لال خان کو عالمی تاریخ اور سیاسی و سماجی تحریکوں کا وسیع علم تھا۔

لال خان کو عالمی تاریخ اور سیاسی و سماجی تحریکوں کا وسیع علم تھا۔
پاکستان میں انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے جو صنعتی، اقتصادی اور معاشی اصلاحات کیں، وہ اصلاحات ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی کی یادگار ہیں، جن میں پاسپورٹ کو عام آدمی کو فراہم کرنے سے لے کر کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینا تک شامل ہیں۔ انہوں نے ملٹی پارٹی سسٹم میں رہ کر پاکستان کو عملاً سوشلسٹ اصلاحات سے متعارف کروایا جو کہ مذاق نہیں۔ اس کی مختصر تفصیل اُن کی کتاب The Mirage of Power میں پڑھی جاسکتی ہے۔
صرف محنت کش طبقات کی متحدہ جدوجہد ہی بے حس حکمرانوں کو ان کے گندے ارادوں سے باز رکھ سکتی ہے۔
ان کے ادارے کو نیب کی رپورٹنگ کی پاداش میں انتقام کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
”انہیں تحریری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا۔ مجھے فخر ہے میں طلبہ کو تنقیدی انداز میں سوچنے اور بحث کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ میں نے بحث اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا اور طلبہ کو بتایا کہ ہر چیز پر سوال اٹھاؤ اور یہی بات انتظامیہ میں بیٹھے عقل کے اندھوں کو پسند نہیں آئی۔ وہ گلگت سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس سوچ کے ساتھ لاہور میں پڑھا رہے تھے کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔“
آخری تجزیے میں ہندی سینما تاریخی فکشن کو ایک نئے زاویے سے دکھا کر ہندو توا کا موثر پروپیگنڈہ کررہی ہے۔
مسلسل پیشیوں کے بعد گذشتہ روز کامل خان کی ضمانت منسوخ کر دی گئی۔ کامل خان کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ڈاکٹر عمار علی جان اور فاروق طارق نے اپنے اپنے فیس بک بیانات میں کامل خان کی ضمانت منسوخ ہونے کے خلاف آج لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اگر طالبان اور دیگر گروہوں کو ہم ضیا آمریت کی سیاسی باقیات کہتے ہیں تو ’راجہ گدھ‘ اور قدرت اللہ شہاب کے پیروکاروروں کی انیس سو اسی میں تصنیف کی گئی تحریروں کو ہم ضیا عہد کی ادبی باقیات قرار دے سکتے ہیں۔ ’راجہ گدھ‘ ان باقیات کا سرخیل ہے۔
”اب تک کشمیر یوں کو جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کے درمیان ایک علاقائی مسئلہ کی طرح دیکھا جاتارہاہے جس میں وادی کے باسیوں کو ایک ثانوی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ کشمیری اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل خود حل کریں۔ ہماری آزادی کی تحریک کوئی تیسرا فریق نہیں چلاسکتا، یہ جدوجہد ہمیں ہی کرنی ہوگی۔“
سرمایہ داری نظام کی ناکامیاں ہر میدان میں نظر آرہی ہیں۔ اس کا جواب ایک سوشلسٹ معیشت کے قیام سے ہی دیا جا سکتا ہے۔