ولادیمیر لینن
ترجمہ: عمران کامیانہ
کارل مارکس 5 مئی 1818ء کو پروشیا (موجودہ جرمنی) کے صوبہ رھائن کے شہر ٹریئر (Trier) میں پیدا ہوا۔ مارکس کے والد ایک یہودی وکیل تھے جنہوں نے 1824ء میں مسیحی فرقے پروٹسٹنٹ کا مذہب قبول کر لیا تھا۔ پورا گھرانہ خوش حال اور مہذب تھا، لیکن انقلابی نہیں تھا۔ ٹریئر میں جمنازیم کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مارکس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ پہلے بون اور پھر برلن یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور خاص طور سے تاریخ اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ 1841ء میں اُس نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور ایپیکیوریس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لئے پیش کر دیا۔ خیالات کے لحاظ سے کارل مارکس اس وقت تک ہیگل کے عینی (خیال پرستانہ) نظرئیے سے متاثر تھا۔ برلن میں بھی اس کا تعلق ’’ بائیں بازو کے ہیگلیوں‘‘ (مثلاً برونو باور وغیرہ) کے حلقے سے تھا۔ ان لوگوں کی کوشش یہ رہتی تھی کہ ہیگل کے فلسفے سے لامذہبیت کے خیالات اور انقلابی نتائج اخذ کریں۔
یونیورسٹی سے گریجویٹ ہونے کے بعد مارکس شہر بون آگیا جہاں اس کا ارادہ پروفیسری کا تھا۔ لیکن حکومت کی پالیسی سخت رجعتی تھی۔ حکومت نے فلسفی لڈوگ فیور باخ کو 1832ء میں یونیورسٹی کی مسند سے نکال دیا تھا، 1836ء میں اسے یونیورسٹی واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور 1841ء میں نوجوان پروفیسر برونو باور کے بون یو نیورسٹی میں لیکچر دینے پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ سب دیکھ کر مارکس نے ایک استاد کی زندگی بسرکرنے کے ارادے ترک کر دئیے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بائیں بازو کے ہیگلیوں کے خیالات جرمنی میں بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ لڈوگ فیورباخ نے بالخصوص 1836ء کے بعد دینیات پر کھلی نکتہ چینی شروع کر دی تھی اور مادیت کی جانب راغب ہونے لگا تھا جو آگے چل کر 1841ء میں اُس کے فلسفے پر حا وی ہوگئی۔ 1843ء میں اس کی کتاب ’مستقبل کے فلسفے کے اصول‘ سامنے آئی۔ ان کتابوں کے بارے میں اینگلز نے آگے چل کرلکھا کہ ان کی ’’آزادی بخش دینے والی تاثیر ناقابل بیان تھی۔ ہم ( یعنی بائیں بازو کے ہیگلی، جن میں مارکس بھی شامل تھا) سب کے سب فوراً فیور باخی بن گئے۔‘‘ ان ہی دنوں رھائن علاقے کے کچھ ریڈیکل بورژوا لوگوں، جو بائیں بازو کے ہیگلیوں سے رابطے میں تھے، نے کولون شہر سے ایک مخالفانہ پرچہ ’رھائن کا اخبار‘ (Rheinische Zeitung) نکالا۔ یکم جنوری 1842ء کو اس کا پہلا شمارہ آیا۔ مارکس اور برونو باور کو خاص طور سے اس پر چے کے لئے لکھنے کی دعوت دی گئی۔ اکتوبر 1842ء میں کارل مارکس اس پرچے کے چیف ایڈیٹر ہو گئے اور شہر بون سے کولون منتقل ہو گئے۔ مارکس کی ادارت میں اس پرچے کا انقلابی جمہور ی رنگ زیادہ سے زیادہ نکھرتا گیا۔ پہلے تو حکومت نے اس پر دوہری تہری سنسر شپ لگائی، پھر یکم جنوری 1843ء کو پرچے کو کچلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے قبل ہی مارکس کو مجبوراً ادارت سے استعفیٰ دیناپڑا، لیکن اُس کا استعفیٰ پرچے کو بچا نہیں سکا اور بالآخر مارچ 1843ء میں اشاعت منقطع کر دی گئی۔ اخباری سرگرمیوں نے مارکس پر واضح کر دیا کہ سیاسی معاشیات سے اس کی واقفیت کافی نہیں تھی، چنانچہ اس نے پورے جوش و خروش سے اس کے مطالعہ کا آغاز کر دیا۔
