اداریہ جدوجہد
کسی نے کہا تھا، قحط کے دنوں میں لوگ محبت کرنا بھول جاتے ہیں۔ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو جس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ایسے میں بظاہر ہر ملک کو اپنی پڑی ہے، لیکن عین ایسے ہی بحرانوں کے دوران طبقاتی اور عالمی یکجہتی ایک انقلابی فریضہ بن جاتی ہے۔
اگر ایک طرف پاکستان سمیت روز دنیا بھر کے مختلف کونوں سے یکجہتی اور ایثار کی زبردست خبریں موصول ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حسب ِسابق حکمران طبقے اس بحران کی آڑ میں اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ کہیں ٹیکس دہندگان کی جیبوں سے نکلوایا گیا پیسہ سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکیج کی شکل میں دیا جا رہا ہے۔ تو کہیں پنا ہ گزینوں پر سرحدیں بند کی جا رہی ہیں۔ کہیں دوا ساز کمپنیاں دن رات کرونا کے خاتمے کے لئے وہ ویکسین بنانے میں لگی ہیں جسے بیچ کے وہ اربوں کما سکیں گی۔
جو معاملات اندرونی سطح پر ہیں، وہی صورتِ حال عالمی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خارجہ پالیسی آخر کار، داخلہ پالیسی کا ہی تو پر تو ہوتی ہے۔ اس کی ایک گھناؤنی مثال چار روز قبل ہونے والی وہ گوریلا یلغار ہے جو امریکہ اور کولمبیا نے مل کر وینزویلا کے خلاف کی۔ ایک سال کے عرصے میں دوسری مرتبہ امریکہ نے صدر مودورو کی منتخب حکومت گرانے کی کوشش کی ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی بولیویا میں صدر ایوو مورالس کی منتخب حکومت کے خلاف کامیاب بغاوت کراوئی گئی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کرونا بحران کے بعد امیر ممالک تیسری دنیا کے ممالک کی مدد کرتے۔ اتفاق سے چین کے بعد جو ملک سب سے پہلے متاثر ہوا وہ ایران تھا۔ یہ درست ہے کہ وہاں کے مذہبی جنونی حکمرانوں نے حقیقت کو چھپایا، صریحاً جھوٹ بولا۔ یوں معاملات بہت بگڑ گئے…اور یہی جھوٹ تو صدر ٹرمپ نے بھی بولا۔ بہت سے ملکوں کی حکومتیں، بشمول پاکستان کی مرکزی حکومت، اس بحران میں مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوئی ہیں۔
حکومتی غفلتوں کی سزا عوام کو نہیں دی جا سکتی۔ ویسے بھی یہ بات طے ہے کہ اگر کرونا دنیا کے ایک ملک میں ہے تو باقی بھی اس سے نہیں بچیں گے۔ کرونا بحران نے ماحولیاتی بحران کی طرح یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کرہ ارض کے مسائل سانجھے ہیں۔ انسانوں کو تقسیم کرنے کی بجائے انہیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری اور سامراجیت، مذہبی جنونیت کی طرح انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ سوشلزم کا انسان دوست اور ماحول دوست نظریہ انسانوں کو متحد کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس بحران نے پھر سے یہ ثابت کیا ہے کہ سوشلسٹ انٹرنیشنل ازم ہی انسانی مستقبل کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔
اسی انٹرنیشنل ازم کا تقاضا ہے کہ ہم کھل کر مطالبہ کریں: وینزویلا اورایران کے علاوہ کیوبا، شمالی کوریا، فلسطین (جس کا اسرائیل نے سالہا سال سے محاصرہ کر رکھا ہے) اور ایسے تمام ممالک کے خلاف پابندیاں ختم کی جائیں جو سامراج کی طرف سے لگائی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں کرونا بحران سے قبل بھی متعلقہ ممالک کے محنت کش طبقوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف تھیں۔ موجودہ بحران میں تو ان پابندیوں کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں پابندیوں کی مدد سے قتل عام کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
پابندیوں پر ہونے والی تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے کہ ان پابندیوں سے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عوام کی زندگی مصائب کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ پابندیوں کو بہانہ بنا کر عوام کے جمہوری حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ صدام کے عہد کا عراق یا اسد خاندان کی آمریت میں چلنے والا شام حتیٰ کہ ایران کا کیس بھی یہی ثابت کرتا ہے۔
یہ بھی کہ ان پابندیوں کا مقامی سرمایہ دار فائدہ اٹھاتے ہیں اوران سرمایہ دار طبقوں کے منافع میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ اگر پابندیوں کا مقصد کسی حکمران کو گرانا مقصود ہوتا ہے تو ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہاں البتہ ہر دفعہ پابندیوں کے نتیجے میں عوام کی زندگی ضرور اجیرن بنی ہے۔ اس لئے ہمارا سامراجی اقتصادی پابندیوں کے خلاف موقف باکل واضح ہے کہ نہ صرف یہ کرونا بحران کے دوران غلط ہیں بلکہ یہ سرے سے ہی غلط ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ایران، وینزویلا، کیوبا، شمالی کوریا یا پابندیوں کا شکار دیگر ممالک کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھتے…ہمیں کیوبا اور ایران کا فرق اچھے سے معلوم ہے۔ نہ ہی ان ممالک کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کامطلب ہے کہ ہم وہاں قائم حکومتوں کے حامی ہیں۔
ہم اگر کیوبا کے نظام اور حکومت کی تنقیدی حمایت کرتے ہیں تو ایرانی رجیم کے سخت مخالف ہیں۔ ہم ان ممالک کے خلاف سامراجی اقتصادی پابندیوں کے صرف اس لئے ہی مخالف نہیں کہ ان کا شکار وہاں کا محنت کش طبقہ بنتا ہے۔ بلکہ ہم اس لئے بھی ان پابندیوں کے خلاف ہیں کہ یہ پابندیاں ترقی پذیر ممالک میں سامراجی مداخلت کے مترادف ہیں۔
سامراجی مداخلت کسی بھی شکل میں ہو، محنت کش طبقے کی تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایران پر پابندیاں اگر جیو پولیٹیکل سیاست کا نتیجہ ہین تو کیوبا اور وینزویلا تو خالص نظریاتی بنیادوں پر مسلسل پابندیوں اور سبوتاژ کا شکار ہیں۔
کرونا وبا کے اس جنگی ماحول میں اس مداخلت کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں سے ہسپتال، ڈاکٹر، دوائی اور نرس کی خدمات چھین رہے ہیں۔ اس لئے ان پابندیوں کا خاتمہ ایک ایمرجنسی مطالبہ ہونا چاہئے۔ پاکستانی عوام کی جانب سے ایران، کیوبا، کوریا، فلسطین، شام اوروینزویلا کے محنت کش بہن بھائیوں کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ ہم آپ کو بھولے نہیں۔