پاکستان

ڈاکٹر مریم چغتائی کی خطرناک سیاست

فاروق سلہریا

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مریم چغتائی یکساں قومی نصاب کے حوالے سے جاری بحث کی وجہ سے قومی سطح پر ایک جانا پہچانا نام بن گئی ہیں۔ وہ چونکہ یکساں قومی نصاب بنانے والی کمیٹی کا حصہ تھیں (جس کا مقصد ان کے اپنے بقول طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ نہیں)… بظاہراس لئے وہ مختلف پلیٹ فارمز پر اس تعلیم دشمن نصاب کا دل و جان سے دفاع یوں کرتی آئی ہیں گویا وہ حکومت کی نمائندہ ہوں۔

ترقی پسند حلقوں میں ان کا پروفیسر پرویز ہودبھائی کے ساتھ مباحثہ اور آن لائن چینل’مقدمہ‘ میں لمز کے ہی علی عثمان قاسمی کے ساتھ مکالمہ کافی زیر بحث رہا (میں اس مضمون میں انہی دو پروگراموں کا حوالہ دوں گا)۔

ان دونوں پروگراموں میں جو بات انتہائی غور طلب تھی، وہ ڈاکٹر مریم چغتائی کی سیاست تھی۔ بد قسمتی سے ان کی سیاست موقع پرستی اور بے اصولی سے عبارت ہے۔ یہ کہ وہ ایک اکیڈیمک ہیں، ان کی بے اصولی اور موقع پرستی اس کو مزید خطرناک بنا دیتا ہے کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ بحث کے جو داؤ پیچ استعمال کر رہی ہیں وہ بد نیتی پر مشتمل ہیں۔ ان کی سیاست کے حوالے سے میں تین اہم باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

۱۔ ڈاکٹر مریم کی ’جمہوریت پسندی‘

اؤل: وہ یکساں قومی نصاب کی اسلامائزیشن کا دفاع کرنے کے لئے جمہوریت کا سہارا لیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نصاب بنانے والی کمیٹی ایک جمہوری کمیٹی تھی کیونکہ اس میں چاروں صوبوں سے چار ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ اسی طرح ہر فرقے اور مذہب کو بھی نمائندگی دی گئی۔ دوسری جانب (جو نظریہ جمہوریت کا زیادہ خطرناک استعمال ہے)، ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی اکثریت اپنے بچوں کو قرآن اور حدیث کی تعلیم دینا چاہتے ہے۔ پرویز ہودبھائی کو ایک موقع پر وہ کہتی ہیں کہ آپ سیاسی جماعت بنائیں اور دیکھیں آپ کو (سیکولر تعلیم کے لئے) کتنے ووٹ ملتے ہیں۔

’مقدمہ‘ میں تو وہ نصاب کی اسلامائزیشن کا دفاع کرتے ہوئے تھوڑی سی ’سوشلسٹ‘ بھی ہو جاتی ہیں اور یہ ’طبقاتی پہلو‘ بھی اجاگر کرتی ہیں کہ’قرآن سب ہی پڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ قاری صاحب کی فیس الگ اور اسکول کی فیس الگ سے نہیں دے سکتے‘(بے چارے ماں باپ جب اسکولوں، ڈاکٹروں اور بچوں کے ٹیسٹ کرانے کے لئے پرائیویٹ لیب کی فیس دیتے ہیں تو ڈاکٹر صاحبہ کے سوشلسٹ جذبات کیا ہوتے ہیں، ابھی تک انہوں نے واضح نہیں کیا)۔

یکساں قومی نصاب جیسے تعلیم دشمن اقدام کے دفاع میں جس طرح ڈاکٹر صاحبہ نے جمہوریت کے خیال کا استعمال کیا ہے، وہ کسی بھی دانشوارانہ اور اکیڈیمک معیار کے مطابق ایک شرمناک مذاق ہے۔ ڈاکٹر مریم چغتائی جس جمہوریت کا واویلا کر رہی ہیں، اسے میجاریٹیرین ازم (Majoritarianism) کہا جاتا ہے۔ بطور سکالر انہوں نے لبرل جمہوریت کے بنیادی خدوخال ضرور پڑھے ہوں گے اور کچھ نہیں تو امریکہ میں رہ کر انہیں یہ اندازہ ضرور ہوا ہو گا کہ لبرل جمہوریت میں فیصلے چاہے اکثریت کی مرضی سے ہوں، اقلیت کے کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ سب سے بنیادی حق یہ ہے کہ آپ اقلیت سے امتیازی سلوک نہیں کر سکتے۔ مزید یہ کہ اقلیت کی جان، مال اور شخصی آزادی کو پامال نہیں کیا جا سکتا (شائد یہی وجہ ہے کہ ’مقدمہ‘ میں ڈاکٹر صاحبہ احمدیوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب ہی نہیں دیتیں۔ اس ضمن میں یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ امریکہ میں اسلاموفوبیا پر ان کا کیا موقف ہے)۔

