پاکستان

پاکستانی جمہوریت: الیکشن اتنا مہنگا کر دو کہ عام آدمی لڑ ہی نہ سکے

ایوب ملک

آج پاکستانی سیاست غیر یقینی صورتحال کا شکا رہے۔ اشرافیائی جمہوریت کا دور دورہ ہے جبکہ غربت اور مہنگائی میں دن بدن ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ مظلوم اور محکوم طبقات کی کوئی شنوائی نہیں۔ سیاسی ارتقا میں اگر ہم کبھی ایک آدھ قدم آگے بڑھے ہیں جیسا کہ 1973 کا آئین، این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم وغیرہ تو کچھ ہی دنوں میں چار قدم پیچھے چلے گئے ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنے منشور میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا تصور دیا تھا اور خیال کیاجارہا تھا کہ ریاست عوام کو تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹیشن اور رہائش کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے قانون سازی کرے گی، چونکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اس لیے ہو سکتا تھا کہ عمران خان پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی جانب چل پڑتے لیکن عمران خان نے ان وعدوں کی جانب توجہ دینے کی بجائے پاکستانی عوام کو شدید مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔

خاص طور پر مزدوروں کی بے روزگاری، کسانوں کی زبوں حالی اور تیز سے تیزتر ہوتی ہوئی افراطِ زر کی شرح کی وجہ سے مفلسی اور بدحالی میں ہوشربا اضافہ ہوتاجارہاہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا کوئی ماحول نہیں ہے۔ آج وہ الیکٹیبلز جنہیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ق لیگ سے الگ کروا کر تحریک انصاف میں شامل کیاگیاتھا ان کی وفاداریوں پر شدید شک و شبہ کا اظہارکیاجارہاہے۔ ان تمام الیکٹیبلز کا تعلق اشرافیائی طبقے سے ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خود انہیں یا ان کے آباؤ اجداد کو اقتدار میں رہنے کا پیدائشی حق ہے کیونکہ نوآبادیاتی حکمرانوں نے آج سے تہتر سال پہلے یہ اقتدار عوام کی بجائے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور فوجی حکمرانوں کے حوالے ہی کیاتھا۔

ان الیکٹیبلز کا نظریہ صرف اقتدار میں رہنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھلونا بنے رہتے ہیں اور یوں سیاست ارتقائی مراحل طے کرنے کی بجائے مسلسل تنزلی کا شکار رہتی ہے۔ ان سیاستدانوں کا تعلق جس طبقے سے ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ عام آدمی کے مسائل سے واقف بھی نہیں ہوتے کیونکہ دو وقت کی روٹی کبھی خود کمائی نہیں ہوتی یوں وہ سیاست میں بامعنی طریقے سے اپنا کردار بھی ادا نہیں کرسکتے۔ عام آدمی تعلیم، صحت اور سوشل سکیورٹی کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ ان حالات میں ایسے لوگوں کا سیاست کرنا ضروری ہے جو سیاست کو ایک فریضہ سمجھتے ہوں اور دوسری طرف سے ان کی جڑیں سماج میں اتنی گہری ہوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤمیں آکر کبھی اپنی نظریاتی اساس نہ بدلیں۔ یقینا ایسا کرنے کے لیے لمبے دور کے لیے سیاسی ارتقا کی ضرورت ہے، یورپ نے اس سلسلے میں کئی سو سالوں کی ریاضت کی ہے۔میگنا کارٹا 1215ئمیں نافذ ہوا اس کے باوجود عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بیسویں صدی میں دیا گیا۔

پاکستان کی سیاست آج ایک معنی خیز انتخابی اصلاحات کی متقاضی ہے تاکہ عوام اور ریاست کے درمیان کوئی رشتہ استوار ہو سکے اور جمہوریت کے ثمرات آخر کار عوام تک منتقل ہو سکیں۔ ان حالات میں عام آدمی سیاست کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے اور ان جاگیرداروں و سرداروں کے رحم و کرم پر اپنی سماجی و سیاسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ یہ حالات ایک معنی خیز انتخابی اصلاحات کے متقاضی ہیں لیکن جن الیکٹیبلز نے یہ قانون سازی کرنی ہے وہ ان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ یاد رہے کہ آج پاکستان کی نناوے فیصد آبادی مزدوروں، کسانوں، ٹھیلے بانوں اور چھوٹے دکانداروں پر مشتمل ہے لیکن اس کے مقابلے میں ایک فیصد اشرافیہ نے ہماری سیاست کو چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے۔ جو دراصل ہمارے نوآبادیاتی دور کا تسلسل ہے۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے 2011ء میں ورکر پارٹی کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔ جس کا بنیادی مقصد ایسی انتخابی اصلاحات کے لیے قانون سازی کروانا تھا جس کی وجہ سے عام آدمی سیاسی عمل کا حصہ بن سکے۔ سپریم کورٹ نے آئینی پٹیشن2011/87 کے ذریعے ایک ایسا مفصل فیصلہ دیا جس سے انتخابی اصلاحات میں دور رس انتخابی تبدیلیاں لائی جاسکتی تھیں۔ اس فیصلے کی روح اس کا آرٹیکل 81 (G) ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن میں صرف انہی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے جو عام آدمی کی دسترس سے باہر نہ ہوں۔ اسی وجہ سے 2013ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے اخراجات کی حد پانچ لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے اخراجات کی حد دو لاکھ مقرر کی گئی لیکن 2018ء کے الیکشن سے پہلے قانون سازی کے ذریعے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے اخراجات کی یہ حد پانچ لاکھ سے بڑھا کر چالیس لاکھ اور صوبائی اسمبلی کی دو لاکھ سے بڑھا کر بیس لاکھ کردی گئی۔

