پاکستان

نجی تعلیمی ادارے: سلیبس خرید کر تدریس خود کریں، فیس ہمیں دیں

حارث قدیر

کورونا ہیلتھ ایمرجنسی کی وجہ سے پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر سمیت پورے پاکستان میں تعلیمی اداروں میں تعطیلات کی گئی ہیں۔ لیکن آن لائن اور سلیبس ترتیب دینے کے ذریعے تعلیم کی فراہمی کے مختلف طریقوں پرعمل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ تا کہ منافعوں کا حصول بھی ممکن ہو سکے اور حکومتی اخراجات بھی ضائع ہونے سے بچائے جا سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں تعلیمی اداروں کی ایک بڑی اکثریت آن لائن تعلیم دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ آن لائن تعلیم میں مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے، جن میں تکنیکی بھی ہیں، ٹیکنالوجی کی سوجھ بوجھ کا فقدان بھی ہے اور انٹرنیٹ کی سہولت کی عدم دستیابی اور مہنگا ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

تکنیکی طور پر وہ انفراسٹرکچر ہی کسی تعلیمی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے جس کے ذریعے سے آن لائن تعلیم کا سلسلہ رواں رکھا جا سکے۔ جبکہ ٹیکنالوجی کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے محض واٹس ایپ یا سکائپ کی کال کے ذریعے تعلیم کی فراہمی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک بچے کی تعلیم کیلئے پورے پورے گھر کو کئی گھنٹے کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اکثریتی علاقوں میں انٹرنیٹ کی ٹو جی سروس بھی دستیاب نہیں ہے، جس پر ٹیکسٹ میسجز بھیجنا بھی ممکن نہیں ہے، ویڈیو یا آڈیو کال کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تھری جی اور فورجی سروس فراہم کی جا رہی ہے وہاں بھی بمشکل آڈیو کال ممکن ہو سکتی ہے اور تعلیمی ادارے ویڈیو کالز کے ذریعے آن لائن تعلیم کی فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی بھی جامعہ، کالج یا سکول سسٹم کوئی ایسی ایپلی کیشن ڈیزائن نہیں کروا سکا جس کے ذریعے سے بچوں کو آن لائن تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

اس کے علاوہ ایک طریقہ سلیبس ترتیب دے کر بچوں کو فراہم کئے جانے کا بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔ ہر ماہ والدین کو سکولوں میں بلایا جاتا ہے اور ایک سلیبس مرتب کر کے انہیں فراہم کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی فیسوں کی ادائیگی کیلئے چالان فارم بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ سلیبس کے ذریعے تعلیم دینے کے اس منصوبے کو بھی کمائی کا ایک ذریعے بنا دیا گیا ہے۔ فیسیں پوری وصول کرنے کے باوجود والدین کو مخصوص فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں کا پتہ فراہم کیا جاتا ہے کہ وہاں سے سلیبس حاصل کریں۔ والدین کو فیسیں بھی ادا کرنی پڑتی ہیں اور سلیبس کیلئے الگ سے رقم کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ اس سلیبس سے بھی وہ بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جن کی مائیں پڑھی لکھی ہیں اور وہ بچوں کو پورا وقت دے سکتی ہوں۔

نجی سکولوں کے ذمہ داران بغیر کوئی اخراجات کئے پوری فیسیں وصول کر رہے ہیں جبکہ سلیبس کیلئے بھی الگ سے رقم حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن والدین اگر اس سلیبس سے بچوں کو پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو انہیں الگ سے ٹیوشن لگوانا پڑتا ہے، جس کیلئے الگ سے فیس ادا کی جا رہی ہے۔ اس طرح لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی سال کو جاری رکھنے کے عمل نے والدین کو ایک شدید اذیت اور کوفت میں مبتلا کر دیا ہے۔ کئی والدین اپنے بچوں کو خود ہی ایک سال کیلئے ڈراپ کرنے پر مجبورہو چکے ہیں۔

نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل خسارے میں ہیں، چالیس فیصد سے بھی کم طلبہ کی فیسیں موصول ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے سلیبس کی تیاری اور فوٹو کاپیوں کے اخراجات وہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے والدین کو یہ اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

حکومت نے اس مسئلہ پرمکمل طور پر لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ پراپرٹی مالکان نے کرایہ جات میں نصف کمی کا اعلان تو کیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح حکومت نے طلبا و طالبات کو درپیش مسائل کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی مرتب نہیں کی ہے۔

والدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے پر ترجیحی نوٹس لے، لاک ڈاؤن میں مکمل نرمی ہونے تک والدین کو درپیش ان مسائل کے تدارک کے حوالے سے اقدامات کرے، تعلیمی سال کو منجمد کیا جائے، ہر طرح کی فیسوں کی وصولی پر پابندی عائد کی جائے، استادوں کو حکومت اور سکول کی انتظامیہ تنخوائیں دیں، آئندہ سال سے رواں تعلیمی سال کو دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ والدین جب بچوں کو سکول بھیجیں اسی وقت سے فیسوں کی ادائیگی کا بوجھ ان پر پڑے اوروہ آسانی سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے قابل ہو سکیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