مارکس نے 1843ء میں کروزناخ شہر میں اپنی بچپن کی دوست، جس سے زمانہ طالب علمی میں ہی اُس کی شادی طے ہو چکی تھی، سے شادی کر لی۔ مارکس کی بیوی کا تعلق پروشیا کی اشرافیہ کے ایک رجعتی گھرانے سے تھا۔ اس کا بڑابھائی 1850-58ء کے نہایت رجعتی دور میں پروشیا کا وزیر داخلہ بھی رہا۔ 1843ء کے موسم خزاں میں مارکس پیرس چلا گیا تاکہ وہاں سے آرنلڈ روگے (1802-1880ء) کیساتھ ایک ریڈیکل رسالہ نکال سکے۔ روگے بھی اُس وقت بائیں بازو کا ہیگلی تھا۔ اس رسالے کا صرف ایک ہی شمارہ نکل پایا اور جرمنی میں چوری چھپے اسے تقسیم کرنے کی مشکلات اور روگے سے اختلافات کی وجہ سے اشاعت منقطع ہو گئی۔ تاہم اِس رسالے میں مارکس کے مضامین واضح کرتے ہیں کہ وہ ایک انقلابی بن چکا تھا جو ’’ہر موجود چیز پر بے رحم تنقید‘‘ بالخصوص ’’ہتھیاروں کے ذریعے تنقید‘‘ کی وکالت کرتا تھا اور عوام اور پرولتاریہ سے استدعا کرتا تھا۔
ستمبر 1844ء میں فریڈرک اینگلز کچھ دنوں کے لئے پیرس آیا اور اس کے بعد سے مارکس کا قریب ترین دوست بن گیا۔ دونوں اُس وقت پیرس میں انقلابی گروہوں کی جوش کھاتی زندگی کا سرگرم حصہ بن گئے۔ اُس وقت پرودھون (Proudhon) کا نظریہ خاص اہمیت کا حامل تھا، جسے مارکس نے 1847ء میں اپنی تصنیف ’فلسفے کی غربت‘ میں شدید تنقید کا نشانہ بنا کر پارہ پارہ کر دیا۔ مارکس اور اینگلز نے پیٹی بورژوا سوشلزم کے مختلف نظریات کے خلاف سخت جدوجہد کا آغاز کیا اور پرولتاری سوشلزم یا کمیونزم (مارکسزم) کی حکمت عملی اور نظریات وضع کئے۔ 1845ء میں پروشیائی حکومت کے لگاتار اصرار پر مارکس کو خطرناک انقلابی قرار دے کر پیرس سے نکال دیا گیا۔ وہ برسلز چلا گیا۔ 1847 ء کے موسم بہار میں مارکس اوراینگلز نے ایک خفیہ پروپیگنڈا سوسائٹی ’کمیونسٹ لیگ‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ لیگ کی دوسری کانگریس (لندن، نومبر 1847ء) میں بہت نمایاں تھے اور اسی کانگریس کے کہنے پر انہوں نے مشہورِ زمانہ ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ مرتب کیا، جو فروری 1848ء میں چھپ کر سامنے آیا۔ نہایت وضاحت اور کمال ذہانت سے اِس تصنیف نے دنیا کا ایک نیا تصور پیش کیاجو مادیت، جدلیات، طبقاتی جدوجہد کے نظرئیے اور ایک نئے کمیونسٹ سماج کے خالق کے طور پر پرولتاریہ کے تاریخی انقلابی کردار سے مطابقت رکھتا تھا۔
جب فروری 1848ء کا انقلاب شروع ہوا تو مارکس کو بیلجیم سے بھی نکال دیا گیا۔ وہ پیرس واپس آگیا، جہاں سے مارچ کے انقلاب کے بعد وہ کولون (جرمنی)چلا گیا۔ کولون میں یکم جون 1848ء سے 19 مئی 1849ء تک ’رھائن کا نیا اخبار‘(Neue Rheinische Zeitung) شائع ہوا، جس کا چیف ایڈیٹر مارکس تھا۔ 1848ء تا 49ء کے انقلابی واقعات نے بڑے شاندار طریقے سے نئے نظرئیے کی تصدیق کی، بالکل جیسے بعد ازاں دنیا بھر کی پرولتاری اور جمہوری تحریکوں نے کی ہے۔ فتح یاب ہونے والے ردِ انقلاب نے پہلے تو مارکس کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر دی (9 فروری 1849ء کو مارکس اس مقدمے سے بر ی ہو گیا) اور پھر 16 مئی 1848ء کو اسے جرمنی سے نکال دیا گیا۔ مارکس پیرس گیا لیکن 13 جون 1849ء کے مظاہرے کے بعد دوبارہ پھر نکال دیا گیا۔ یہاں سے وہ لندن چلا گیا، جہاں وفات تک رہا۔