یہاں تک بھی ان کا دل نہ بھرا اور انہوں نے اپناتن من دھن ایسی قانون سازی میں لگا دیا کہ آئندہ کوئی لیبر لیڈر، کوئی کسان لیڈر اور کوئی طالب علم لیڈرالیکشن میں حصہ لینا تو کجا الیکشن کی درخواست بھی نہ جمع کرا سکے۔ یعنی کہ عام آدمی کے نمائندے اب میدان میں اتر ہی نہ سکیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کاغذات جمع کرانے کی فیس جوکہ بالترتیب پہلے چار ہزار اور دوہزار روپے تھی اسے بڑھا کرتیس ہزار اور بیس ہزارروپے کردیا گیا۔ اس سے پہلے سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کرانے کی کوئی فیس نہیں ہوا کرتی تھی اور دو ہزار اٹھارہ میں یہ فیس دولاکھ روپے کر دی گئی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ حالانکہ یہ قانون سازی آئین کے آرٹیکل 17 اور سپریم کورٹ کے فیصلے2011/87 سے متصادم ہے۔

بہت سارے ممالک میں سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کی تعداد کے مطابق الیکشن کمیشن کو فیس ادا کرتی ہیں اور یوں الیکشن کمیشن ہرحلقے میں ایک مخصوص جگہ پرعوام کے سامنے امیدواروں کو اکھٹا کرکے میڈیا کی موجودگی میں پارٹی کے منشور کی تشہیر کرنے کا بندوبست کرتا ہے۔ ان ممالک میں امیدواروں کو جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں ہوتی یوں سیاسی اخراجات مناسب سطح پر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ان جمہوری روایتوں کو پروان چڑھنا چاہیے تاکہ پورا سماج سیاسی عمل کا حصہ بن سکے۔

پاکستان میں کئی حلقوں میں سیاسی پارٹیاں معاہدہ کرکے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھتی ہیں۔ موجودہ انتخابی اصلاحات میں کہا گیا ہے کہ جس حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد دس فیصد سے کم ہوئی تو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا کہ ایسا کسی معاہدے کے تحت تو نہیں ہوا۔ اور اگر ایسا ثابت ہو گیا تو الیکشن کمیشن متعلقہ حلقے کے الیکشن کو کالعدم قرار دے دے گا۔ سول سوسائٹی کا خیال ہے کہ دس فیصد سے کم ووٹوں کی تعداد ہونے پر ایسے انتخابات کو فوری طور پر کالعدم قراردیا جانا چاہیے اور مزید تحقیقات کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں خواتین کو انتخابی عمل میں شریک کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو ’FM‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینل کا اجرا بھی کرنا چاہیے جونہ صرف خواتین کے ووٹ ڈالنے کی اہمیت کو اجاگر کرے بلکہ عام آدمی کو بھی سماجی تبدیلی کا محرک ہونے کے ناطے سیاسی عمل میں شرکت کے شعور سے آگاہ کرے۔

سیاسی حلقوں کا ایک مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ بارڈر سے متصل حلقوں اور ان علاقوں میں جہاں پولیٹیکل ایجنٹس ریاستی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں وہاں آزادانہ الیکشن ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی بھی اصلاحاتی عمل میں ان حلقوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور یوں مخصوص ریاستی ادارے اپنی صوابدید کے مطابق ان علاقوں میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جتوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن ان دور دراز حلقوں میں الیکشن عملے کی نامزدگیاں خود کرے تاکہ عوام کو ان نتائج پر بھروسہ ہوسکے۔

73 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پارہے اور نہ ہی ریاست کا عام آدمی سے کوئی معنی خیز رشتہ قائم ہوسکا ہے۔ جس کی ایک اہم وجہ اشرافیہ کا جمہوریت، سیاست اور انتخابی عمل پر قابض ہونا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کی پٹیشن 2011/87 پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کروا کر عام آدمی کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنایا جاتا اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات عام آدمی کی زندگی بدلنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔

Ayub Malik
+ posts

ایوب ملک ترقی پسند سیاست کرنے والے ایک سیاسی کارکن، ناشر اور کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوتے ہیں۔