ریاستی وسائل صنعت اور صنعت کے لئے ضروری انفراسٹرکچر (مثلاً تعلیم، صحت، خوراک، توانائی، سڑکیں، ریل، پل) بنانے کی بجائے یہ وسائل ایسے رنگ روڈ، موٹروے، ائر پورٹ بنانے پر خرچ ہو رہے ہیں جن سے نام نہاد پراپرٹی ڈیولپرز فائدہ اٹھا سکیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ریاست ترقیاتی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں یہ نام نہاد پراپرٹی ڈیلرز یا تو سیاسی قیادت کو خرید لیتے ہیں یا براۂ راست حکومت کا حصہ ہیں۔ اگر ملک ریاض نے بھٹو خاندان کو بلاول ہاؤس کا تحفہ دیا تو عمران خان اور نواز شریف کے لئے بھی ان کی بے شمار خدمات ہیں۔ پھر علیم خان جیسے کردار بھی ہیں۔ کوئی بڑا چھوٹا سیاستدان نہیں جو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں نہ ہو۔ ریاستی وسائل کی تقسیم کا فیصلہ چونکہ انہی لوگوں نے کرنا ہوتا ہے اس لئے رنگ روڈ کا منصوبہ ابھی اخبار کی سرخی بھی نہیں بنتا مگر مجوزہ رنگ روڈ کے ارد گرد زمین بک چکی ہوتی ہے۔ اس عمل کے نتائج اگلے نقطے میں بیان کئے جا رہے ہیں۔
