عدنان فاروق
دنیا کے بعض ممالک بارے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے کرونا بحران کے دوران اچھے اور بر وقت اقدامات اٹھائے اور یوں دوسرے ممالک کے لئے ایسی مثالیں قائم کیں جن سے باقی دنیا سبق سیکھ سکتی ہے۔ ابتداً ایسے ممالک میں جنوبی کوریا اور جاپان کا نام لیا جا رہا تھا۔ چین، جہاں سے یہ وبا پھوٹی، نے بھی کامیابی سے اقدامات کئے مگر عالمی سرمایہ دار میڈیا بوجہ چین کے اقدامات کو سراہنے سے باز رہا۔
کچھ ممالک تھے جہاں قیادت نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اس کی اہم ترین مثال امریکہ، برازیل اور پاکستان ہیں۔ امریکہ تو اب قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں معجزے کا انتظار ہے۔ برازیل میں فوج، جو ایک لاڈلے کو لے کر آئی تھی، اب لاڈلے کو ہٹا کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جیر بولسونارو اس وقت محض کاغذی صدر ہیں۔
دریں اثنا، جوں جوں اس وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا توں توں مختلف ممالک کے ردعمل کا موازنہ کیا جانے لگا۔ سویڈن کی مثال دی جانے لگی کہ جہاں لاک ڈاؤن کی بجائے سکیل ڈاؤن کیا گیا۔ اب البتہ سویڈن کے طریقہ کار پر سوال اٹھنے لگیں گے کیونکہ دارلحکومت سٹاک ہولم میں نہ صرف اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے بلکہ مریضوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی طرح جن ممالک کی مسلسل تعریف کی جا رہی ہے ان میں جرمنی، نیوزی لینڈ، بلجیئم، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ڈنمارک ہیں۔ اسے روائتی یورو سنٹر ازم ہی کہا جا سکتا ہے کہ تائیوان کا نام نہیں لیا جا رہا۔ تائیوان نے بھی اچھے سے اس بحران کے ساتھ نپٹا ہے۔
اتفاق سے ان سب ممالک میں خواتین کی حکمرانی ہے۔
جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن تو وہاں ایک مسجد پر حملے کے بعد پاکستان میں بھی کافی مشہور ہوئیں تھیں کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح اظہار ہمدردی کیا اس نے پاکستان کے لوگوں کو متاثر کیا (کاش پاکستان کے حکمران بھی مذہبی اقلیتوں سے ایسا ہی سلوک کریں)۔ بلجیئم کی وزیر اعظم صوفی ویلمس ہیں۔ فن لینڈ کی وزیر اعظم ثنا مارین تو اس لئے بھی عالمی خبروں میں رہی ہیں کہ وہ نہ صرف دنیا کی نوجوان ترین وزیر اعظم ہیں بلکہ ان کی مخلوط حکومت میں پانچ کی پانچ جماعتوں کی سربراہ خواتین ہیں۔ آئس لینڈ کی وزیر اعظم کارتین یعقب دتر لیفٹ گرین تحریک سے تعلق رکھنے والی عام سیاسی کارکن رہی ہیں۔ ڈنمارک میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما میتے فریدرک سن وزیر اعظم ہیں۔ تائیوان میں سائی ایگ وین صدر ہیں۔
ان ممالک بارے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہسپتال کے عملے کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں بلکہ لوگوں کے معاشی و سماجی حقوق کا بھی خیال رکھا۔
اس تحریر میں میری دلیل ہرگز بھی یہ نہیں کہ مندجہ بالا ممالک میں اچھے اقدامات کی وجہ خواتین کی سربراہی ہے۔ مارگریٹ تھیچر کی سربراہی دنیا بھر کے لئے وبال ثابت ہوئی۔ مجھے دراصل پاکستان میں ہونے والا عورت مارچ یاد آ رہا ہے۔ ”میرا جسم میری مرضی“ پر اعتراض کرنے والوں سے صرف اتنا کہنا تھا کہ جہاں عورت کو اپنے جسم پر اپنی مرضی کا حق ملا، وہاں اس نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا ہے۔