مثال کے طور پرمودی جیسا مذہبی جنونی سو فیصد ووٹ لے کر بھی آ جائے تو بھی اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام یا ہندوستان سے ان کے اجتماعی اخراج کا ’قانون‘ بنا دے۔ مریم صاحبہ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے کا نام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مضبوط اور کمزور جمہوریت، کم اور زیادہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔

دنیا میں کئی تھینک ٹینک ڈیموکریسی انڈیکس تیار کرتے ہیں۔ ایسے انڈیکس بتاتے ہیں کہ اسکینڈے نیویا کے ممالک میں زیادہ جمہوریت ہے۔ ہندوستان، سری لنکا اور پاکستان جیسے ممالک اس انڈیکس میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں پاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اقلیت (یعنی کسی بھی قسم کی حزب اختلاف، وہ پارلیمان میں ہو یا اس سے باہر) کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ جمہوری اصولوں کے مطابق تعلیم اور ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے۔ اگر آپ امتیازی سلوک روا رکھیں گے تو آپ جمہوری نہیں ہو سکتے۔ امتیازی سلوک ختم کئے بغیر جمہوریت ممکن نہیں اور جمہوریت بغیر سیکولرازم کے ممکن نہیں۔ ہمارے انتہائی محترم ماہر تعلیم اے ایچ نیئر صاحب نے تو ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ نصاب کی اسلامائزیشن پاکستانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

رہی یہ بات کہ چار ہزار لوگ نصاب بنانے میں شامل ہوئے تھے۔ تو ہمیں پوچھنا تھا: بائیس کروڑ کے ملک میں چار ہزار جمہوریت کہلاتی ہے؟ وہ بھی ایک ایسی حکومت کے نامزد کردہ چار ہزار جو خود جعلی ووٹوں کی پیداوار سمجھی جاتی ہے؟

ویسے نصاب بنانا ماہرین کا کام ہے۔ سائنس اور منطق’جمہوریت‘…وہ بھی میجاریٹیرین جمہوریت… کو نہیں مانتے۔ سائنس او رمنطق میں دلیل کو بھگوان مانا جاتا ہے۔ نظام تعلیم کو سائنسی اور منطقی اصولوں کے مطابق ترتیب دینا چاہئے۔ یہ فیصلہ جمہوری انداز میں نہیں لیا جا سکتا کہ زمین گول ہے یا چپٹی۔

یقین کیجئے اس مسئلے پر ہم عصر پاکستان میں کسی بھی جمہوری ریفرنڈم میں مدنی چینل والے نیشنل جیوگرافک سے با آ سانی جیت جائیں گے۔ یہ ہی وہ نقطہ ہے جس پر دانشور طبقے، انقلابی جماعت اور محکوم طبقے کی قیادت کو انقلابی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

یورپ میں بھی زمین کو گول کہنے والے ایک اقلیت تھے مگر وہاں ’یکساں قومی نصاب‘ بنانے والوں نے ہمارے موقع پرستوں والا کردار ادا نہیں کیا۔ گویہ جمہوری حق آج بھی آپ کو یورپ میں حاصل ہے کہ آپ زمین کو چپٹا کہیں۔ آپ کو جیل نہیں بھیجا جائے گا مگر یہ حماقت اسکول کے نصاب میں داخل نہیں کی جا سکتی نہ ہی کوئی استاد طلبہ کو ایسی فضولیات پڑھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے مراعات یافتہ لوگ پی ایچ ڈی کرنے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کو مدرسے نہیں بھیجتے۔

۲۔ ڈاکٹر مریم چغتائی کا ’مذہب کارڈ‘

دوم: اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے ڈاکٹر چغتائی بار بار مذہب کا کارڈ استعمال کرتی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں توہین کے نام پر ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر اپنے پولیس محافظ کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے اور لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو…ایک اکیڈیمک بار بار، جمہوریت کے لبادے میں، مذہب کو بیچ میں لے آئے تو یہ بے اصولی اور موقع پرستی کی سیاست سے زیادہ تشدد پر اکسانے والی صورت حال بن جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ انہیں اس کا اندازہ نہیں۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ’مقدمہ‘کے دوران جب علی عثمان قاسمی ان سے احمدیوں بارے سوال کرتے ہیں، وہ جواب گول کر جاتی ہیں۔ ’مقدمہ‘جیسے چینل پر بھی اس موضوع کے حساس پن کا اندازہ لگائیے کہ علی عثمان قاسمی بھی احمدیوں کا نام لئے بغیر احمدیوں کاذکر، اشاروں کنایوں میں، کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ناظرہ قرآن کو نصاب میں شامل کرنے پر بار بار یقین دلاتی ہیں کہ تمام فرقے اس پر راضی ہیں، وہ یہ نہیں بتاتیں کہ بلاسفیمی قانون کا اطلاق بچوں پر ہو گا؟ ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایک بچے نے بلاسفیمی کی تہمت دھونے کے لئے، گاؤں کے مولوی صاحب کے کہنے پر اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تھا۔

