کی بھی مانگ کی جا رہی ہے۔
ترقی پسند طلبہ تنظیم ’ریوولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘(آر ایس ایف) کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس سنگین جرم کے خلاف احتجاج کرنے والہ طلبہ کو مارنے اور دھمکیاں دینے پر پولیس اور کالج انتظامیہ کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
بیان میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے خلاف احتجاج کرنے والی طالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی اور حمایت کا اعلان بھی کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ طلبہ کو روزانہ ہراسانی اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ طلبہ یونینوں پر پابندی، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لگائی گئی، اور اس کے بعد کی تمام حکومتوں بشمول نام نہاد جمہوری ادوار کی جانب سے اس پابندی کو برقرار رکھنے کی وجہ سے طلبہ کی آوازوں کو خاموش کر دیاگیا۔ یونینوں کے بغیر طلبہ کے پاس ان ناانصافیوں کے خلاف بولنے کے لیے پلیٹ فارم کی کمی ہے جس کی وجہ سے انہیں استحصالی انتظامیہ اور نجی مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بیان میں مطالبہ کیاگیا کہ مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے، خاندان کی حفاظت یقینی بنائی جائے، معاملہ دبانے کی کوشش کرنے والے کالج اہلکاروں اور پولیس ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کیمپس کو محفوظ تر بنایا جائے،متاثرین پر الزام لگانا بند کیا جائے۔ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور طلبہ کو اپنے حقوق کے لیے تنظیم سازی اور وکالت کرنے کا اختیار دیا جائے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ تمام کیمپسوں میں طلبہ کی نمائندہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