رؤف لنڈ
گئے دنوں کی بات ہے۔ حال کے ممبر قومی اسمبلی، تب ایک سیاسی کارکن۔ ۔ ۔ کامریڈ علی وزیر کے گھر فائرنگ ہوئی۔ ساتھ میں گولے بھی داغے گئے۔ گولے گرے اور ساتھ ایک آدھ لاش بھی۔ کچھ وقفہ ہوا اور پھر لاش۔ تھوڑا توقف ہوا اور پھر لاش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سو گھر میں اِدھر اْدھر اٹھائی گئی لاشوں کی تعداد سترہ ہو گئی۔
پھر ایک بار گولے گرے تو ساتھ گھر کی دیوار اور دروازہ بھی گر گئے۔ چادر اور چار دیواری کے رسمی تحفظ کے تکلف میں دیوار تعمیر کر دی گئی۔ دروازہ لگنے کا عمل باقی تھا تو علی وزیر کی ماں نے بیٹے کو دروازہ لگانے سے منع کردیا۔ علی وزیر نے اپنی ماں سے استفسار کیا کہ کیوں امی جان؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اماں! گھر کے تحفظ کیلئے دروازہ ضروری ہے۔
علی وزیر کی ماں نے کہا: ”بیٹا! ہمارے گھر میں رہ ہی کیا گیا ہے؟ ویسے بھی کسی در دروازے نے اب تک کیا تحفظ کیا ہے؟“ علی وزیر نے دیوار میں دروازہ لگانے پر اصرار کیا تو اس کی ماں نے کہا: بیٹا! سچ بتاؤں۔ ۔ ۔ دروازے کی دستک سے مجھے خوف آنے لگا ہے، اب ہر دستک سے یوں لگتا ہے کہ پھر کوئی لاش آئی ہے۔
پھر دروازہ نہیں بنا، دستک نہیں ہوئی مگر گھر میں عارف وزیر کی اٹھارویں لاش آ گئی۔
عمر تقریباً 38 سال۔ ان اٹھائیس سالوں میں عارف وزیر نے اپنے خاندان کے سترہ افراد کی لاشیں اٹھائیں۔ وہ بھی ٹارگٹ کئے گئے اور شہید ہوئے۔ اپنے بے شمار زخمی سیاسی دوستوں کا سہارا بنتا رہا۔ کئی دفعہ گرفتار ہوا۔ متعدد بار جیل میں بند رہا۔ ۔ ۔ ۔ عارف وزیر کو ”آرام کرو“ کے مشورے ملتے رہے مگر وہ نہیں مانا۔ تو پھر خود قاتلوں کو عارف وزیر کو آرام دلانے کا خیال آیا۔ ۔ ۔ ۔ اس کو ٹارگٹ کیا، زخمی کیا اور مار دیا۔ ۔ ۔ مگر قاتل اب تک بے چین ہونگے اور شاید کبھی چین نہیں پا سکیں گے۔ کیونکہ جسم کی موت سے ہر کوئی مر بھی نہیں جاتا۔ عارف وزیر وانا/وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی کامریڈ علی وزیر کے کزن تھے، دوست تھے اور یار تھے۔ ان بھائیوں کے سیاسی پلیٹ فارم بھلے الگ الگ تھے۔ مگر طبقہ ایک تھا اور خون کا رشتہ و رنگ بھی ایک۔
عارف وزیر کا جنازہ تیار ہوا، پڑھایا گیا۔ غم و اندوہ کے فطری مناظر بھی دیکھنے کو ملے اور پھر ایک سیاسی و انقلابی عمل کی تکمیل پر علی وزیر نے تقریر کی اور کہا ”مظلوم قومیتوں اور محروم طبقے کی خاطرہمارے خاندان کے مرد تو کیا کوئی ایک عورت اور ایک بھی بچہ زندہ رہا تو بھی ہم امن کے قیام اور محرومی و بے چارگی کے خاتمہ کے لئے آ خری دم تک لڑینگے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔“
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک کہ ستم کی سیاہ رات چلے