فاروق سلہریا
پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا شہر اریب قریب کے دیہات اور قصبوں کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ کسی سے بھی بات کرو، اگر جیپ میں چند روپے ہوں تو وہ ’پراپرٹی‘ اور ’فائلیں‘ خریدتا بیچتا دکھائی اور سنائی دے گا۔ رئیل اسٹیٹ کے ’کاروبار‘ کے نام پر ملکی زراعت، ماحولیات اور سیاست کی تباہی تو ہو ہی رہی ہے…ملکی معیشت کے لئے بھی مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر یہ ’کاروبار‘ کسی خود کش حملے سے کم نہیں:
۱۔ معاشی ترقی کی بجائے تباہی
ریاستی وسائل صنعت اور صنعت کے لئے ضروری انفراسٹرکچر (مثلاً تعلیم، صحت، خوراک، توانائی، سڑکیں، ریل، پل) بنانے کی بجائے یہ وسائل ایسے رنگ روڈ، موٹروے، ائر پورٹ بنانے پر خرچ ہو رہے ہیں جن سے نام نہاد پراپرٹی ڈیولپرز فائدہ اٹھا سکیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ریاست ترقیاتی منصوبہ بندی میں کردار ادا کرے۔ ہمارے ہاں یہ نام نہاد پراپرٹی ڈیلرز یا تو سیاسی قیادت کو خرید لیتے ہیں یا براۂ راست حکومت کا حصہ ہیں۔ اگر ملک ریاض نے بھٹو خاندان کو بلاول ہاؤس کا تحفہ دیا تو عمران خان اور نواز شریف کے لئے بھی ان کی بے شمار خدمات ہیں۔ پھر علیم خان جیسے کردار بھی ہیں۔ کوئی بڑا چھوٹا سیاستدان نہیں جو رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں نہ ہو۔ ریاستی وسائل کی تقسیم کا فیصلہ چونکہ انہی لوگوں نے کرنا ہوتا ہے اس لئے رنگ روڈ کا منصوبہ ابھی اخبار کی سرخی بھی نہیں بنتا مگر مجوزہ رنگ روڈ کے ارد گرد زمین بک چکی ہوتی ہے۔ اس عمل کے نتائج اگلے نقطے میں بیان کئے جا رہے ہیں۔
۲۔ ملکی دولت میں اضافے کی بجائے عدم مساوات میں اضافہ
جب عالمی معاشی نظام سرمایہ دارانہ اصولوں پر چلتا ہے تو کسی ملک میں دولت کے اضافے کا بڑا سبب برآمدات ہی ہوتی ہیں۔ اگر تو خلیجی ممالک کی طرح تیل نکل آئے تو الگ بات ہے (ویسے وہاں بھی محض تیل کی وجہ نہیں، سیاسی وجوہات بھی ہیں) ورنہ برآمدات پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔ برآمدات بھی وہ جو ’Knowledge Intensive‘ ہوں یعنی زرعی پیداوار، معمولی صنعتی سہولتوں (مثلا ٹیکسٹائل وغیرہ) کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہونے والی صنعتی پیداوار جس کی ایک اہم مثال موبائل فون اور کمپیوٹر ہیں۔ ایسی مصنوعات کو ویلیو ایڈڈ گڈز بھی کہا جاتا ہے۔ جب صنعت کی بجائے پراپرٹی کا کاروبار ہو رہا ہو تو درآمدات تو بڑھتی ہیں، برآمدات نہیں۔ مزید: جب پلاٹ بیچنے خریدنے میں زیادہ منافع ملے گا تو سر مایہ دار ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائے گا نہ کہ مل لگائے گا۔ اگر ملک ریاض جیسے لوگ اپنی دولت بیرون ملک نہ بھی بھیجیں، محض اس وجہ سے معیشت بحران کا شکار ہونے لگتی ہے کہ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ برآمدات ہوتی نہیں، درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ گھر کے فرش اور دروازے کے لئے لکڑی تک امپورٹ ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت چند ہاتھوں میں جمع ہونے لگتی ہے۔ دوسری جانب، ہزاروں لاکھوں لوگ زندگی بھر کی کمائی ایک چھت کے لئے کھو دیتے ہیں۔ یوں عدم مساوات مزیدبڑھ جاتی ہے۔ اگر ریاست لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دے رہی ہو تو یہ عدم مساوات جنم نہ لے۔ پھر یہ کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے مستقل آمدن والی نوکریاں پیدا نہیں ہوتیں۔ دیہاڑی دار کنسٹرکشن ورکرز خون بیچ کر چند سال روٹی کماتے ہیں اور وقت سے پہلے قبر میں جا لیٹتے ہیں۔