ایک سیاسی جلاوطن کی حیثیت سے مارکس کی زندگی بہت کٹھن تھی، جیسا کہ مارکس اوراینگلز کے درمیان خط و کتابت (جو 1913ء میں شائع ہو ئی) سے بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ غربت مارکس ا ور اس کے خاندان پر بہت بھاری تھی۔ اگر اینگلز کی مستقل اور بے لوث مالی امداد نہ ہوتی تو مارکس نہ صرف ’سرمایہ‘ کی تحریر مکمل نہیں کر پاتا بلکہ ناگزیر طور پر غربت کے ہاتھوں کچلا جاتا۔ مزید برآں پیٹی بورژوا سوشلزم اور بالعموم غیر پرولتاری سوشلزم کے مروجہ نظریات اور رجحانات نے مارکس کو مسلسل اور بے رحم جدوجہد کرنے اور بعض اوقات انتہائی وحشیانہ اور ننگ انسانیت ذاتی حملوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور کیا۔ سیاسی جلاوطنوں کے حلقوں سے الگ تھلگ رہ کر مارکس نے کئی تاریخی تحریروں میں اپنے مادیت کے نظرئیے کو پروان چڑھایا اور سیاسی معاشیات کے مطالعے کے لئے خود کو وقف کر دیا۔ مارکس نے ’سیاسی معاشیات کے تنقیدی جائزے پر مضمون‘ (1859ء) اور ’سرمایہ‘ (جلد اول، 1867ء) کے ذریعے سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔
انیسویں صدی کی چھٹی دہا ئی کے اواخر اور ساتویں دہا ئی میں جمہوری تحریکوں کے احیا نے مارکس کو دوبارہ عملی سرگرمی کی طرف کھینچا۔ 28 ستمبر 1864ء میں لندن میں’انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن‘قائم کی گئی جو پہلی انٹرنیشنل کے نام سے مشہور ہے۔ مارکس اس تنظیم کے رو حِ رواں تھے۔ وہ اس کے پہلے خطبے اور بے شمار قراردادوں، اعلامیوں اور منشوروں کے لکھاری تھے۔ قبل از مارکسی، غیر پرولتاری سوشلزم کی مختلف شکلوں کی مزدور تحریکوں کو متحد کر کے مارکس نے مختلف ممالک کی پرولتاری جدوجہد کے لئے ایک یکجا حکمت عملی مرتب کی۔ 1871ء میں پیرس کمیون کے انہدام (’فرانس میں خانہ جنگی‘ نامی تصنیف میں مارکس نے اس واقعے کا جامع، واضح، شاندار، مؤثر اور انقلابی تجزیہ پیش کیا ہے) اور باکونن کی وجہ سے انٹرنیشنل میں پڑنے والی دراڑ کے بعد یہ تنظیم یورپ میں قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ 1872ء میں انٹرنیشنل کی ہیگ کانگریس کے بعد مارکس نے اس کی جنرل کونسل کو یورپ سے نیویارک منتقل کرا دیا۔ پہلی انٹرنیشنل نے اپنا تاریخی کردار ادا کر دیا تھا اور تمام دنیا میں مزدور تحریک کی وسیع تر بڑھوتری کے عہد کی راہ ہموار کر دی تھی۔ ایک ایسا عہد جس میں تحریک نے وسعت اختیار کی اور مختلف قومی ریاستوں میں سوشلسٹ مزدور پارٹیاں قائم ہوئیں۔
انٹرنیشنل کے لئے انتھک کام اور اس سے بھی بڑھ کر انتھک فکری مصروفیات نے مارکس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ اُس نے سیاسی معاشیات کو ازسر نو مرتب کرنے اور ’سرمایہ‘ کو مکمل کرنے کا کام جاری رکھا، جس کے لئے اُس نے بہت سا نیا مواد اکٹھا کیا اور کئی زبانوں (مثلاً روسی زبان) کا مطالعہ کیا۔ تاہم صحت کی خرابی نے اسے ’سرمایہ‘ کی تصنیف مکمل نہ کرنے دی۔
2 دسمبر 1881ء کو اُس کی شریک حیات وفات پا گئی اور 14 مارچ 1883ء کو مارکس اپنی آرام کرسی پر اطمینان بھری ابدی نیند سو گیا۔ لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں وہ اپنی بیوی کے پہلو میں دفن ہے۔ مارکس کے بچوں میں سے کچھ لندن میں بچپن میں ہی فوت ہو گئے، جب خاندان کو سخت افلا س کا سامنا تھا۔ تین بیٹیوں (یولینگ، لاورا لافارگ اور جینی لونگے) نے انگریز اور فرانسیسی سوشلسٹوں سے شادیاں کر لیں۔ جینی لونگے کا بیٹا فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی کا رُکن ہے۔