پاکستان


سٹیل مل کا مقدر؟

اس ملک کی تمام صنعت، زراعت اور اقتصادیات کو ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے منصبوبہ بند معیشت میں استوار کرکے منافع خوری اور کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

فرسٹ جنریشن وارفیئر

دراصل پہلی بار اگر کوئی غیر ملکی سفید فام خاتون پاکستانی سیاست میں اہم کردار بن کر ابھریں تو وہ برطانوی ماڈل کرسٹین کیلر تھیں جن کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوا۔

ڈیتھ اسکواڈز کے خلاف بلوچستان سراپا احتجاج

ایسی کاروائیاں بلوچستان میں روز کا معمول ہیں لیکن ریاستی آشیرباد کی وجہ سے یہ لوگ تمام تر قانونی گرفت اور پابندی سے مبرا ہیں۔ ان گروہوں کے خلاف عوامی غم و غصہ بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ ڈکیتی کی واردات نے اس عمل انگیز کا کردار ادا کیا جس سے تمام بلوچ علاقوں، حتیٰ کہ کراچی تک اس واق

یہ پی ٹی آئی ایم ایف کی حکومت ہے!

حالات کچھ بھی ہو جائیں حفیظ شیخ اور رضا باقر اپنے حقیقی مالکوں کو پیسے دینے نہیں بھولتے۔ جب ملک میں کرونا وائرس ہر طرف پاؤں پھیلا رہا ہے، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف حفاظتی اقدامات نہ ہونے پر کرونا کا شکار ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں بھی حفیظ شیخ اور رضاباقر کی جوڑی نے اس ماہ عالمی مالیاتی اداروں کو 278 ارب روپے (1.7 ارب ڈالر) غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے نام پر باہر بھیج دئیے ہیں۔

پاکستان سٹیل ملز: بے مثال ادارے کی تباہی کی داستان اور لائحہ عمل

یہاں پر عالمی اجارہ داریوں کیلئے منڈی کو منافع بخش بنانے اور مقامی صنعتوں، خدمات کے اداروں اور کارخانوں کو خوفناک طریقوں سے بربادی کے دہانے پر پہنچا کر پھر پروپیگنڈا کیا گیا کہ پبلک سیکٹر اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ متذکرہ اداروں کو چلاسکے، لہذا اسکی نجکاری کی جائے یا اسکو مکمل بند کردیاجائے۔

حکمرانوں کی ’یادِ ماضی‘ کے خلاف جنگ: یومِ ٹکر نہیں یومِ تکبیر، ’سقوطِ ڈھاکہ‘ نہیں اے پی ایس

حکمرانوں کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ انقلابی واقعات، باغی شخصیات، بغاوتوں، مزاحمتوں اور عوامی شہیدوں کا تاریخ کی کتابوں سے ذکر گول کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مطالعہ پاکستان میں بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس یا حسن ناصرکا ذکر کبھی نہیں ملے گا۔