۳۔ زراعت کی تباہی
جس طرح رئیل اسٹیٹ معیشت کے دیگر پہلو ؤں پر کوئی تحقیق دستیاب نہیں اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنا زرعی علاقہ رئیل اسٹیٹ مافیا ہڑپ کر چکا ہے مگر عام مشاہدے کی بات ہے کہ لاکھوں ایکڑ شاداب اور ہری بھری کھیتی کنکریٹ کے جنگل میں بدل گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ گندم تو کیا مٹر اور ٹماٹر بھی امپورٹ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بحران بڑھتا جائے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ در آمد ہونے والی ہر چیز سے پاکستان غریب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسان ہمیشہ کے لئے با عزت روزگار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر افقی طور پر بڑھتے۔ جدید فلیٹس پر مبنی بلاک بنائے جاتے۔ روایتی گھروں کی تعمیر پر پابندی لگائی جاتی۔ ہو یہ رہا ہے کہ دو دو کنال کے گھر بنتے ہیں۔ پھر لاہور جیسے شہروں میں ایل ڈی اے تین منزلہ سے بڑا گھر بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی یہی کرتی ہیں۔ جان بوجھ کر زراعت کو تباہ کیا گیا ہے۔ گو کچھ قوانین موجود ہیں کہ زرعی زمین کو نہیں چھیڑا جائے گا مگر، ملک ریاض کے بقول، ایسے قوانین سے نپٹنے کے لئے فائل کو پہئے لگا دئے جاتے ہیں۔
۴۔ ماحولیات کی تباہی
جب زرعی زمین پر کنکریٹ کا جنگل بن جائے گا، درخت کٹ جائیں گے تو سموگ بھی بڑھ جائے گا۔ یہی نہیں، جس طرح سے پاکستان میں تعمیرات کا شعبہ کام کرتا ہے، اس کے نتیجے میں ماحولیات کا تو جنازہ نکل جاتا ہے۔ تعمیرات کا شعبہ پاکستان میں آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
۵۔ عدم جمہوریت اور بدعنوانی کا فروغ
پراپرٹی کے کاروبار میں فوج (بری، بحری، فضائی) بھی شامل ہے۔ ہم نے سیاستدانوں اور ملک ریاض یا علیم خانوں کا ذکر تو اوپر کر دیا لیکن یہ قصہ فوجی بھائیوں کے ذکر خیر کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ فوج کے کاروبار ہی سیاست میں مداخلت کی اہم وجہ بن چکے ہیں۔ جنرل باجوہ جب یہ کہتے ہیں کہ فوج کو اب سیاست میں دلچسپی نہیں تو از راہ ِتفنن انسان جواب دے سکتا ہے کہ جنرل صاحب! فوج اب سیاست میں نہیں معیشت میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس ’دلچسپی‘ کا نتیجہ سول ملٹری تعلقات پر بھی پڑتا ہے اور بد عنوانی بھی بڑھتی ہے (تھوڑے کہے کو زیادہ جانیں)۔ اس گھن چکر کے نتیجے میں موجودہ سیاسی نظام کی ری پروڈکشن ہوتی ہے۔ یہ از سر نو جنم لیتا ہے۔ یہ سیاسی نظام محنت کش کو ووٹ (خرید و فروخت، الیکٹ ایبلز، دھاندلی کے ذریعے) کی حقیقی طاقت اور دیگر جمہوری حقوق (یونین سازی، احتجاج، حق رائے آزادی) سے بھی محروم رکھتا ہے۔ جب تک محنت کش اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہے، روٹی سے بھی محروم رہے گا۔
یو ں سمجھئے بحریہ میں جب ایک پلاٹ بکتا ہے تو ساتھ ہی ایک کسان خاندان، ایک مزدور کنبے اور ایک سفید پوش گھرانے کا مستقبل بھی بک جاتا ہے۔ حال تو ان کا تباہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔
تصویر: بشکریہ ڈان
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