۳۔ ڈاکٹر مریم شبلی فراز کے روپ میں

ایک موقع پر…بحث کے بودے داؤ پیچ لگاتے ہوئے…ڈاکٹر مریم چغتائی پاکستان میں آزادی اظہار پر شرمناک پابندیوں کا یہ کہہ کر دفاع کرتی ہیں کہ مغرب میں بھی تو یہودیوں کی نسل کشی کا انکار کرنے پر پابندی ہے اور ایسا کرنے پر قانونی سزا موجود ہے۔

ملک میں جبر کا دفاع کرنے کے لئے یہ بے پر کی دلیل اکثر پیش کی جاتی ہے۔ آئیے ذرا اس دلیل کی حقیقت بھی دیکھ لیتے ہیں کیونکہ یہ دلیل پاکستان کی ایک ایسی اکیڈیمک دے رہی ہیں جن کے ہاتھ میں ہمارے بچوں کی ذہن سازی کا فریضہ لگایا گیا ہے:

پہلی بات: اس قانون کے تحت جھوٹ بولنے پر پابندی ہے، سچ بولنے پر نہیں۔ پاکستان میں سچ بولنے پر ویگو ڈالے آتے ہیں۔ جھوٹ تو دل کھول کر ہر روز شام تما م ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے۔ یورپ میں روز اس قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کبھی کبھار کوئی گرفتاری بھی ہو جاتی ہے مگر ویگو ڈالے کسی جمہوری ملک میں نہیں بھیجے جاتے (ایک ثانوی سی بات: اگر تو ڈاکٹر مریم یہ سمجھتی ہیں کہ ہولوکاسٹ ایک جھوٹ ہے تو کسی دن اس جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لئے دانش گاہِ ہارورڈ کے کسی پلیٹ فارم پر مقالہ پیش کر کے دکھائیں)۔

دوم: اس قانون کا مقصد اقلیت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد نسل کشی جیسے انسانیت سوز جرم کی راہ روکنا ہے۔ یہ قانون طاقت ور کے خلاف ہے، کمزور کے خلاف نہیں (اس کے باوجود راقم اس قانون کے خلاف ہے مگر تفصیلات سے بچنے کے لئے یہ بحث پھر کبھی سہی)۔ بنائیے پاکستان میں قانون جس کا مقصد اقلیتوں بارے جھوٹ پھیلانے پر پابندی ہو، پاکستانی سیاق و سباق میں پوری حمایت کروں گا۔

سوم: یہودیوں کی نسل کشی کے انکار کا قانون سولہ ملکوں میں ہے۔ امریکہ میں نہیں۔ ڈاکٹر مریم امریکہ کا گول مول ذکر کرتی ہیں اور یہ تاثر دیتی ہیں کہ گویا امریکہ میں بھی یہ قانون موجود ہے لیکن بات بڑھانے سے قبل ایک چھوٹا سا واقعہ۔

مشرف آمریت کے دور میں مشرف کے کسی وزیر نے بیان دیا کہ جرنیل سیاست دانوں کے کہنے پر ہی سیاست میں آتے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم نے جواب میں کہا: جرنیل سیاست میں سیاست دانوں کے کہنے پر آ تو فوراً جاتے ہیں مگر سیاست دانوں کے کہنے پر سیاست سے جانے میں دس دس سال لگا دیتے ہیں۔

ڈاکٹر مریم جیسے حکما ہر جبر کو جواز مہیا کرنے کے لئے مغرب کے کسی ملک سے کوئی نہ کوئی بری مثال ڈھونڈھ لائیں گے مگر مغرب میں ڈیڑھ سو اچھی باتیں بھی تو ہیں، ان کا اطلاق پاکستان میں مگر حرام ہے۔

چہارم: جو نقطہ اوپر جمہوریت کے ضمن میں بیان کیا گیا، وہ دوبارہ آزادی اظہار اور ہولوکاسٹ والے قانون بارے بھی پیش خدمت ہے: ویگو ڈالے میں ’لاپتہ‘ہونے اور مغرب میں دو ماہ کی جیل کاٹنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس لئے میڈیا ماہرین ہر سال میڈیا فریڈم بارے انڈیکس جاری کرتے ہیں۔ ’مینوفیکچرنگ کونسینٹ‘کے شہرہ آفاق مصنفین بھی یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ پاکستانی میڈیا اور امریکی میڈیا کو ایک جیسی آزادی حاصل ہے۔ نوم چامسکی اس بات پر خوش ہیں کہ وہ امریکہ میں رہتے ہیں۔

یہ کہنا کہ پاکستان میں آزادی اظہار اور مغرب میں آزادی اظہار کا پیمانہ ایک ہی ہے، ایسا دعویٰ شبلی فراز اور ان کا باس تو کر سکتا ہے مگر کسی اکیڈیمک کے منہ سے ایسا دعویٰ کرنے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں ہارورڈ یونیورسٹی کی بہت بری مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